مظفر آباد : لائن آف کنٹرول پر دشمن کے مورچوں کے سامنے مشکل ترین حالات میں کئی مرتبہ بھارتی فائرنگ سے معجزانہ طور پر بچ جانے والے مغل قبیلے سے تعلق رکھنے والے سردار عبدالقیوم خان نیازی پر 41 سال کے بعد قسمت کی دیوی اس طرح مہربان ہوئی کہ بڑے بڑوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا
وزارتِ عظمیٰ کے لئے تگ ودو کرنے والے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور تنویر الیاس گروپ کے مابین شدید اختلاف کی وجہ سے متوازن اور سب کے لئے قابل قبول شخصیت کا قرعہ نومنتخب وزیراعظم کے نام نکلا
اس طرح شیروانیاں سلوا کر وزیراعظم بننے کا خواب دیکھنے والوں پر سادہ کپڑوں میں ملبوس متوسط گھرانے کا فرد بازی لے گیا۔ کڑا احتساب، گڈ گورننس اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے واضح دو ٹوک پالیسی بیان نے عزائم واضح کر دیئے ہیں
آزاد کشمیر میں وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں بڑے بڑوں کو پیچھے چھوڑ کر آزاد کشمیر کے تیرہویں وزیراعظم منتخب ہونے والے سردار عبدالقیوم نیازی کا تعلق کنٹرول لائن پر واقع گاؤں درہ شیر خان سے ہے۔
سردار عبد القیوم نیازی کے والد ممبر ضلع کونسل تھے. انہوں نے عملی سیاست کا آغاز والد کی وفات کے بعد 1978ع میں بائیس سال کی عمر میں کیا اور دو مرتبہ ممبر ضلع کونسل منتخب ہوئے
ان کے نام کے ساتھ نیازی کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے. آزاد کشمیر کے سابق صدر اور وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان اور یہ ہم نام تھے، اخباری بیانات اور سرکاری خط و کتابت میں حکومتی مشینری کو مشکلات درپیش تھیں، جس پر سردار عبدالقیوم خان نے انہیں بلا کر کہا کہ آپ اپنے نام کے ساتھ کوئی لقب یا تخلص اختیار کریں، جس پر انہوں نے اپنے نام کے ساتھ “نیازی“ کا لاحقہ لگا دیا۔ بعدازاں اس نام کی وجہ سے انہیں بہت شہرت حاصل ہوئی اور وہ اسی نام سے جانے جانے لگے
وہ 2006ع میں پہلی بار مسلم کانفرنس کے ٹکٹ پر ممبر اسمبلی منتخب ہوئے اور اپنی پارلیمانی سیاست کا آغاز کیا۔ 2006 سے 2011 تک وزیرِ مال، جیل خانہ جات و دیگر رہے۔ 2011 اور 2016 میں انتخابات میں حصہ لیا، 2016 میں انتخابات انتہائی کم ووٹوں سے الیکشن ہار گئے جس پر انہوں نے اپنی پارٹی قیادت کو معاملہ اعلیٰ سطح پر اٹھانے کا مطالبہ کیا لیکن قیادت کی جانب سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا جس پر سردار عبد القیوم نیازی نے شدید احتجاج کیا اور بعد ازاں ایک سال مسلم کانفرنس کے ساتھ ناراض رہنے کے بعد وہ تحریک انصاف آزاد کشمیر کا حصہ بن گئے
سردار عبد القیوم نیازی کا تعلق دولی خاندان ، مغل قبیلے سے ہے۔ کنٹرول لائن پر کئی بار بھارتی گولہ بار سے بال بال بچے لیکن اس کے باوجود فائرنگ کے دوران زخمیوں کی عیادت کیلئے پہنچتے رہے. شدید خطرات کے باوجود انہوں نے کبھی بھی اپنا گاؤں نہیں چھوڑا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کا پورا حلقہ ایل او سی پر واقع ہے اس لیے اگر وہ گاؤں چھوڑ دیں گے تو ان کے حلقے کے عوام کا مورال کم ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے حلقے کے لوگوں کا ساتھ نبھانے والے شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں.
گولہ باری اور فائرنگ کے شدید خطرات کی وجہ سے سردار عبد القیوم نیازی نے تحریک انصاف کی پاکستان میں حکومت بنتے ہی سب سے پہلا مطالبہ کیا کہ ایل او سی کے لوگوں کو بنکر بنا کر دیے جائیں اور صحت کی سہولیات کی مہیا کی جائیں۔ پہلی فرصت میں وفاقی حکومت سے ایل او سی کے لوگوں کو صحت کارڈ کی سہولت فراہم کی
علاقے کے لوگوں کے مطابق سردار عبد القیوم نیازی نے ہمیشہ تمام قبائل کو ساتھ ملایا اور برادرزم کی حوصلہ شکنی کی اور یہی وجہ ہے کہ اپنے حلقے کے تیسرے نمبر کی برادری سے تعلق ہونے کے باوجود ہمیشہ دیگر قبائل ہزاروں ووٹرز کا اعتماد لینے میں کامیاب رہے
سردار عبدالقیوم خان نیازی نے 2016 کے الیکشن میں 20 ہزار کے قریب ووٹ لیے۔ 2021 کے الیکشن میں سردار عبد القیوم نیازی نے 24 ہزار 500 سے زائد ووٹ لیکر تمام برادریوں کا بھرپور اعتماد لیا.
سردار عبد القیوم نیازی کے بڑے بھائی سردار غلام مصطفیٰ 1985 اور 1995 دو بار آزاد کشمیر اسمبلی کے ممبر اور وزیر رہ چکے ہیں۔ سردار عبدالقیوم نیازی کے ایک چھوٹے بھائی سردار حبیب ضیاء سپریم کورٹ آزاد کشمیر کے منجھے ہوئے وکیل ہیں۔ ان کے تیسرے بھائی امریکا میں مقیم ہیں۔ سردار عبدالقیوم نیازی کا ایک بیٹا برطانیہ میں قونصلر ہے۔ سردار عبد القیوم نیازی آزاد کشمیر یونیورسٹی سے گریجویشن کر رکھی ہے.