نیویارک : دماغی قوت اور سکون کے لیے میڈیٹیشن یا مراقبے کو ہزاروں برس سے استعمال کیا جارہا ہے۔ اب ایک تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ روزانہ تھوڑے وقت کا مراقبہ صرف آٹھ ہفتوں میں اپنا اثر دکھاتا ہے اور دماغی سرکٹ تبدیل ہونے سے اس کے فوری فوائد حاصل ہوتے ہیں
یہ بات بنگھمٹن یونیورسٹی اور اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک نے ایک سروے کے بعد اپنے تحقیقی نتائج کے بعد کہی ہے
اس تحقیق سے قبل بھی مسلسل مراقبہ کرنے والوں کا ماننا ہے کہ اس سے دماغ میں خیالات کا شور کم ہوتا ہے اور ذہنی سکون ملتا ہے، لیکن اب تک اس کے سائنسی ثبوت بہت ہی کم دستیاب تھے
لیکن اب دس رضاکاروں پر اس کے تجربات کئے گئے ہیں اور چند ہفتوں میں سروے میں شامل طالب علموں کے دماغی سرکٹ میں تبدیلی دیکھی گئی اور انہوں نے ذہنی اور نفسیاتی بہتری کا اعتراف بھی کیا
اس تحقیق میں شامل کمپیوٹر سائنس کے لیکچرار جارج وائنشینک خود ایک عرصے سے مراقبہ کرتے رہے ہیں اور ان کے پاس اس کی باقاعدہ کئی اسناد بھی ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی کی پروفیسر وائی یِنگ دائی کے ساتھ مل کر یہ تحقیقات کی ہیں جو ایک عرصے سے ایم آر آئی اور دیگر دماغی اسکین سے الزائیمر سمیت کئی دماغی امراض پر تحقیق کر رہی ہیں
ان دونوں نے مل کر دس نوجوان طلبا و طالبات پر مراقبے کے اثرات پر سنجیدہ تحقیق کا پروگرام شروع کیا ۔ 2017 کے ماہِ اکتوبر میں انہیں کچھ رقم ملی اور مطالعاتی عمل شروع کیا گیا۔ پروفیسر جارج نے پہلے تمام شرکا کو مراقبہ سکھایا اور ان سے کہا کہ وہ ہفتے میں پانچ مرتبہ روزانہ دس سے پندرہ منٹ روزانہ مراقبہ کریں
تمام شرکا کے دماغی اسکین کورنیل یونیورسٹی کے جدید مرکز میں انجام دیئے گئے۔ تمام شرکا سے اپنے مشقوں کا رکارڈ رکھنے اور اسے لکھنے کو کہا گیا۔ ساتھ ہی یہ پوچھا گیا کہ ان کی فکر اور دماغی تازگی میں کتنی بہتری واقع ہوئی ہے
پروفیسر جارج نے بتایا کہ مطالعے میں بنگھمٹن یونیورسٹی کے بہترین طالبعلم شامل کئے گئے تھے جو اساتذہ کے حکم پر عمل کرتے تھے اور اس کام کو ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اسی لیے انہیں مراقبے کی مشق قائم کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی
اس تحقیق کے نتائج جرنل سائنٹفک رپورٹس میں شائع ہوئے ہیں۔ اس سے ایک اہم انکشاف یہ ہوا کہ مراقبے سے مختلف دماغی کیفیات کے درمیان سوئچنگ آسان ہوجاتی ہے۔ ان میں سے دو دماغی کیفیات بہت اہم ہیں جن میں سے ایک ’ڈیفالٹ موڈ‘ ہے جس میں دماغ جاگتے ہوئے آرام کی کیفیت میں رہتا ہے اور یا تو وہ خیالی پلاؤ پکاتا ہے یا پھر فکری آوارہ گردی میں ہوتا ہے۔ دوسرا ڈورسل اٹینشن نیٹ ورک ہے جس میں دماغ کی توجہ ایک ہی طرف ہوتی ہے
جن افراد نے مسلسل دو ماہ کا مراقبہ کیا ان کے دماغ میں ایسی لچک پیدا ہوئی کہ وہ دماغ کی دونوں کیفیات کو بہت تیزی سے بدل سکتے تھے اور یہ صلاحیت ہمارے لیے بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔ یعنی مراقبہ بھٹکے ہوئے ذہن کو فوری طور پر توجہ، یکسوئی اور ارتکاز کی جانب لے جاتا ہے. یہ خصوصیات ذہنی کارکردگی میں نمایاں اضافہ کرتی ہیں.