دور دراز علاقوں سے ایک تو کوئی خبر ہی مشکل سے آتی ہے، آتی بھی ہے تو وہ اکثر بری خبر ہی ہوتی ہے۔ شايد اسی لیے رسول پور جیسے گاؤں، سو فیصد شرح خواندگی اور زیرو فیصد جرائم کا ریکارڈ رکھنے کے باوجود ہمارے سنسنی زدہ میڈیا کے لیے خبر کا درجہ نہیں رکھتے
پاکستان مہں شمال مغربی پنجاب میں ایک ایسا چھوٹا سا مثالی گاؤں ”رسول پور“ آباد ہے، جو پوری دنیا کے لیے تہذیب و تمدن کا ماڈل بن سکتا ہے
سو فیصد خواندگی اور صفر فیصد جرائم کی شرح کے ساتھ اس گاؤں میں ہر سال 8 ستمبر کو تعلیم کا عالمی دن جشن کی طرح منایا جاتا ہے اور اس دن لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے لیے اساتذہ کے ٹھوس عزم کو سراہتے اور ان کی توصیف کرتے ہیں
ترکی کی اناطولو ایجنسی سے بات کرتے ہوئے رسول پور کے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول کی پرنسپل مہتاب جہاں نے بتایا کہ دو سال پہلے میرا ٹرانسفر اس گاؤں میں ہوا اور میں لوگوں میں ذمہ داری کے بہترین احساس سے حیران رہ گئی، سڑک پر کوئی کچرا نہیں ہوتا، پورا گاؤں ہی نان اسموکنگ زون ہے
رسول پور کی آبادی دو سے تین ہزار نفوس پر مشتمل ہے اور زیادہ تر رہائشی احمدانی بلوچ ہیں، جن کے آبا و اجداد 1933-34 میں بلوچستان سے یہاں آ بسے تھے
اس زمانے میں آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں تھا تو تعلیم ہی ان کے لیے زندگی گزارنے کا ذریعہ بن گیا
اس گاؤں میں دو ہائی اسکول اور ایک پرائمری اسکول ہے، ہائی اسکول میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد طالبعلم قریب واقع جام پور شہر کے کالج کا رخ کرتے ہیں، جو گاؤں سے پانچ چھ میل دور ہے
مہتاب جہاں نے بتایا کہ میرے اسکول میں تین سو لڑکیاں پڑھتی ہیں اور لگ بھگ اتنی ہی تعداد لڑکوں کے اسکول میں پڑھنے والوں کی ہے۔ ہم اقوام متحدہ کی طرف سے طے کیے گئے خواندگی کے اس معیار پر یقین نہیں رکھتے کہ جو محض اپنا، نام لکھ سکے وہ خواندہ ہے ، یہاں ہر فرد کو ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنا ہوتی ہے ورنہ بزرگوں کی جانب سے اسے معاشرے کا حصہ نہیں بننے دیا جاتا
پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈز سروے کے مطابق ملک میں 2019-20 میں شرح خواندگی 60 فیصد تھی. لیکن یاد رہے کہ یہ شرح خواندگی اوپر بیان کیے گئے اقوام متحدہ کے طے کردہ کم ترین معیار کے مطابق ہے، مگر جب رسول پور کی شرح خواندگی کی بات کی جاتی ہے تو یہ معیار کم از کم ہائی اسکولنگ ٹھہرتا ہے
اس اعلیٰ معیار کے مطابق رسول پور گاؤں کی تمام خواتین تعلیم یافتہ ہیں اور گزشتہ ایک سو سال میں یہاں کوئی جرم نہیں ہوا
لوگوں کے معاشرتی رویوں کی وضاحت کرتے ہوئے اور سو فیصد شرح خواندگی کے حصول کے اہم ترین عنصر پر روشنی ڈالتے ہوئے مہتاب جہاں کا کہنا تھا کہ یہاں گاؤں کی تمام خواتین تعلیم یافتہ ہیں۔ اس سے خواتین کی تعلیم کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ تمام بچے جیسے ہی چار سے پانچ سال کے ہوتے ہیں، وہ تعلیم شروع کردیتے ہیں
گاؤں میں ایک ”رسول پور ڈیولپمنٹ سوسائٹی“ کام کرتی ہے جو ایسے افراد کے لیے عطیات جمع کرتی ہے، جو تعلیم کا خرچہ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے، معاشرے کی جانب سے یہ بھی یقینی بنایا جاتا ہے کہ کوئی بھی اسکول چھوڑ کر نہ جائے
جام پور کے اسسٹنٹ کمشنر محمد فاروق نے گاؤں کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ گاؤں پوری دنیا کے لیے پاکستان کی حقیقی تصویر کی نمائندگی کرتا ہے، کہ کس طرح دنیا میں پاکستان کو دیکھا جانا چاہیے۔ یہاں کے لوگوں نے مل کر ہر ایک کے لیے تعلیم کے حصول اور رہائش کے لیے صاف اور دوستانہ ماحول کے قیام کو ممکن بنایا ہے
دہائیوں پرانے تعلیم کے عزم کو برقرار رکھنے، اس کی تجدید اور بچوں اور ان کے والدین کی حوصلہ افزائی کے لیے یہاں سالانہ تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں ایسے طالب علموں کی ستائش کی جاتی ہے جو یونیورسٹی کی سطح کے امتحانات میں پوزیشنز حاصل کرتے ہیں
رسول پور کے رہائشی دلاور سلیم نے بتایا کہ طالبعلموں کی حوصلہ افزائی اور ان کے سامنے بڑے بہن بھائیوں کی کامیابی کی کہانیوں کو بیان کرنے سے ان میں زیادہ بڑے مقاصد کے حصول کا عزم پیدا ہوتا ہے
صرف سو فیصد خواندگی ہی اس گاؤں کا طرہ امتیاز نہیں، بلکہ اس ماڈل ولیج کے پولیس اسٹیشن میں گزشتہ ایک سو برسوں یعنی پوری ایک صدی کے دوران جرم کا ایک کیس بھی رجسٹرڈ نہیں ہوا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگ ہر ایک کے حقوق کے حوالے سے کتنے ذمہ دار ہیں اور ان کے نزدیک دوسروں کے جان، مال اور عصمت کی کتنی اہمیت ہے
دلاور سلیم کے مطابق ‘ہمارا لوگوں کے درمیان رابطے کا ایک مضبوط نیٹ ورک ہے، جو ہمارے آباؤ اجداد سے ہم تک پہنچا۔ امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے حوالے سے کوئی بھی اپنی حد سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کرتا۔ یہ وہ اصول ہے جس کی وجہ سے ہم اپنے گاؤں میں جرائم کی شرح کو صفر رکھنے کے قابل ہوئے.