وہ فون کالز، جو آپ کو اپنی جمع پونجی سے محروم کر سکتی ہیں۔۔

ویب ڈیسک

کچھ دن قبل وومن چیمبرز آف کامرس کی موجودہ صدر شکیلہ بانو دو پہر ڈھائی بجے اپنے لاہور آفس میں اپنی بڑی بہن اور کچھ دیگر ساتھیوں کے ساتھ موجود تھیں کہ اچانک ان کی بہن کے فون پر ایک انجان نمبر سے کال موصول ہوئی

کال کرنے والے نے پہلا سوال یہ پوچھا ”کیا آپ نبیلہ (فرضی نام) بات کر رہی ہیں“

جب کال کرنے والے کو جواب ’ہاں‘ میں ملا تو اس نے کہا کہ ’ہم آپ کے بیٹے کو لے کر جا رہے ہیں‘۔ نبیلہ یہ سنتے ہی کافی پریشان ہو گئیں اور انہوں نے فوراً ہی فون کا اسپیکر آن کر دیا

شکیلہ بانو بتاتی ہیں کہ ان کے دفتر میں موجود ان کی بہن پہلے تو فون پر آرام سے بات کر رہی تھیں لیکن جب انہوں نے بیٹے کے متعلق سُنا تو ان کی آواز بلند ہو گئی اور انہوں نے فوراً فون کا اسپیکر آن کر دیا۔ نبیلہ اس دوران کال کرنے والے سے مسلسل پوچھتی رہیں کہ وہ ان کے کون سے بیٹے کو اور کیوں لے جا رہے ہیں، اور یہ کہ اس نے کیا کیا ہے؟ کیونکہ ان کے انیس اور بائیس سال عمر کے دو بیٹے ہیں

کال کرنے والے نے بڑی بدتمیزی سے کہا ”تمہارا بیٹا ہے اور تمہیں اس کے نام کا بھی نہیں پتا“

شکیلہ بانو کے مطابق ان کی بہن نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کے نام جانتی ہیں اور اسی لیے پوچھ رہی ہیں کہ کس بیٹے کو لے کر جا رہے ہو؟

اتنی دیر میں اسپیکر پر لگے فون سے کسی بچے کے رونے کی آواز آنے لگی، جو چلا رہا تھا کہ ’ماما یہ مجھے لے کر جا رہے ہیں، مجھے بچا لیں۔‘

شکیلہ بانو کے مطابق ان کی بہن اس دوران گھبراہٹ کے عالم میں لگاتار فون کرنے والے سے پوچھتی رہیں کہ وہ کون ہیں اور ایسا کیوں کر رہے ہیں؟

شکیلہ کے مطابق پہلے ہم نے سوچا کہ شاید بچوں کی کہیں لڑائی ہو گئی ہوگی مگر کال ختم ہونے کے تھوڑی دیر بعد مجھے کچھ کھٹکا کہ میری بہن کے بچے تو کافی بڑے ہیں لیکن جو رونے کی آوازیں انہیں فون پر سنائی گئی تھیں، وہ کسی چھوٹے بچے کی تھیں

اسی پریشانی اور سوچ کے عالم میں شکیلہ بانو اور ان کی بہن نے دونوں بچوں کے نمبروں پر کالیں کرنا شروع کر دیں، لیکن بچوں کے نمبرز پر رابطہ نہیں ہو رہا تھا، جس سے ان کی والدہ کی پریشانی مزید بڑھنے لگی کہ کہیں یہ بات واقعی میں سچ نہ ہو

شکیلہ بانو کے مطابق کافی دیر کوشش کرنے کے بعد بالآخر چھوٹے بیٹے سے بات ہو گئی اور جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ اس وقت کہاں ہے تو اس نے بتایا کہ وہ کالج میں پیپر دے رہا تھا اور ابھی فارغ ہوا ہے

لیکن چونکہ دوسرے بیٹے سے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا اس لیے ماں کی پریشانی یقین میں بدلتی جا رہی تھی کہ شاید مبینہ اغوا کار ان کے دوسرے بیٹے کو ساتھ لے گئے ہیں

شکیلہ بانو کے مطابق ”جس انجان نمبر سے کال آئی تھی، ہم نے انہیں دوبارہ کال کی اور کہا کہ بچے سے بات کروائیں، لیکن اس کے جواب میں دوبارہ وہی رونے کی آوازیں اور بچے کی التجائیں سُنائی گئیں کہ ’ماما یہ مجھے لے کر جا رہے ہیں۔۔۔‘

شکیلہ بتاتی ہیں ”اسی دوران ہمارا دوسرے بچے سے بھی رابطہ ہو گیا اور اس نے بتایا کہ وہ کہیں مصروف تھا اس لیے کال نہیں اٹھا سکا“

شکیلہ بانو کے مطابق: دونوں بچوں کی خیریت کی خبر سُن کر انہوں نے دوبارہ مبینہ اغوا کاروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن تھوڑی دیر میں وہ نمبر بند ہو گیا

شکیلہ بانو کے مطابق وہ آدھ پون گھنٹہ ان کی زندگی کا سب سے اذیت ناک وقت تھا۔ اُن کے مطابق ان کی بہن کو خوف کی اُس کیفیت سے نکلنے میں کئی گھنٹے لگ گئے تھے اور ’ہم اگر اس وقت باجی کے پاس نہ ہوتے تو ہو سکتا ہے کہ وہ جلد بازی اور گھبراہٹ میں انہیں پیسے بھی بھجوا دیتیں۔‘

مگر یہ سب کیا معاملہ تھا اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے ایک اور کیس پر بھی نظر دوڑا لیتے ہیں۔

ایسا ہی واقعہ ماہ نور کے ساتھ بھی پیش آ چکا ہے۔ ایک نجی چینل سے منسلک ماہ نور کو ایک فون کال اس وقت موصول ہوئی، جب وہ اپنے آفس میں کام میں مصروف تھیں ”ہیلو ماہا آپی میں ہادی بول رہا ہوں۔ میں اپنی ایک دوست سے ملنے فیصل آباد آیا ہوا تھا لیکن مجھے پولیس نے پکڑ لیا ہے۔ آپ پلیز ماما، پاپا کو نہ بتانا، یہ مجھے مار رہے ہیں آپ پلیز مجھے بچا لیں“

چند سینکڈ کی اس کال نے ماہ نور کے ہوش اڑا دیے، کیونکہ ہادی اس کی ایک کزن کا جواں سال بیٹا تھا

ابھی ماہ نور کی بات جاری ہی تھی کہ بظاہر ہادی سے فون چھین کر ایک دوسراشخص ماہ نور سے سخت لہجے میں مخاطب ہوا ”ہم صدر تھانہ فیصل آباد سے بول رہے ہیں اور آپ کے کزن ہادی کو ایک لڑکی کے چکر میں ہم نے پکڑ لیا ہے اور اب مزید کاروائی کرنے لگے ہیں“

ماہ نور اس اچانک صورتحال سے گھبرا گئیں اور اسی دوران فون کرنے والے نے کہا ”اگر آپ چاہتی ہیں کہ آپ کے کزن کے خلاف ریپ کیس درج نہ ہو تو کچھ پیسوں کا فوری بندوبست کریں تاکہ معاملہ رفع دفع کیا جا سکے

پچاس ہزار سے ڈیل شروع ہوتے ہوتے پچیس ہزار اور پھر پندرہ ہزار پر فائنل ہو گئی

ماہ نور کے مطابق وہ کنفیوژ ہو گئی تھیں اور اس کے بعد فون کرنے والے نے ایک نمبر شیئر کیا کہ اس پر جاز کیش کروا دیں

معاملے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے ماہ نور نے خاندان میں کسی سے بات کرنا مناسب نہیں سمجھا، لیکن اسی دوران ماہ نور کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ چینل کے فیصل آباد بیورو سے رابطہ کیا جائے اور وہاں سے کسی کو تھانے بھیجا جائے تاکہ حقیقت معلوم کیا جا سکے کہ معاملہ کیا ہے؟

ماہ نور نے فیصل آباد بیورو سے اپنے ایک کولیگ کو تھانہ صدر فیصل آباد بھیجا، جس نے پتا کر کے بتایا کہ ان کے پاس تو ایسا کوئی کیس نہیں آیا۔ ماہ نور کے مطابق ابھی وہ اسی کشمکش میں مبتلا تھی کہ کیا کریں، اسی دوران اسی انجان نمبر سے دوبارہ کال آئی اور ماہ نور نے انہیں بتا دیا کہ انہوں نے تھانے سے پتا کروایا ہے، لیکن وہاں تو ایسا کوئی کیس نہیں

اس پر کالر نے شدید غصے کا اظہار کیا کہ انہوں نے خود سے تھانے کیوں رابطہ کیا ہے

کالر نے ماہ نور کو بتایا کہ وہ اب ریپ کا شکار ہونے والی لڑکی کو لے کر میڈیکل ہسپتال جا رہے ہیں اور اب اگر اپنے کزن کو بچانا ہے تو اب پیسے زیادہ ہی دینے پڑیں گے

ماہ نور کے اصرار پر کال کرنے والوں نے پھر ہادی سے بات کروائی کہ آپی مجھے بچا لو یہ مجھے مار رہے ہیں۔ اسی دوران ماہ نور نے کرائم کی بیٹ کور کرنے والے اپنے ایک دوست کو کال کر کے ساری صورتحال بتائی، جس نے کہا کہ فوری طور پر پہلے ہادی کے گھر فون کریں۔ ماہ نور کے مطابق جب اس نے ہادی کے گھر فون کیا تو ہادی گھر پر ہی موجود تھا

ماہ نور نے بتایا کہ اس اچانک صورتحال اور پھر کال کرنے والوں کا اس کا نام لے کر بات کرنا اور کزن کا نام بھی بتانا، اس سے وہ پریشان ہو گئی تھی اور وہ سمجھ رہی تھی شاید اس کے کزن کے ساتھ واقعی کچھ ایسا ہو گیا ہے

آپ کو اگر خود کوئی ایسی کال موصول نہیں بھی ہوئی تو آپ کے کسی عزیز یا جانے والے کو کسی انجان نمبر سے ایسی کال ضرور آئی ہوگی، جس میں کال کرنے والا آپ کا نام لے کر آپ کو مخاطب کرتا ہے اور وہ آپ سے آپ کے شناختی کارڈ نمبر، اے ٹی ایم کارڈ نمبر، بنک اکاﺅنٹس وغیرہ کی تفصیلات پوچھتا ہے اور اس کی وجہ عموماً یہ بتاتی جاتی ہے کہ بینک کو یہ تفصیلات اکاؤنٹ کی ویریفیکیشن یا بنک اکاﺅنٹ کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے ضروری ہیں

جیسے ہی آپ یہ تفصیلات شیئر کرتے ہیں تو کال کرنے والا فوراً انٹرنیٹ بنکنگ آن کرواتا ہے اور پھر تھوڑی مزید تفصیلات اور پاس ورڈ حاصل کر کے اکاؤنٹ سے رقم غائب ہو جاتی ہے

یہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے مالی دھوکہ دہی کی کئی اقسام میں سے یہ ایک ہے، جس کا شکار سادہ لوح شہریوں کے ساتھ ساتھ بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی ہو چکے ہیں

وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے کے مطابق اس طرح کے مالیاتی فراڈ کی پانچ مختلف اقسام ہیں، جن میں اے ٹی ایم فراڈ، بنک اکاﺅنٹ فراڈ، جعلی کالز کے ذریعے ریپ، قتل وغیرہ جیسے سنگین جرائمز میں ملوث کرنے کا خوف دلا کر رقم ہتھیانا، کسی غیر ملک میں بسنے والے رشتہ دار کا دوست بن کر فراڈ کرنا اور انعام وغیرہ کا لالچ دے کر رقم بٹورنا

انجان کالرز کا یہ طریقہ واردات اس طریقے سے ترتیب دیا گیا ہوتا ہے کہ آپ کو سوچنے، سمجھنے یا اس عزیز کے گھر فون کر کے پتا تک کرنے کی مہلت نہیں دی جاتی اور اس فراڈ کے ذریعے کچھ ہی دیر میں اچھی خاصی رقم بٹور لی جاتی ہے

ایف آئی اے اہلکاروں کے بقول یہ منظم گروہ فیصل آباد، حافظ آباد، سرگودھا اور لاہور ڈویژن سے زیادہ تر آپریٹ کرتے ہیں جب کہ پورے ملک میں یہ ہر سال ہزاروں سادہ لوح شہریوں کے علاوہ پڑھے لکھے طبقے کے افراد سے بھی کروڑوں روپے فراڈ کے ذریعے لوٹتے ہیں

سرکاری ریکارڈ کے مطابق ایسے کیسوں کی تعداد سینکڑوں سے بڑھ کر اب ہزاروں میں پہنچ چکی ہے اور مسلسل بڑھ رہی ہے

گذشتہ کئی سالوں سے سائبر کرائمز کے کیسوں کو ڈیل کرنے والے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ پنجاب کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد سرفراز چوہدری کا کہنا ہے کہ پہلے آن لائن ہراسانی، سوشل میڈیا اکاﺅنٹس کو ہیک کرنا یا ان پر قابل اعتراض مواد نشر یا شائع کرنے جیسے کیس زیادہ رپورٹ ہوتے تھے لیکن حالیہ چند برسوں میں فانینشل فراڈ کی تعداد سائبر کرائمز ونگ میں رپورٹ ہونے والے کیسوں میں سب سے زیادہ ہے

محمد سرفراز چوہدری کے مطابق ایسے تمام جرائمز کی جڑ جعلی سمیں اور جعلی اکاﺅنٹس ہیں جنھیں منظم گروہ بڑی چالاکی سے شہریوں کا ڈیٹا لے کر ایکٹیویٹ کرتے ہیں

ایف آئی اے کے سینیئر افسر کے مطابق ملزمان بڑے منظم طریقے سے اس جرم کو انجام دیتے ہیں اور اس کام کے لیے شہریوں کا نجی ڈیٹا بنکوں، ٹیلی کام کمپنیوں، ری ٹیل کی دکانوں، نادرااور دیگر ذرائع سے وہاں کے عملے کی ملی بھگت سے حاصل کرتے ہیں جس کے لیے باقاعدہ ادائیگی کی جاتی ہے، یعنی ڈیٹا خریدا جاتا ہے

سرفراز چوہدری کے مطابق انھوں نے کئی ایسے کیسوں میں بنک اور ٹیلی کام کمپنیوں کے عملے کے لوگوں کو گرفتار بھی کیا جو شہریوں کا ڈیٹا ایسے جرائم پیشہ گروہوں کو فروخت کرنے میں ملوث تھے

دوسری طرف ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ فیصل آباد میں تعینات ایک اور تفتیشی افسر کے مطابق ’بنک سٹیٹمنٹ، کال ڈیٹا ریکارڈ (سی ڈی آر)، لوکیشن، شناختی کارڈ (فوٹو کاپی)، ٹریول ہسٹری، جعلی سمیں وغیرہ سب بکتا ہے بس آپ کے پاس پیسے ہونے چاہیں۔‘

ان کے مطابق ملزموں سے دوران تفتیش یہ بھی معلوم ہوا کہ اب وہ ایسی ایپس کا سہارا لیتے ہیں جن کی مدد سے شہریوں کا خفیہ ڈیٹا، شناختی کارڈ نمبر، گھر کا ایڈریس تک باآسانی مل جاتے ہیں

تفتیشی افسر کے مطابق ایسے جرائم کے لیے فراڈ گینگ کے ممبران رینڈم لوگوں کے نمبروں پر کالیں کرتے ہیں اور اس دوران سمارٹ فون کے بجائے سادہ فون استعمال کیا جاتا ہے اور ایک گینگ ایک ہی وقت میں مختلف شہروں سے آپریٹ کرتا ہے

تفتیشی افسر کے مطابق فراڈ میں ملوث لوگ روزانہ سینکڑوں کالیں کرتے ہیں اور لوگوں کو جھانسہ دے کر لوٹنے میں کامیابی کی ان کی شرح پانچ سے دس فی صد ہوتی ہے۔ یہ لوگوں کو ریپ وغیرہ جیسے جرائمز کا بتا کر ڈراتے ہیں اور پھر ان سے بھی پیسے بٹورتے ہیں

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ گینگ باقاعدہ شفٹوں میں کام کرتے ہیں اور اس دوران بچوں کے رونے اور پولیس وائرلیس کی ریکارڈڈ آوازیں بھی ضرورت کے مطابق استعمال کرتے ہیں تاکہ متاثرہ شخص جھانسے میں آ جائے۔

تفتیشی افسر کے مطابق شہریوں کو ڈرا دھمکاکر لوٹنے کا ریٹ پچاس ہزار سے شروع ہوتا ہے اور اگر متاثرہ پارٹی کی مالی حیثیت کمزور ہو تو یہ ریٹ کم ہوتے ہوتے دس سے پندرہ ہزار تک بھی ہو جاتا ہے

انہوں نے بتایا ’زیادہ تر یہ لوگ پولیس والوں کا روپ دھار کر ہی فون کرتے ہیں اور سادہ لوح لوگ ان کے ڈراؤے میں آ جاتے ہیں۔‘

مگر یہ فراڈ گینگ کیسے آسانی سے سالہا سال سے اتنا بڑا فراڈ کر رہے ہیں اور قانون کی گرفت سے باہر ہیں، اس سوال کے جواب ایف آئی اے سائبر کرائم کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمد سرفراز چوہدری کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ ان کا ادارہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور ایسے گینگ کو کھلی چھوٹ ہے بلکہ وہ روزانہ کی بنیاد پر ایسے جرائم پیشہ لوگوں کو پکڑتے ہیں

سرفراز چوہدری کے بقول سال 2022ع میں بھی سینکڑوں ایسے لوگوں کو گرفتار کیا گیا، جن کے قبضے سے سمیں اور نقدی بھی برآمد کی گئی اور بہت سے لوگوں کو سزائیں بھی دلوائی گئیں

سائبر سرکل ملتان اور فیصل آباد کے مطابق گذشتہ سال اس نوعیت کے فراڈ میں ملوث پانچ سو سے زیادہ ملزمان گرفتار ہوئے

سائبر کرائمز ونگ لاہور کے ایک تفتیشی افسر کے مطابق ان لوگوں کے جھانسے میں آ کر ماضی میں بہت سے سینیئر سرکاری عہدیداران بھی اپنی کمائی سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ اُن کے بقول 2018ع میں اے ٹی ایم اور بنک اکاﺅنٹ کی ویریفیکیشن فراڈ کے صرف ایک کیس میں ملزمان ایک خاتون کے اکاﺅنٹ سے تین کروڑ کی خطیر رقم حاصل کر لی تھی تاہم بعدازاں چند ملزمان پکڑے گئے تھے

اس نوعیت کے فراڈ سے بچا کیسے جائے اور حکام اس کے سدباب کے لیے کیا کر رہے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے چوہدری سرفراز کہتے ہیں کہ شہریوں کو محتاظ اور چوکنا ہونا ہو گا اور کبھی بھی فون پر کسی کو اپنی ذاتی معلومات کسی صورت شیئر نہ کریں۔ سرفراز چوہدری کے مطابق کوئی بھی بینک یا ٹیلی کام کمپنی کبھی بھی فون کر کے آپ کے اے ٹی ایم کارڈ، شناختی کارڈ اور بنک کی تفصیلات نہیں پوچھتے، اور نہ ہی وہ کبھی یو اے این نمبر سے کال کرتے ہیں، ایسی کوئی بھی کال ہمیشہ جعلی ہو گی اور جرائم پیشہ گروہوں کی طرف سے ہی ہوگی

ایف آئی اے کے افسر کے مطابق جرائم پیشہ گروہ سافٹ ویئرز کی مدد سے اس طرح کال کر سکتے ہیں جس سے شہریوں کو لگتا ہے کہ جیسے وہ کال کسی ٹیلی کام کمپنی کے یو اے این نمبر سے ہی آ رہی ہو۔ سرفراز چوہدری کے مطابق سافٹ وئیرز کی مدد سے 15 تک کی جعلی کال ملائی جاسکتی ہے اور یہ گینگ اس طرح کے کام کرتے بھی ہیں

سرفراز چوہدری کے مطابق جعلی سموں کی بندش اور جرائم پیشہ لوگوں کی معاونت کرنے والی ایپس فوری طور پر بند ہونی چاہیں تب جاکر اس جرم پہ قابو پایا جا سکے گا

انھوں نے کہا کوئی بھی کال فون پر آنے کی صورت میں صارف کو چاہیے کہ وہ خود 15 یا مقامی پولیس سے رابطہ کرے اور انھیں موصول ہونے والی کال اور تفصیلات سے آگاہ کرے

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارتی یعنی پی ٹی اے کی ترجمان ملاہت عبید کا کہنا ہے کہ جعلی سموں کی روک تھام کے لیے اتھارٹی نے پچھلے سال دسمبر سے اپنے سسٹم میں بہت سی تبدیلیاں کی ہیں اور ایک مربوط نظام متعارف کروایا ہے

’دسمبر سے ہم نے موبائل سموں کی ویریفیکیشن کے لیے ملٹی فنگر بائیومیٹرک ویریفیکیشن سسٹم متعارف کروا دیا ہے تاکہ جعلی سمز کے ذریعے ہونے والے فراڈ سے شہریوں کو بچایا جا سکے۔‘

ترجمان کے مطابق اس نئے سسٹم سے انگلیوں کے جعلی نشانات سے سم کارڈ حاصل کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سموں کی رجسٹریشن کی پوری ذمہ داری پی ٹی اے کی ہی ہے اور وہ جعلی سموں کی رجسٹریشن کی روک تھام میں اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں پی ٹی اے کی ترجمان ملاہت عبید نے بتایا کہ انٹرنیٹ پر چلنے والی مختلف ایپس جس سے شہریوں کا ڈیٹا حاصل کیا جاتا ہے اس کی ذمہ داری مختلف سٹیک ہولڈر پہ عائد ہوتی ہے جس میں ایف آئی اے، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان یعنی ایس ای سی پی، سٹیٹ بنک آف پاکستان وغیرہ شامل ہیں کیونکہ ایپس کوئی کمپنی چلا رہی ہوتی ہے جس کے متعلق پی ٹی اے کو ایس ای سی پی بتائے گا تو ہم کاروائی کریں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close