دیہاتی تھانوں میں انگریز کے زمانے سے جرائم کی بیخ کنی کے لیے ’ڈی ایف سی‘ (Detective Foot Constable) کا نظام رائج ہے۔
اس کا مکمل تذکرہ، ذمہ داریاں اور دائرہ کار، پولیس رولز 1861 میں موجود ہے۔
ڈی ایف سی، بنیادی طور پر کانسٹیبل یا ہیڈ کانسٹیبل رینک کا پولیس افسر ہوتا ہے جسے دیہاتی تھانوں میں آٹھ سے دس دیہات پر مشتمل ایک بیٹ دے دی جاتی ہے۔
ڈی ایف سی، عرصہ دراز تک ایک ہی بیٹ میں تعینات رہتے ہیں جس کے باعث وہ اپنی بیٹ میں شامل دیہات، وہاں کی سرکردہ شخصیات اور جرائم پیشہ افراد سے متعلق مکمل آگاہی رکھتے ہیں، اس لیے انہیں اس علاقے کا ’انسائیکلوپیڈیا ‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
دیہات میں کسی کے ہاں باہر سے آنے والے مہمانوں کی تفصیلات ہوں یا کسی شخص کی مالی حیثیت میں اچانک تبدیلی رونما ہونے کا معاملہ، انہیں اپنے ذرائع سے فوراً خبر مل جاتی ہے، لہٰذا وہ انچارج تھانہ اور دیگر افسران کو گاہے بگاہے اپنی بیٹ میں شامل دیہات سے متعلق معلومات فراہم کرتے رہتے ہیں۔
میں نے بطور پولیس آفیسر اپنے کیریئر میں متعدد نامی گرامی مجرمان کو ڈی ایف سی کی معاونت سے گرفتار کیا۔ یہ فٹ کانسٹیبل جہاں تھانے میں جرائم کی بیخ کنی میں معاون ثابت ہوتے، وہیں انہیں اپنی اپنی بیٹ میں شامل دیہات میں بھی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ ایک ’سرپنچ‘ کی طرح اکثر اوقات گاؤں میں ہونے والے معمولی نوعیت کے جھگڑوں اور تنازعات کو دونوں پارٹیوں کو سن کر، وہیں حل کرنے کا ملکہ بھی رکھتے ہیں۔
اللہ دتہ ہیڈ کانسٹیبل، گذشتہ دس سال سے ملتان میں بدھلہ سنت بیٹ میں بطور ڈی ایف سی تعینات تھا اور اہل علاقہ بھی اسے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
ایک دفعہ غالباً اتوار کے دن میں تھانے کے صحن میں بیٹھا ہوا تھا کہ اللہ دتہ ڈی ایف سی، ایک فائل ہاتھ میں تھامے ہنستا ہوا تھانے داخل ہوا۔
ساتھ ہی اس نے فائل میرے سامنے ٹیبل پر رکھ دی۔ اس میں ایک ڈی آئی جی آفس کی جانب سے موصول ہونے والی درخواست تھی، جسے میں نے گذشتہ ہفتے اللہ دتہ ہیڈ کانسٹیبل کو معاملے کی ضروری جانچ پڑتال کے لیے مارک کیا تھا۔ اس کے ساتھ ایک عدد ہاتھ سے لکھا ہوا ’صلح نامہ‘ بھی تھا، جس پر درخواست دہندہ اور الزام علیہان کے دستخط تھے اور ساتھ دو، تین گواہان کے انگوٹھوں کے نشانات بھی ثبت تھے۔
میں نے اللہ دتہ کو شاباش دی کہ اس نے جہاں اپنی مہارت اور ذہانت سے معاملے کا تصفیہ خوش اسلوبی کے ساتھ کروایا اور گاؤں کو خونریزی سے بچایا، وہیں پولیس کے قیمتی وقت کی بچت بھی کی جو پارٹیوں کو بار بار تھانے بلانے اور قانونی کارروائی کے دوران ضائع ہوتا۔ مگر میری سوئی تاحال اس کی مسکراہٹ سے لبریز انٹری پر اٹکی ہوئی تھی۔
بالآخر میں نے اس سے، اس کی غیرمعمولی مسکراہٹ کی وجہ پوچھی تو اللہ دتہ ڈی ایف سی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’سر! بات ہی ایسی ہے کہ آپ بھی سنیں گے تو بہت ہنسیں گے۔‘
اللہ دتہ ہیڈ کانسٹیبل نے بتایا کہ راواں گاؤں میں دو زمینداروں کے درمیان راستے کا دیرینہ تنازع چل رہا تھا، جو رفتہ رفتہ شدت اختیار کرتا جا رہا تھا اور کسی بھی وقت اس تنازعے کی وجہ سے دونوں پارٹیوں کے درمیان مڈبھیڑ ہو سکتی تھی اور شدید نقص امن کا خطرہ تھا۔
الزام علیہہ پارٹی چوہدری غفران کا ڈیرہ گاؤں میں داخل ہوتے ہی شرقاً غرباً واقع تھا۔ ڈیرے کے ساتھ تھوڑی سی جگہ الزام علیہہ فریق نے شروع سے خالی چھوڑی ہوئی تھی، جسے اہل علاقہ بطور راہ گزر استعمال کر رہے تھے۔
میاں امجد سنڈھل بھی اسی علاقے کا ایک بااثر زمیندار تھا۔ اس نے اپنے گھر اور ڈیرے کی تعمیر شروع کر رکھی تھی اور وہ سامان کی ترسیل کے لیے اسی راستے کو استعمال کر رہا تھا، تاہم دو ماہ قبل چوہدری غفران نے اس خالی جگہ پر گیراج کی تعمیر شروع کر دی جس سے راستہ تنگ ہو گیا۔ اس پر دونوں فریقین میں کافی کشیدگی چل رہی تھی۔
ایک ماہ قبل میں نے میاں امجد سنڈھل (درخواست دہندہ) سے بھی کہا کہ وہ معاملے کو طول دینے کی بجائے افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کرے۔ جس پر میاں امجد سندھل نے مجھے کہا کہ ’میں ان دونوں پارٹیوں کا تصفیہ کروا دوں۔‘ جس پر میں نے حامی بھرلی۔
اگلے ہی روز میاں امجد سنڈھل نے مجھے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ اس کا بیٹا جو کینیڈا سے پی ایچ ڈی کر کے آیا ہے، اس نے اپنے ایک دوست ڈی آئی جی سے بات کی ہے اور وہ معاملہ سنبھال لے گا۔
مجھے وقتی طور پر بہت دکھ ہوا کہ اس نوجوان نے، اپنی اعلیٰ تعلیم اور تعلقات کے زعم میں اپنے باپ کو روکا ہے کہ معاملہ ایک سپاہی کو نہ سونپے۔
چنانچہ اس نے درخواست ڈی آئی جی صاحب کو بھجوائی۔ ڈی آئی جی صاحب نے ایس پی صاحب کو اور ایس پی صاحب نے ڈی ایس پی صاحب کو بھجوا دی۔ وہاں سے یہی درخواست آپ کے پاس آئی اور آپ نے جانچ پڑتال کے لیے مجھے بھجوا دی۔
کل میں وہی درخواست لے کر موضع راواں گیا۔ دونوں پارٹیوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا اور ان کا موقف سنا۔ چوہدری غفران اس بات پر بضد تھا کہ زمین اس کی ملکیتی ہے اور وہ اس پر تعمیر کا حق رکھتا ہے۔ میں نے اسے تجویز دی کہ زمین اس کی ملکیت ضرور ہے لیکن گذشتہ کئی سالوں سے بطور رستہ استعمال ہو رہی ہے، اب اگر میاں امجد کا گھر اور ڈیرہ تعمیر ہو رہا ہے تو وہ بھی خیر سگالی کے طور پر دو ماہ کے لیے گیراج کی تعمیر کو موخر کر سکتا ہے، جس پر وہ رضا مند ہو گیا۔ میں نے میاں امجد سنڈھل کو بھی پابند کیا کہ وہ معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے، دوماہ کے اندر اپنے ڈیرے اور گھر کی تعمیر کو مکمل کرے۔ یوں یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہوگیا۔
جب میں دونوں پارٹیوں کی گفتگو سن رہا تھا، تو اس دوران میاں امجد کا اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹا بھی وہیں موجود تھا، جو مسلسل سر جھکائے بیٹھا رہا۔ معاملہ نمٹانے کے بعد میں نے اس نوجوان سے کہا کہ ’برخوردار! اگر ایک ماہ پہلے آپ میری بات مان لیتے تو یہ معاملہ اسی وقت ختم ہو جاتا، لیکن کیونکہ آپ نے اپروچ ڈی آئی جی صاحب کو کیا لہٰذا میرے تک درخواست آتے آتے ایک ماہ گزر گیا۔‘
میں نے اس نوجوان کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا کہ ’بیٹا آپ یقیناً اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو اور آپ کی رسائی بھی بہت اوپر تک ہے، لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھو کہ درخواست خواہ تم آئی جی صاحب کو دو، معاملہ دتہ سپاہی نے ہی حل کرنا ہے کیونکہ موقعے کا افسر یہی ہے۔‘
میری بات سن کر تمام لوگ ہنسنے لگ گئے اور میری بھی ہنسی نکل گئی۔
بشکریہ انڈپینڈنٹ