حال ہی میں ہونے والے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے چھہترویں اجلاس کے ساتھ ساتھ وہاں ہونے والی سفارتی ملاقاتوں سے اندازہ ہو رہا ہے کہ انڈو پیسیفک خطے میں طاقت کا نیا توازن قائم ہونے جا رہا ہے اور امریکا چین سے نمٹنے کے لیے اپنے شراکت داروں کے درمیان مزید ہم آہنگی پیدا کرنے کا خواہشمند نظر آ رہا ہے
لیکن بھارت اور امریکا کی قربت کے حوالے سے ان مذاکرات کے دوران بھارت کے سامنے مسئلہ متعدد آپشنز کا ہے، جن میں سرفہرست امریکا کے ساتھ اس کے تعلقات میں فوجی عنصر کا شامل ہونا ہے
واضح رہے کہ ایک طویل عرصے سے بھارت کا کسی بڑی طاقت کے ساتھ فوجی اتحاد نہ کرنے کا مؤقف رہا ہے، جو اب آزمائش میں پڑ گیا ہے، کیونکہ امریکا کا علی الاعلان اور واضح مقصد یہ ہے کہ طالبان کے زیرِ کنٹرول افغانستان میں مستقبل قریب میں فوجی صلاحیتیں برقرار رکھی جائیں، جبکہ بھارت اس بارے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے
آپ کو یاد ہوگا کہ افغانستان میں امریکی مشن کے اختتام پر صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ ’ہم افغانستان اور دیگر ممالک میں شدت پسندی کے خلاف جنگ لڑتے رہیں گے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ ہم زمینی جنگ لڑیں۔ ہمارے پاس ایسی صلاحیت ہے جس کے ذریعے ہم شدت پسندوں اور اہداف کو بغیر زمینی فوج بھیجے نشانہ بنا سکتے ہیں اور (اگر فوج بھیجنے کی) ضرورت پڑے بھی تو بہت کم تعداد میں‘
دوسری جانب امریکا جب خطے پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے متعدد محاذوں مثلاً آکس (امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا) اور کواڈ (امریکہ، انڈیا، جاپان اور آسٹریلیا) کی قیادت کر رہا ہے، تو چین نے بھی عوامی سطح پر اپنی ناراضگی کا اظہار کر دیا ہے
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت کا امریکا کے ساتھ فوجی اتحاد ممکن ہے؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے، کیونکہ بھارت نے اب تک خود کو ایک مضبوط فوجی اتحاد میں شامل کرنے کی مبینہ امریکی کوششوں سے بچائے رکھا ہے
افغانستان پر طالبان کے قبضے اور پاکستان کی جانب سے امریکا کو اڈے دینے سے انکار کے بعد بھارت میں امریکا کی فوجی موجودگی کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے
یوں تو بھارتی حکومت نے فوجی اڈے فراہم کرنے کی کسی بات چیت کی فوری تردید کی ہے، اور بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے کہا ہے کہ اُنہوں نے صرف میڈیا سے ہی امریکا کو فوجی اڈے فراہم کرنے کی بات سنی ہے
باگچی نے دعویٰ کیا کہ امریکی کانگریس میں سماعتوں کے دوران ہونے والا غور و خوض اس سے ’تھوڑا مختلف‘ ہے، جو میڈیا نے انٹونی بلنکن کے ریمارکس کے بارے میں رپورٹ کیا ہے
بھارت کے امریکا کے ساتھ فوجی روابط حالیہ برسوں میں بڑھے ہیں اور اب دونوں فریقین کے درمیان تین بنیادی اہمیت کے فوجی معاہدے موجود ہیں
ان میں بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ (بیکا)، لاجسکٹس ایکسچینج میمورینڈم آف ایگریمنٹ (لیموا) اور کمیونیکیشنز کیپیبلٹی اینڈ سکیورٹی ایگریمنٹ (کوم کاسا) شامل ہیں
لیکن بھارت کی جانب سے امریکی فوج کو اپنے اڈے دینے میں ہچکچاہٹ کے پیچھے جو ‘اسٹریٹجک خود مختاری’ کا تصور ہے، اس کا ایک تاریخی اور گہرا ثقافتی پس منظر ہے، جسے سمجھنے کے لیے بھارت کے سیکریٹری خارجہ اور سابق مشیر قومی سلامتی شیو شنکر مینن کی کتاب ‘چوائسز’ میں بھارتی خارجہ پالیسی کے ممکنہ مستقبل کا خلاصہ پیش نظر رکھنا پڑے گا، جس کے مطابق ‘بھارت اپنی اسٹریٹجک خود مختاری مضبوط کرنے، پرزور انداز میں آزاد رہنے اور اپنے بے مثال اسٹیٹس اور مفادات پر قائل رہنے کی کوشش کرے گا۔’
ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ”آکس“ سے بھارت اور ”کواڈ“ کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں؟ حال ہی میں امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان طے پانے والے فوجی معاہدہ ’آکس‘ نے کئی مبصرین کو حیران کر دیا ہے
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس نئے اتحاد، جس کے تحت آسٹریلیا کو برطانیہ اور امریکا سے جوہری آبدوزیں ملیں گی، اس سے کواڈ گروپ کی اہمیت کم ہو جائے گی
اس حوالے سے بھارتی خارجہ اُمور کی تجزیہ نگار سہاسنی حیدر کا کہنا ہے کہ کواڈ کافی آگے بڑھ چکا ہے، مگر آکس کے اعلان نے کواڈ سے ایک طرح سے اہمیت اور کچھ حد تک سکیورٹی کی چمک دھمک بھی چھین لی ہے
اسی طرح اسٹریٹجک اُمور کے ماہر نتن پائی نے آکس کو کواڈ سے زیادہ مضبوط اتحادی تعلق قرار دیا ہے
اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ لوگوں کا سوال ہے کہ ”آکس میں انڈیا اور جاپان بھی شامل ہو سکتے ہیں یا نہیں“ تاہم اُن کے مطابق ”اگر ایسا ہو سکتا ہے تو پھر اس (آکس) کی ضرورت ہی کیا تھی؟“
بھارت نے امریکا کی جانب سے چین کا پلڑا برابر کرنے کے لیے کواڈ گروپ میں شمولیت اختیار تو کر لی ہے، مگر اسے چین کے ساتھ دو طرفہ سطح پر نمٹنے کے لیے سخت چیلنجز کا سامنا ہے
مشرقی لداخ میں سولی ماہ تک جاری رہنے والے فوجی تنازعے کا مکمل حل اب بھی باقی ہے اور بھارتی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق چین اس خطے میں بھارتی فوجی تعیناتیوں کے جواب میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر اپنی طرف بلندی پر موجود اگلے مورچوں میں سپاہیوں کے لیے شیلٹرز تیار کر رہا ہے
دوسری جانب اس معاملے پر نئی دہلی کے عوامی بیانات میں کوئی ربط دیکھنے میں نہیں آتا. وزیرِ اعظم نریندر مودی نے گذشتہ سال کہا تھا کہ چین کی جانب سے کوئی دخل اندازی نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ‘ایک انچ’ بھارتی زمین پر اس نے کنٹرول حاصل کیا ہے. مگر بھارت کی وزارت خارجہ نے حال ہی میں 24 ستمبر کو کہا ہے کہ طویل عرصے سے جاری یہ سرحدی تنازع سرحد پر چین کی جانب سے اشتعال انگیز رویے اور زمینی صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے
اس دوران خطے میں ایک اور معاملہ بھی سامنے آیا ہے. چین نے جنوبی اور مشرقی بحیرہ چین کے متنازع حصوں میں سمندری نظام ’زبردستی تبدیل‘ کرنے کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔ چینی سرکاری نیوز ویب سائٹ ’دی پیپر‘ کے مطابق چینی وزارت خارجہ نے انڈین اور جاپانی رہنماؤں کی جانب سے ’معاشی زبردستی‘ اور ’یکطرفہ کوششوں‘ کے بیانات کو مسترد کیا ہے
جمعہ کو بیجنگ میں بریفننگ کے دوران چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے کہا کہ جھوٹ اور الزامات کی بنیاد پر سفارتکاری بالکل بھی تعمیری نہیں
ان کا کہنا تھا کہ معاشی زبردستی کی جائے پیدائش اور صدر دفتر واشنگٹن میں ہے۔ پہلی بات چین دھمکیاں نہیں دیتا اور نہ ہی تجارتی پابندیاں عائد کرتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ چین اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرتا۔ تیسری بات یہ کہ چین مختلف ممالک میں کمپنیوں کو بلاوجہ دباتا نہیں ہے۔ کسی بھی صورت میں معاشی زبردستی کا الزام چین پر عائد نہیں کیا جا سکتا
یاد رہے کہ کواڈ اتحاد، جس میں امریکا، آسٹریلیا، انڈیا اور جاپان شامل ہیں، کا پہلا ’ان پرسن‘ اجلاس آج واشنگٹن ڈی سی میں ہونے جا رہا ہے۔ خیال ہے کہ کواڈ اتحاد میں ایشیا پیسیفک علاقے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ پر بات ہو گی اور اس اجلاس کی میزبانی امریکی صدر جوبائیڈن وائٹ ہاؤس میں کر رہے ہیں
بنیادی طور پر چین کے بڑھتے سیاسی اور اقتصادی اثر و رسوخ پر قابو پانے کے لیے تشکیل دیے گئے اس اتحاد کی میٹنگ کو بھارت میں بڑی اہمیت دی جا رہی ہے، لیکن اس حوالے سے یہ تاثر بھی موجود ہے کہ بھارت امریکی اتحاد اور چین کے درمیان پھنس گیا ہے
واضح رہے کہ ژاؤ نے مذکورہ بالا بیان بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور جاپانی وزیر اعظم سوگا ہوشیدے کے ان بیانات کے ردعمل میں دیا تھا، جن میں انہوں نے چین پر الزام لگایا تھا کہ اس نے جنوبی بحیرہ چین اور مشرقی بحیرہ چین میں سمندری نظام تبدیل کرنے کی یکطرفہ کوشش کی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے چین کی مذمت کی تھی اور علاقائی سمندری حدود میں بیجنگ کے اثر و رسوخ کی طرف اشارہ کیا تھا. دونوں رہنما واشنگٹن میں کواڈ اتحاد کے اجلاس میں موجود تھے، جہاں امریکا اور آسٹریلیا کی قیادت بھی آئی تھی
چینی وزارت خارجہ نے کواڈ اتحاد سے مطالبہ کیا ہے کہ دوسرے ممالک کو ہدف نہ بنایا جائے۔ چین سمجھتا ہے کہ علاقائی تعاون کے کسی اتحاد کو کسی تیسرے فریق یا اس کے مفادات کو ہدف نہیں بنانا چاہیے. چھوٹے گروہ کے طور پر تعاون کرنا جس میں دوسرے ممالک کو شامل نہ کیا جائے یا انھیں ہدف بنایا جائے یہ جدید دور کے رجحان کے خلاف ہے۔ یہ علاقائی ممالک کی خواہشات کے خلاف ہے اور اس کی تقدیر میں ناکام ہونا لکھا ہے
چین کی وزارت خارجہ نے کواڈ کو دراصل ایک چین مخالف اتحاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے یہ امریکہ کی سرد جنگ کی ذہنیت کا عکاس ہے لیکن اس طرح کا اتحاد کامیاب نہیں ہو سکتا
یاد رہے کہ ڈیرھ برس قبل لداخ خطے میں بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان خونریز جھڑپوں کے بعد دونوں ملکوں کے ہزاروں فوجی پورے جنگی سازوسامان کے ساتھ ایکچول کنٹرول لائن پر تعینات ہیں۔ دونوں ملکوں کے تعلقات گذشتہ برس کی جھڑپ کے بعد بدستور خراب ہیں
بھارت نے چین سے اپنا تجارتی تعلق بہت کم کر دیا ہے۔ کشیدگی سے پہلے چین اور بھارت بڑے تجارتی پارٹنر بن چکے تھے
جنرل ایڈمنسٹریشن کسٹمز آف چائنا کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2019 میں چین اور بھارت کی باہمی تجارت 93 بلین ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ بھارت نے چین سے تجارت پر بہت سخت پابندياں عائد کی ہیں
چینی امور کی ماہر پروفیسر ریتو شا تیواری کہتی ہیں کہ ’ان اقدامات سے چین اور انڈیا دونوں کو نقصان پہنچا ہے لیکن بظاہر دونوں کے مؤقف میں کسی نرمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔‘
بھارت میں واشنگٹن کی کواڈ میٹنگ کو بڑی اہمیت دی جا رہی ہے۔ اس اجلاس میں انڈیا افغانستان کے حوالے سے پاکستان پر تو نشانہ لگائے گا ہی، لیکن اس میں اصل توجہ چین پر مرکوز ہوگی
پروفیسر ریتوشا کہتی ہیں کہ اب جب کہ بھارت غیر جانبداری کا مؤقف چھوڑ کر ایک چین مخالف وسیع تر اتحاد کا حصہ بننے جا رہا ہے، تو چین سے بھارت کے تعلقات، جو پہلے سے ہی خراب ہیں، وہ یقیناً مزید خراب ہونگے
بھارت پہلی بار اس قدر کھل کر سامنے آ رہا ہے، لیکن کواڈ کے ممالک کتنا کھل کر اس کی طرف آتے ہیں، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے
اس سے قبل لداخ میں چین کو جھڑپ سے پہلی والی پوزیشن پر واپس لانے کے لیے بھارت چین سے ایک درجن سے زیادہ بار مذاکرات کر چکا ہے، لیکن اس میں ابتدائی کامیابی ملنے کے بعد مزید پیشرفت نہ ہو سکی
بھارت ایک طرف کواڈ کی طرف قدم بڑھا چکا ہے، تو دوسری جانب شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن میں بھی چین اور روس کے ساتھ اشتراک کی باتیں کر رہا ہے، یہ اس کی اپنی کشمکش کا عکاس ہے
امریکا اور مغربی ملکوں سے کسی طرح کے عسکری اتحاد کے بارے میں بھارت میں ہمیشہ شک و شبہات رہے ہیں، لیکن چین سے ٹکراؤ کی صورتحال نے اسے کواڈ کی طرف دھکیل دیا ہے
یہ مودی حکومت کے لیے بھی ایک مشکل فیصلہ تھا، لیکن اب کوئی راستہ نہ ہونے کے سبب اس کا جھکاؤ واضح طور پر ایک ایسے ممکنہ عسکری اتحاد کی طرف نظر آتا ہے، جو چین کے خلاف مؤثر ثابت ہو.