آخری سبق (فرانسیسی ادب سے منتخب افسانہ)

الفونس دودے

(الفونس دودے کی اس کہانی کا اصلی عنوان La dernière classe ہے اور یہ کہانیوں کے مجموعے پیر کی کہانیاں (Contes du lundi) سے لی گئی ہے، جو پہلی بار 1873 میں شائع ہوا تھا۔ کہانی میں مذکور الزاس (Alsace) کا علاقہ آج کل فرانس کا حصہ ہے، لیکن یہ ماضی میں فرانس اور جرمنی کے مابین متنازعہ علاقہ رہا ہے. یہ علاقہ کبھی فرانس تو کبھی جرمنی کے قبضے میں رہا ہے۔ کہانی کے واقعات اس زمانے سے تعلق رکھتے ہیں، جب الزاس پر تازہ تازہ جرمنی کا قبضہ ہوا تھا۔ کہانی کا موضوع کسی قوم کی شکست کے نتیجے میں جنم لینے والے انفرادی اور قومی المیے ہیں، جن میں تہذیبی ورثے کی تباہی بھی شامل ہے، لیکن اس پیچیدہ اور مشکل موضوع کو مصنف نے ایک بچے کے مشاہدات اور احساسات کے ذریعے ایسے سادہ، آسان اور دلچسپ انداز پیش کیا ہے، کہ پڑھنے والا اس کہانی کا حصہ بن جاتا ہے. ہم سنگت میگ کے باذوق قارئین کے لیے اس کا خوبصورت اردو ترجمہ پیش کر رہے ہیں.)

اس دن صبح اسکول جانے میں مجھے کافی دیر ہوچکی تھی، ڈانٹ پڑنے کے خیال نے مجھے خوفزدہ کر دیا تھا، ڈر کے مارے میرا برا حال تھا، بالخصوص اس وجہ سے کہ ماسٹر ہیمل صاحب ایک دن پہلے خبردار کرچکے تھے کہ وہ فرانسیسی گرامر میں فعل کے صیغے اور صفت پر ہمارا ٹیسٹ لیں گے… اور مجھے فرانسیسی زبان کے صیغے تو دور، اس کی حروف تہجی بھی نہیں یاد تھی۔
ایک لمحے کے لیے میرے ذہن میں آیا کہ میں اسکول جانے کے بجائے، کیوں نہ باہر کھیتوں میں آوارہ گردی کروں۔ گرمیوں کے دن تھے اور دھوپ سے دمکتا اور پیارا دن نکلا ہوا تھا… میں دور پیڑوں کے جھنڈ کے سے چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں سن سکتا تھا، آرا مشین کی مِل کے پیچھے کے کھلے میدان میں ڈرلنگ اور مارچ میں مصروف پروشیائی سپاہیوں کو دیکھ سکتا تھا۔ فرانسیسی گرامر کی مصیبتوں کے مقابلے میں یہ نظارے کہیں زیادہ دلچسپ تھے! لیکن بڑی مشکل سے اپنے جذبات کو قابو کر کے اور پریشان کرنے والے خیالات کو ذہن سے جھٹک کر، میں تیزی سے اسکول کی طرف دوڑنے لگا۔

دوڑتے ہوئے چوک پر بلدیہ کی عمارت میں میئر کے دفتر کے پاس سے گزرتے ہوئے مجھے وہاں کے نوٹس بورڈ کے ارد گرد بڑا سا مجمع نظر آیا۔ پچھلے دو برسوں سے ساری بری خبریں ہمیں اسی بورڈ پر نظر آتی تھیں۔ ہاری ہوئی جنگیں.. جبری بھرتی کے اعلانات.. نئے حاکموں کے حکم نامے… میں وہاں رکے بغیر بورڈ پر سرسری سی نگاہ ڈال کر آگے بڑھ گیا، میں نے دل ہی دل میں سوچا:
”اب بچا ہی کیا ہے ہونے کے لیے….؟“

جب چوک سے آگے نکلا تو مجھے قریب سے سرپٹ بھاگتا دیکھ کر واچر Wachter لوہار نے، جو اپنے زیرِ تربیت ملازم کے ساتھ وہیں کھڑا اعلان پڑھنے میں مصروف تھا، مجھ سے کہا،
‘‘ارے بیٹا، اتنا تیز مت بھاگو، ابھی کافی وقت ہے، تم تو ویسے بھی جلدی اسکول پہنچ جاؤ گے.“
مجھے ایسا لگا کہ وہ میرا مذاق اڑا رہا ہے، اس لیے میں نے دوڑنا جاری رکھا. جب میں بھاگتا ہوا اسکول کے چھوٹے سے باغیچے تک پہنچا تو میرا سانس پھولا ہوا تھا.

عام دنوں میں اسکول شروع ہوتے وقت خاصا شور غل ہوا کرتا تھا، جو سڑک سے ہی سنائی دینے لگتا تھا.. اسکول کے بچوں کا ڈیسکوں کو پیٹنا، آوازیں ملا کر زور زور سے سبق پڑھنا اور ماسٹر صاحب کی لوہے سے بنے بھاری بھرکم رُولر سے میزوں پر ٹھَک ٹھَک… ساری آوازیں گلی میں صاف سنائی دیتی تھیں.

میں یہ سوچ کر آیا تھا کہ کلاس کے شوروغل اور ہنگامے کا فائدہ اٹھا کر کلاس کے سامنے تماشا بنے بغیر چپ چاپ اپنی بنچ پر جا بیٹھوں گا، لیکن اس دن ہر چیز پر خاموشی طاری تھی، ایسا سکون تھا جیسے وہ اتوار کا دن ہو۔ میں نے کھڑکی سے جھانک کر اندر دیکھا کہ میرے سارے ہم جماعت اپنی اپنی نشستوں پر چپ چاپ بیٹھے تھے اور ہیمل صاحب اپنا لوہے کا خوفناک رُولر ہاتھ میں اٹھائے ہوئے کمرے میں آگے پیچھے ٹہل رہے تھے۔ مجھے دروازہ کھول کر اس غیر معمولی خاموشی میں سب کے سامنے سے گزرنا بہت مشکل لگا… میں دروازے پر ٹھٹک کر کھڑا ہوگیا، عین اس وقت ماسٹر ہیمل نے مجھے دیکھ لیا.
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں شرم سے کتنا لال ہو چکا تھا اور ڈر کے مارے میرا کتنا برا حال تھا!

مگر میری پریشانی بے وجہ ثابت ہوئی. ماسٹر ہیمل نے کسی ناراضی کا اظہار کیے بغیر میری طرف دیکھا اور پھر بڑے نرم لہجے میں بولے، ”فرانز بیٹے، جلدی سے اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ.. ہم تو تمہارے بغیر ہی کلاس شروع کرنے والے تھے.“

بنچ پھلانگ کر میں جلدی سے اپنی ڈیسک پر جا کر بیٹھ گیا۔ میرا ڈر جب ذرا ہلکا ہوا، تب جا کر مجھے اس کا احساس ہوا کہ ہمارے ماسٹر صاحب اپنے خوبصورت سبز رنگ کے کوٹ، جھالروں سے بھری قمیص اور سیاہ کامدانی والی ریشمی ٹوپی زیب تن کر کے آئے تھے، جس پر خوبصورت کڑھائی کا کام کیا گیا تھا۔ ایسا لباس تو وہ صرف انسپیکشن کے دن اور انعام تقسیم ہونے والے دن ہی پہنتے تھے.

ساری کلاس پر ایک عجیب بوجھل فضا طاری تھی.. پھر اور بھی حیرت کی بات یہ تھی کہ کمرے کی پچھلی بنچوں پر، جو ہمیشہ خالی رہتی تھیں، گاؤں کے چند لوگ بالکل خاموشی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.. ان میں بوڑھا ہاؤزر اپنی تکونی ٹوپی پہنے، بلدیہ کے سابق صدر، پنشن یافتہ بوڑھا ڈاکیہ اور کئی اور لوگ بھی شامل تھے. یہ سب بڑے اداس نظر آرہے تھے…

ہاؤزر اپنے ساتھ ایک مُڑے تُڑے ورقوں والا پرانا سا قاعدہ لے کر آیا تھا، جو اس کے گھٹنوں پر پھیلا ہوا تھا اور جس کے کھلے صفحے پر اس کی بڑے شیشوں والی عینک رکھی ہوئی تھی..

اپنے ارد گرد کی ان خلافِ معمول چیزوں کو دیکھ کر ابھی میں حیرت میں ہی تھا، کہ ماسٹر ہیمل صاحب اپنی کرسی پر کھڑے ہو گئے اور اسی سنجیدہ اور باوقار لہجے میں، جس کے ساتھ ذرا پہلے وہ مجھ سے مخاطب ہوئے تھے، بولے،
”میرے بچّو، میں آج جس کلاس میں تمہارے ساتھ ہوں، یہ میری آخری کلاس ہے۔ برلن سے حکم آیا ہے کہ اب الزاس اور لورین کے اسکولوں میں صرف جرمن زبان پڑھائی جائے گی۔ تمہارے نئے استاد کل یہاں آئیں گے.. تمہارے لیے یہ فرانسیسی زبان کا آخری سبق ہے.. چنانچہ میں تم سے اب مکمل توجہ کی درخواست کرتا ہوں.“

ان چند الفاظ نے میرے دل میں ہلچل مچادی، مجھے دنیا درہم برہم ہوتی محسوس ہوئی۔ تو گویا بلدیہ کے نوٹس بورڈ پر نئے اعلان کی صورت میں یہی منحوس خبر ٹنگی ہوئی تھی!
میرا فرانسیسی کا آخری سبق! مجھے تو ابھی ٹھیک سے لکھنا بھی نہیں آیا تھا، اور میں فرانسیسی کبھی بھی نہ سیکھ سکوں گا… میری یہ کمی اسی طرح رہے گی! اس وقت مجھے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا، میرا دل بہت بےچین ہوگیا.. اس وقت بےحد تاسف کے ساتھ احساس ہو رہا تھا کہ میں اب تک کس طرح وقت ضائع کرتا رہا تھا.. کلاس چھوڑ کر چڑیوں کے انڈوں کی کھوج، دریائے سار کے کنارے پھسلنے کا کھیل.. وہی کتابیں جن سے میں اب تک بیزار رہتا تھا اور جن کا بوجھ اٹھانا مجھے گراں گزرتا تھا، وہی گرامر، وہی بزرگوں کے قصّے، یہی سب کچھ اس وقت مجھے اتنے پیارے، پرانے دوست لگ رہے تھے، جن سے بچھڑنا اب دکھ دینے والا عمل لگ رہا تھا.. یہی بات ماسٹر ہیمل صاحب کے بارے میں بھی کہہ سکتے تھے! یہ خیال، کہ وہ ہمیں چھوڑ جائیں گے اور ہم ان کو پھر کبھی نہ دیکھ پائیں گے، ایسا تھا کہ میں ان کی ساری بدمزاجی اور ان کے رُولر سے مار کھانے کی سب سزائیں بھولنے کو تیار تھا..
لو، تو اسی آخری کلاس کی خاطر وہ اپنا سب سے اچھا، تہوار کے دن کا لباس پہن کر آئے تھے۔ اب جاکر میری سمجھ میں آیا کہ گاؤں کے اتنے سارے بوڑھے لوگ کلاس میں پچھلی نشستوں پر بیٹھنے کے لیے کیوں آئے تھے. صاف ظاہر تھا کہ وہ بھی پچھتا رہے تھے کہ جب ان کے پاس موقع تھا، اس وقت انہوں نے پابندی سے اسکول میں حاضری کیوں نہ دی.. جس استاد نے اپنے چالیس سال ان سب کی بے لوث خدمت میں گزار دیے تھے، یہ لوگ اب اپنے اپنے طریقے سے اس استاد کی قدر دانی کا فریضہ ادا کر رہے تھے.. ساتھ ہی ساتھ وہ اس وطن سے اپنی وابستگی ظاہر کر رہے تھے، جو اب ان سے چھن گیا تھا..

ابھی میں انہی سوچوں میں تھا کہ میرا نام پکارا گیا. سبق سنانے کے لیے آج میری باری تھی. اس جانی پہچانی گردان کو بلند آواز میں کسی غلطی کے بغیر دہرانے کے لیے میں کیا کچھ نہ قربان کرنے کو تیار تھا! مگر میں پہلے ہی لفظ پر اٹک کر رہ گیا، اور پھر سر جھکائے بنچ کا سہارا لیے چپ چاپ کھڑا رہا. شرم اور خوف سے میرا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا. مجھے سر اٹھا کر سامنے دیکھنے کی ہمّت تک نہ ہو رہی تھی.. پھر مجھے ماسٹر ہیمل صاحب کی آواز سنائی دی:
”فرانز بیٹے، میں اس وقت تمھیں جھڑکوں گا نہیں.. تمہاری اپنی شرمندگی سزا کے لیے کافی ہے.. دیکھ لو، ہم پر کیا بیتی ہے؟ ہم روزانہ اپنے آپ سے کہتے ہیں کہ ‘ابھی بہت وقت ہے.. میں کل کتاب پڑھ لوں گا’ اب ہمیں احساس ہو رہا ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ ہمارے الزاس شہر کی بدقسمتی یہی ہے، کہ ہم اپنا ہر کام کل پر ٹالتے رہتے ہیں۔ اب وہ دوسرے لوگ ہم سے ٹھیک ہی تو کہتے ہیں کہ ‘تم سب لوگوں کو اپنے فرانسیسی ہونے کا کیسا عجیب گھمنڈ ہے.. تم اپنی زبان تک نہ ٹھیک سے پڑھ سکتے ہو، نہ لکھ سکتے ہو!’ اب ہم پر جو گزر رہی ہے اس میں صرف اس بچّے فرانز ہی کا قصور نہیں ہے، اپنی تباہی کے ذمّےدار بڑی حد تک ہم سب ہیں… تمہارے والدین نے جتنی ضرورت تھی تمہاری تعلیم پر اتنا زور نہیں دیا۔ وہ تو تم سے کھیتوں پر اور مِلوں میں کام لینے کو ترجیح دیتے تھے، تاکہ وہ تھوڑے سے اور پیسے کما سکیں.. کیا میں خود ملامت سے بری ہوں؟ میں نے خود بھی تم بچّوں کا اسکول کا کام روک کر تم سے اپنے باغیچے میں پانی ڈلوایا ہے اور جب بھی مچھلی کے شکار کے لیے میرا جی چاہا، تو میں کلاس کو جلدی چھٹی دے دیتا تھا.“

موضوع بدلتے بدلتے ماسٹر ہیمل صاحب آخرکار فرانسیسی زبان کے بارے میں بات کرنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دنیا کی سب سے خوبصورت زبان ہے.. یہ بیان کے لحاظ سے سب سے زیادہ واضح اور قاعدوں کے لحاظ سے سب سے زیادہ معقول زبان ہے.. اس کی حفاظت کرنا اور اس کو کبھی نہ کھونا ہمارا فرض ہے. کیونکہ ‘‘اگر کوئی قوم غلام بن جائے، مگر اس کے باوجود وہ اپنی زبان سے چمٹی رہے اور اس کو نہ بھولے تو یہ ایسا ہی ہے، جیسے کسی قیدی کی جیب میں قید خانے کے دروازے کی چابی رکھی ہو.“

پھر انہوں نے گرامر کی کتاب کھول کر اس میں سے سبق پڑھانا شروع کیا. اس وقت جس طرح ہر بات میری سمجھ میں آرہی تھی، اس پر میں خود حیران تھا.. ان کی ایک ایک بات آسانی سے مجھے ذہن نشیں ہو رہی تھی. میرے خیال میں اس سے پہلے میں نے کبھی اتنی توجہ سے سبق نہیں سنا تھا اور شاید انہوں نے بھی کبھی اس طرح آہستہ آہستہ قاعدے نہیں سمجھائے تھے.. ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ہم سے بچھڑنے سے پہلے اپنا پورا علم ہم تک پہنچانا چاہ رہے تھے، اور کوشش کر رہے تھے کہ اس آخری موقعے پر سارے قواعد ہمارے ذہنوں میں بیٹھ جائیں.
اس سبق کے بعد کتابت اور خوشخطی کی باری آئی. اس دن کے لیے ماسٹر ہیمل صاحب نے بالکل نئی مشقیں تیار کی تھیں، جن پر بہت ہی خوشخط گول گول حروف میں لکھا ہوا تھا: ”فرانس، الزاس، فرانس، الزاس.“ ایسا لگ رہا تھا کہ ہماری ڈیسکوں کے اوپر گڑے ہوئے کھونٹوں سے بندھے ہوئے ننھے ننھے جھنڈے لہرا رہے تھے.. کلاس کے سارے بچّے جس انہماک سے کام کر رہے تھے، وہ سماں دیکھنے کے لائق تھا!

کیسی خاموشی تھی! کاغذ پر قلم گِھسنے کی آواز کے علاوہ کوئی اور آواز نہیں سنی جا سکتی تھی.. اسی درمیان میں کچھ پتنگے اُڑتے ہوئے کلاس میں گھس آئے، مگر کسی نے ان کی طرف توجہ نہیں دی. بلکہ بالکل ہی ننھے بچّوں کی توجہ بھی نہ بٹی، جو پوری یکسوئی سے اپنے اپنی لکڑی کی سلیٹوں کے ارد گرد پنسل گھما کر ان مشقوں کو اتارنے کا کام کر رہے تھے، جیسے کہ یہ بھی فرانسیسی کی تحریر ہو!

اسکول کی چھت پر کبوتر بھاری آواز میں غٹرغوں کر رہے تھے۔ میں نے اپنے دل ہی دل میں کہا، ”تو کیا اب ان کبوتروں کو بھی جرمن زبان ہی میں غٹرغوں کرنے کا حکم دیا جائے گا….؟“

وقتاً فوقتاً جب میں نے کاغذ سے نظریں اٹھائیں تو دیکھا کہ ماسٹر ہیمل صاحب اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے کبھی ایک چیز کو اور کبھی دوسری چیز کو نظر بھر کر یوں دیکھ رہے تھے، جیسے وہ اسکول کی اس چھوٹی سی عمارت کی ہر چیز اپنی یادداشت میں محفوظ کر لینا چاہ رہے ہوں۔
ذرا غور کیجیے! چالیس سال سے وہ اسی ایک جگہ رہتے تھے. کھڑکی کے باہر ان کا صحن نظر آتا تھا اور ان کے سامنے ان کے شاگرد بیٹھے رہتے تھے. ان کے چاروں طرف بالکل ایک ہی سماں رہتا تھا. ہاں اس عرصے میں کثرتِ استعمال سے گھس کر بنچیں اور ڈیسکیں ذرا چکنی ہو گئی تھیں. صحن کے اخروٹ کے درخت پہلے سے بڑے ہو گئے تھے اور جو بیل انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے لگائی تھی، وہ پھیل کر کھڑکیوں کا احاطہ کرتی ہوئی چھت تک پہنچ گئی تھی.. بھلا ان کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی ان سب چیزوں کو چھوڑتے ہوے! اوپر کے کمرے سے اپنی بہن کی سامان باندھنے کی آوازیں سنتے ہوئے! اگلے دن ان کو یہ ملک ہمیشہ کے لیے چھوڑ جانا تھا…

بہر صورت، انہوں نے کلاس کے وقت کے آخری لمحے تک ہمیں پڑھایا. لکھائی کی مشق کے بعد تاریخ کا سبق ہوا. اس کے بعد ننھے بچوں نے مل کر ”با۔ بے۔ بی۔ بو۔ بُو“ گایا۔

کلاس میں پیچھے بیٹھے ہوئے ہاؤزر نے عینک لگا کر اور اپنے قاعدے میں دیکھ دیکھ کر سارے حروف بچوں کے ساتھ دہرائے۔ جذبات کی شدت سے اس کی آواز میں ارتعاش تھا. اس کے پوری محنت سے کام کرنے میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا تھا.. ہاں، اس کا پڑھنے کا انداز مضحکہ خیز حد تک عجیب تھا.. اسے دیکھ کر جہاں ہم سب کو ہنسی آرہی تھی، وہیں ہمارا رونے کو بھی دل چاہ رہا تھا.. آہ! یہ آخری سبق مجھے ساری زندگی نہیں بھولے گا…!

اچانک ٹاؤن ہال گھنٹا گھر کی گھڑی سے بارہ بجنے کی آواز آئی. پھر دوپہر کی عبادت کے لیے چرچ کی گھنٹیوں کا نغمہ بجا. اسی وقت فوجی پریڈ سے واپس آنے والے پروشیائی سپاہیوں کے نقاروں کی آواز ٹھیک ہماری کھڑکیوں کے نیچے سے گونجتی سنائی دی.
ماسٹر ہیمل صاحب کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے. ان کا قد مجھے پہلے کبھی اتنا اونچا نہیں نظر آیا تھا. ان کے چہرے کا رنگ اس وقت بالکل زرد ہو رہا تھا.

انہوں نے کہنا شروع کیا:
”میرے دوستو….! میں…. میں….“

لیکن وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ پائے.. ایسا لگ رہا تھا کہ ان کا حلق گھُٹ رہا ہے، اس لیے وہ اپنا جملہ مکمل نہیں کر پا رہے..

کچھ بولنے کے بجائے آخر وہ تیزی سے بلیک بورڈ کی طرف مڑے اور ایک چاک اٹھا کر اپنی پوری طاقت سے چاک کو بورڈ پر گھس کر اور جتنے بڑے حروف ان سے بن سکتے تھے، ایسے حروف بنا کر انہوں نے لکھا:
”فرانس زندہ باد!“

پھر وہ دیوار پر سر ٹکا کر وہیں کھڑے رہے، اور انہوں نے منہ سے کچھ کہے بغیر ہمیں صرف ہاتھ سے اشارہ کیا، جس کا مطلب تھا:
”سب کچھ ختم ہو گیا! اب گھر جاؤ….“


فطرتیت کی تحریک کے نمائندہ فرانسیسی شاعر، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار
الفونس دودے Alphonse Daudet 

الفونس دودے (الفونس ڈوڈیٹ)، Alphonse Daudet نے فرانس کے شہر نیمس Nîmes کے ایک خوشحال خاندان میں 13 مئی 1840ء کو جنم لیا ۔ اس کی پیدائش کے چند سال بعد ہی اس کے والد ونسنٹ دودے کا ریشم کا کاروبار نقصان کی وجہ سے بند ہوگیا، اس لیے دودے کا بچپن اور اوائلِ جوانی کا زمانہ انتہائی تنگی میں گزرا، حتّیٰ کہ وہ اسکول کی تعلیم بھی مکمل نہ کر پایا. لیکن اس نے کم عمری ہی سے شاعری اور فکشن لکھنا شروع کر دیا تھا۔ 1856ع میں وہ لیون Lyon شہر چھوڑ کر فرانس کے جنوب میں الیس گارڈ کے اسکول میں کلاس اسسٹنٹ کی حیثیت سے کام کرنے لگا، لیکن چند سال میں ہی تدریس ترک کردی اور اپنے بھائی ارنسٹ دودے کے پاس فرانس چلا گیا اور ایک صحافی کی حیثیت سے لکھنا شروع کیا. اٹھارہ برس کی عمر میں اس نے نظموں کی پہلی کتاب ”عاشق“ Les Amoureuses لکھی، پھر کچھ کہانیاں اور ڈرامے تخلیق کیے، جس سے اس نے ادبی حلقوں میں امتیازی پہچان بنائی۔ نپولین سوم کے وزیر مورنی نے اسے اپنا سکریٹری مقرر کیا. وہ اس عہدے پر 1865ع میں مورنی کی وفات تک برقرار رہا۔
جنوری 1867 میں اس نے جولیا الارڈ سے شادی کی، جو خود بھی ایک باصلاحیت مصنفہ تھی، جس سے اس کے دو بیٹے، لیون اور لوسیئن ، اور ایک بیٹی ، اڈی ہوئی۔ دودے کی زندگی آزاد منش اور بے حد غیر روایتی تھی. ناکامی سے دوچار لا ابالی اطوارِ زندگی اور غربت کی وجہ سے اس کی صحت ہمیشہ کمزور رہی. علاج کے لیے اسے کئی آپریشن سے گزرنا پڑا، جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ وہ مفلوج سا ہو گیا اور اسے اپنی باقی زندگی بستر پر گذارنی پڑی، لیکن اس نے لکھنا ترک نہیں کیا۔ اسی بیماری سے وہ صرف 57 سال کی عمر میں پیرس میں دفات پا گیا۔ اس نے بے شمار ادب پارے فرانسیسی ادب کے لیے تخلیق کیے، جن میں شاعری کے علاوہ نو ناول، کہانیوں کے گیارہ مجموعے اور دس ڈرامے شامل ہیں۔ ان کی کئی تخلیقات، خاص طور پر کہانیوں کے کئی زبانوں میں تراجم ہوئے۔
الفونس دودے کی کہانیوں میں اس کے بہت سارے کردار اس کی اپنی اور اپنے شناساؤں کی زندگی پر مبنی ہیں۔ اس کو ادب میں فطرت پسند (Naturalist) تحریک کا نمائندہ گنا جاتا ہے، مگر تخیلی عناصر، نفسیاتی کشمکش، اور انسانی دکھ درد پر زور دینے کی وجہ سے اس کی تخلیقات عام فطرت پسندوں سے بہت حد تک مختلف ہیں، یہی وجہ ہے کہ اسے فرانسیسی ادب میں ایک منفرد مقام حاصل ہے.


سنگت میگ میں شائع ادبی پارے:

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close