خریدلو

عصمت چغتائی

”کیتھی کیتھی سنو!۔۔۔۔“میں نے اسے بار بار پکارا۔مگر وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار اپنے نارنجی میولز پھٹکارتی ٹیوب سٹیشن کی طرف لپک گئی ۔

کیتھی مشکل سے پندرہ برس کی ہوگی۔ اس میں ابھی اپنی قوم کی سنجیدگی چپ اپنانے کا سلیقہ پیدا نہیں ہوا۔ وہ کسی کوک دیئے ہوئے کھلونے کی طرح بولے ہی چلی جاتی ہے۔کبھی تو خودہی سوال کر کے خود ہی جواب ٹکا دیتی ہے۔ پارے کی طرح تڑپتی ہوئی خوش رنگ، رس بھری کی طرح میٹھی، بالکل بے قرار چلتی کیاہے بس بھاگتی ہے۔ ہر قدم پر پر تولتی ہوئی، جیسے کوئی دم میں پُھر سے اُڑ جائے گی۔ فاختہ جیسے معصوم چہرے پر پھدکتی ہوئی منی سی ناک، گول گول سبز آنکھیں، چکنی بے داغ گٹا پارچہ جیسی جلد۔ جہاں میں ٹھہری ہوئی ہوں اس کے نیچے دوکمروں کے گھٹے ہوئے فلیٹ میں اپنی ماں مسز راس کے ساتھ رہتی ہے۔ مسز راس بلاؤز کے کار خانے میں کام کرتی ہے۔کیتھی سکول جاتی ہے۔

میری میزبان اس سے قطعی خوش نہیں۔وہ کیتھی سے ہمیشہ نالاں رہتی ہے۔ اور میرے آنے کے بعد سے تو اس کی آمد و رفت بہت ہی بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میری میزبان کے پاس قدِ آدم آئینہ ہے۔ کیتھی کسی بھی کام سے آئے سیدھی بھاگ کر آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوتی ہے۔ اور اکثر بات بھول کر اپنے خدو خال پر تبصرہ شروع کردیتی ہے۔ میری میزبان بسکٹوں کے کارخانے میں صبح آٹھ بجے سے شام کے آٹھ بجے تک کام در کام کر کے اچھا خاصا کما لیتی ہیں۔ کیتھی جانتی ہے کہ انہیں وہ زیادہ پسند نہیں اس لیے وہ عموماً ان کے جاتے ہی اوپر کی طرف رپٹتی ہے۔

”وہ قطامہ گئی نا۔۔۔۔ شکر خدا کا!“۔وہ آئینے پر جھپٹنے سے پہلے کہتی ہے۔ سکول سے جو وقت ملتا ہے۔ اس میں وہ بے بی سٹنگ کر کے یا پڑوسنوں کا کام کاج کر کے کچھ شلنگ کمالیتی ہے۔ اور پھر ساری کمائی میک اَپ خریدنے میں صرف کردیتی ہے۔ نہایت سستا اور نکما مال وہ دکانوں میں رکھے ہوئے سامان کے ڈبے کھکور کر نصف قیمت پر لے آتی ہے۔اس کے پاس اتنا تام جھام ہے کہ بمبئی میں اچھی خاصی دکان کھل سکتی ہے۔ اور پھر اتنی مقدار میں میک اپ تھوپتی ہے کہ بالکل ہوّالگنے لگتی ہے۔ اور پھر وہ درو دیوار کو کوستی پیٹتی دوبارہ منہ دھوتی ہے۔ لوشنوں اور کریموں کے پُچا رے پھیرتی ہے۔ دوژ لگا کر پاؤڈر کی تہیں جماتی ہے، اس کے بعد آنکھوں پر جُٹ جاتی ہے۔ دھڑیوں آئی شیڈیوز، مسکارا، آئی پنسل سے طرح طرح کے چہچہاتے کا جل، پھر مصنوعی پلکیں جو نہایت سستی اور بُھر بُھری ہوتی ہیں۔ اور عموماً آڑی ترچھی چپک جاتی ہیں۔ اس پر بھی جی نہیں بھرتا، تو وہ پپوٹوں پر گوند لگا کر رنگ برنگی اَبرق بڑکتی ہے۔ بیچ بیچ میں شل ہوجاتی ہے تو خوب ورزش کرتی ہے۔ ذرا دم آجا تا ہے تو پھر لپ سٹک کی باری آتی ہے۔ یہ کیتھی کے لیے بڑا ہی جاں سوز مرحلہ ہوتا ہے۔ کئی کئی رنگوں کی لپ سٹک کے گھسّے پر گھسّا لگانے کے بعد اونٹ کسی کل سیدھا نہیں بیٹھتا تو وہ ٹشو پیپر کا تازہ پیکٹ کھولتی ہے اور نئے سرے سے نقاشی شروع کر دیتی ہے۔ اس عرصے میں کریموں اور پاؤڈروں کا پلستر چہرے کی کھینچ تان سے دانت نکلوسنے لگتا ہے۔ وہ انجانی طاقتوں کو صلوٰتیں سُنا کر دھاروں دار رونے لگتی ہے۔ سارے میک اَپ کا ملبہ بن جاتا ہے۔ وہ پھر منہ دھو کر چھوٹی چھوٹی سسکیاں لیتی ہوئی کشتم پچھاڑ شروع کردیتی ہے۔ اس وقت میری عجیب حالت ہوتی ہے۔ جب وہ ایسے نازک مرحلوں پر پہنچتی ہے تو میں بغیر ارادے کے دعائیں مانگنے لگتی ہوں۔۔۔”اے پروردگار ا اس نامراد کا میک اپ ساتھ خیرت کے ختم کرا دے، تو تیری خدائی میں ٹوٹا نہیں آجائے گا“۔ میری نبضیں اچھل رہی ہیں۔ اعصاب چلے پر چڑھے ہوئے ہیں اڑا اڑا دھم کر کے یہ نئی عمارت بھی ڈھے گئی تو میں جھیل نہ سکوں گی۔

میری سمجھ میں نہیں آتا، مسکارا لگانے کے لیے کیتھی کو قدآدم آئینے کے ضرورت کیوں پڑتی ہے اور شاید اس لیے کہ مصنوعی پلکیں لگانے کے بعد وہ ان کا تاثر اپنے سارے جسم پر آڑھی ترچھی کھڑی ہو کر دیکھتی ہے۔پیٹ کو گھونسے مار کر اندر کرتی ہے۔ سینہ باہر دھکیلتی ہے۔ پھر نہایت قاتلانہ انداز میں سر نیہوڑا کرنیم باز آنکھوں سے مفروضہ شکار پر بجلی گراتی ہے۔ مگر اسے کبھی اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں ہوتا۔

کبھی کبھی بے اختیار جی چاہتا ہے کہ اس کے میک اپ کے ٹوکرے کو ڈسٹ بن میں ڈالوں اور دوں ایک دھول مردار کے، کہ چل سیدھی بیٹھ اب کے جو آئینے کے پاس گئی تو ٹانگیں توڑ دوں گی۔

مگر اس کی ماں اسے کچھ نہیں کہتی۔ باپ تو جب دو تین سال کی تھی، جب ہی نہ جانے کہاں اڑن چھو ہوگیا۔ ماں ہفتے میں پانچ دن کو لہو کے بیل کی طرح جٹ کر کام کرتی ہے۔ہفتہ اور اتوار کو عیش مناتی ہے۔ پیر کو پھر کراہتی بڑ بڑاتی کام پر چلی جاتی ہے۔ کیتھی پر جان چھڑکتی ہے، بغیر ڈارلنگ کہے گالی تک نہیں دیتی۔ اور جب ایک دم کیتھی پر فاقے کر کے جسم سنوارنے کا بھوت بیدار ہوجاتا ہے تو مسز راس خوب اُسے روہانسی گالیاں اور کوسنے دیتی ہیں۔ مگر وہ کچھ نہیں کھاتی۔ مگر یہ اور بات ہے کہ میزبان کے بسکٹ، کارن فلیکس، یہاں تک کہ کچی ترکاریاں تک نہیں چھوڑتی۔اسی لیے وہ عموماً ڈائیٹنگ کے زمانے میں اور موٹی ہوجاتی ہے۔ اور جلد ہی خوف زدہ ہو کر تو بہ کرلیتی ہے۔

نہایت چھوٹی سی بات پر وہ مجھ سے بڑی مانوس ہوگئی۔ ایک دن وہ ڈیٹ پر جانے کے لیے سج دھج کر قدِ آدم آئینے میں اپنا سرا پا دیکھنے آئی تو ایسے ایسے پوز مارے کہ سستے گوند سے چپکی ہوئی مصنوعی پلکیں اچٹ کرکتھن قالین میں گم ہوگئیں۔ باوجود نائلون کے وگ اور پیڈ یڈ برا کے و ہ بچوں کی طرح بسُور پڑی۔ مجھے ترس آگیا۔ میں نے ہاتھ پانی میں بھگو کر قالین پر پھیرا، اتفاق سے پلک چپک آئی۔ میں نے اپنے میزبان کا قیمتی مصالحہ چُراکر چپکادی۔پلک ایسی ثابت قدم نکلی کہ بیچ پارٹی کی گھمسان کے بعد بھی سلامت رہی۔ وہ مصالحہ صرف چھ گنی والی پلکوں کے ساتھ ملتا تھا، جسے خریدنے کی کیتھی کی حیثیت نہ تھی۔ اس لیے وہ اکثر مجھے اس چوری پر مجبور کرتی ہے۔

اور آج جب میں نے اسے پکارا، تو وہ سنی ان سنی کرکے ٹیوب سٹیشن میں گھس گئی۔۔۔۔”آنے دو بھتنی کو، کبھی جو دروازہ کھول جاؤں۔میزبان تو خوش ہوجائیں گی، جب اس کا آنا جانا بند ہوجائے گا۔ اس کے ویسے ہی اس سے پر جلتے ہیں“۔

پھر میں نے دیکھا، دور پاس آگے پیچھے بیسیوں کیتھیاں کٹک کٹک چلی جا رہی ہیں۔ بال برابر فرق نہیں۔ اور تو یہ کیتھی نہیں، گئے ہفتے کا فیشن ہے جو بگولے کی طرح کیتھی کی ہم عمر لڑکیوں کو لپیٹ لے گیا، اور وہ ٹی وی پر بھی کیتھی نہیں لو گو تھی۔ عین میں کیتھی۔

اس لیے د وتین دن سے کیتھی بلبلاتی پھر رہی تھی، موت اور زندگی کا سوگ تھا۔ اس نے نارنجی منی سکرٹ کے لیے ماں کا ناطقہ بند کردیا۔ اس کی تڑپ دیکھ کر دم بوکھلایا جاتا تھا۔ فیشن چلے اور کوئی بد قسمت اسے اسی دم اختیار نہ کرسکے تو لعنت اس کی زندگی پر۔مجھے یقین تھا کہ ہفتہ کی شام تک نارنجی سکرٹ اور میولز نہ مہیاہوسکے تو کیتھی کی میت اٹھ جائیگی۔ میرا خیال سچ نکلا، بس سٹینڈ پر کیتھی سر سے پیر تک مکمل لوگوبنی کھڑی تھی۔مجھے اس لڑکی کے عزم کا قائل ہونا پڑا۔سفید سکرٹ اس نے راتوں رات رنگا۔ ہیٹر ڈرائر سے سکھایا، موڑ کر اونچا کیا، نارنجی پالش سے بھورے جوتے کو شوخ نارنجی رنگا۔ بلاؤز ماں کا پہن لیا۔مار بل آرچ ٹیوب سٹیشن سے نکلتے ہوئے میں نے سوچا، یہ اس ترقی یافتہ ملک کی ترقی یافتہ اشتہار باز ی ہے کہ بمباری۔ کیا نشانے ہیں، مجال ہے جو چوک جائیں۔

جب کبھی نیا فیشن آتا ہے، تو فوجی ناکہ بندی سی شروع ہوجاتی ہے۔چپکے چپکے ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں تیار کر کے ہر سٹور کی ہر شاخ میں مال پہنچا دیا جاتا ہے۔ ہر شوکیس سجادیا جاتا ہے اور پھر حملہ شروع ہوتا ہے۔ خرید لو۔ جلدی۔ فوراً۔ نہیں تو مٹ جاؤگے، تباہ ہوجاؤ گے۔ ساری عمر سردھنو گے۔ وقت جا رہا ہے۔ سٹاک ختم ہوجائے گا، ابھی، اسی دم نہ خریدا تو قیامت آجائے گی، عاشق منہ پھیر لیں گے، شوہر طلاق دے دیں گے، باس نوکری سے نکال دیں گے، ساری عمر کنواری یا طلاقن بن کر سسکو گی۔ نقد خرید۔۔۔ چلو قسط پر، ادھار ہی خریدلو، ورنہ یہ معمہ حل کرو تو مفت ہی لے جاؤ۔۔۔نقد خریدو، تو ساتھ میں بسکٹ کا ڈبہ مفت۔۔۔ مفت۔۔۔ ایک دم خریدو تو صابن کی ٹکیاں بالکل مفت۔

سٹور طرح طرح کے سامان سے آٹا اَٹ بھرے ہیں، سڑک پہ نکلو تو شوکیس چنگھاڑ رہے ہیں۔ ٹی وی کی پکار، مخبوط الحواس کیے دیتی ہے۔

”روٹھے ساجن کو منانا چاہو تو فلاں جھاڑو فوراً خریدو، باس کو غلام بنانا چاہو تو اسی دم نیا چولھا خریدو۔میاں طلاق دے رہا ہے۔دوسری عورت پر ریجھ رہا ہے، کیونکہ وہ ہمارا بغل گند لوشن اور منہ کی سڑانددور کرنے والا پیسٹ استعمال کر تی ہے۔ گھر نہ بگاڑو، تم بھی خرید لو اور ساتھ میں روٹھ کر جاتے ہوئے ساجن کی تصویر۔۔۔اس کے پاس خریدنے کے لیے بعض واری صدقے ہوتے ہیں، عاشق ِ صادق کا منظر۔ بچے مسکرا رہے ہیں۔۔۔پھول برس رہے ہیں“۔

”اچھی نوکری چاہیے تو جسم کو نکیلا اور ننگا دکھانے والی برا خریدو!۔

”ڈیٹ پر مدعو ہونا ہے تو ہماری کمپنی کا بنایا ہوا نکل کا سیٹ خریدو!“

ان باتوں کے کان عادی ہوجاتے ہیں، یا تجربے ناکام ثابت ہوتے ہیں تو اور بھی لذیذ قسم کے پھندے ڈالے جاتے ہیں۔

”اس ٹب میں دونوں ساتھ نہاؤ، عاشق کبھی دغانہ دے گا۔

”اس کمبل میں خواب زیادہ سہانے ہوں گے“۔

”یہ پلنگ (تصویر) یوں لیٹو (تصویر) فردوس بریں کے مڑے لُو ٹو!“

”اِس کرسی پر محبوبہ کو بٹھا کر مزے لو“۔ (تصویر۔۔۔محبوبہ قطعی کپڑوں سے بیزار نہایت اٹھلاتی ہوئی)

”یہ میدہ کیک بنانے میں استعمال کرو، وہ تمہیں گود میں اٹھا لے گا“(تصویر۔۔۔ایک ہیرو کی گود میں ٹانگیں چلاتی حسینہ)

”پڑوسن کا میاں کتنے بوسے لیتا ہے، کیونکہ وہ ہماری نئی استری استعمال کرتی ہے، تم کیوں ترسو؟“

”زمانہ جیٹ کی رفتار سے ترقی کر رہا ہے۔ ہر لمحہ چیزوں کی شکلیں بدل رہی ہیں۔ گذشتہ سال کی مر سیڈیز نئے ماڈل کے سامنے جیسے چھکڑا، پرانی استری نئی کے سامنے بالکل کھٹارا، اور آج خریدو، کل پرانی۔ بس خریدتے جاؤ، کڑھتے جاؤ، ترستے جاؤ۔ پھر خریدو، پھر پچھتاؤ۔ ہر چیز جی سے اتری ہوئی۔سب کچھ پاکر بھی وہی محرومی، نامرادی اور احساسِ کمتری۔

کچھ دن بعد میں اپنی میزبان کے یہاں سے لندن آگئی۔ ایک دن یونہی پکا ڈلی پر سے گذر رہی تھی کہ میری آنکھوں نے پھر دھوکا کھایا۔محبت کے دیوتا ایروز کے پتلے کے نیچے سیڑھیوں پر وہ میلے کچیلے کپڑوں کے انبار میں الجھی پڑی ہوتی تھی۔ خواہ سردی ہو یا گرمی رات ہو یا دن، یہ سیڑھیاں کبھی خالی نہیں رہتیں۔ ادھر اُدھر کے شرابی، چنڈو باز اور چریے لیٹے بیٹھے،لڑکھڑاتے ان سیڑھیوں پر چپکے رہتے ہیں۔

اگر وہ کیتھی ہی تھی، تو ڈیڑھ مہینے کے عرصے میں اس میں کتنا انقلاب آگیا تھا!۔۔۔ اس کے کپڑے بے انتہا میلے اور بوسیدہ تھے۔ پاؤڈر، روژ کا چہرے پر نام و نشان نہ تھا۔ اس میل کے انبار میں یہ اندازہ لگانا قطعی ناممکن تھا کہ کون لڑکا ہے اور کون لڑکی۔ سوائے ان لڑکوں کے جن کے چہرے پر داڑھیاں تھیں۔ سب ہی کے لمبے بال تھے۔ انتہائی چُست پتلونیں اور بڑے بڑے سوئیٹر پہنے ہوئے تھے، زیادہ تر ننگے پیر تھے۔

ہاں وہ کیتھی ہی تھی۔ اگر چہ وہ رس بھری جیسی تازگی ختم ہوچکی تھی۔رو پہلی مصنوعی بال غائب تھے۔ اس کے اپنے نارنجی بالوں میں منوں خاک بھری تھی۔ کبھی وہ دائیں بازو والے لڑکے کا نہایت گہرا بوسہ لیتی، پھر سانس لینے کو ذرا رکتی تو بائیں بازو پر پھسلے ہوئے لڑکے پر جُٹ جاتی۔ وہ بڑے انہماک سے مشغول تھی۔ مگر اس کا چہرہ جذبات سے عاری تھا۔ آنکھیں سپاٹ۔ اس کے اوپر والی سیڑھی پر ایک نیگرو لڑکی چت پڑی اپنے پیٹ میں بھنور قائم کر رہی تھی۔ اس کے پاس بیٹھا ہوا ایک سو کھا سڑا لڑکا فوار ے سے ہاتھ بھگو کر اس کے آبنوسی پیٹ پر بوندیں ٹپکا رہا تھا۔ جیسے ہی بوندھ پڑتی لڑکی ”قیں“ سے ایک گھٹی ہوئی آواز گلے سے نکال کر بالکل ساکت ہوجاتی۔ پھر پیٹ چلانے لگی۔ نہ جانے کتنی دیر سے یہ احمقانہ شغل چل رہا تھا۔ اور میرے سوا کوئی ان کی طرف توجہ نہیں دے رہا تھا۔

ایک طرف ایک میلا سا ڈھیر سو رہا تھا۔ اس کے پاس ایک لمبی لمبی سنہری جٹاؤں والا لڑکا اکڑوں بیٹھا ایک پنسل کی طرح بانسری بجا رہا تھا۔ اس کے جسم پر ایک نامعلوم رنگ کی بے حد تنگ پتلون تھی باقی جسم میل کی پٹریوں سے ڈھکا ہوا تھا، پیروں میں بلکل نئے کلا بتو کے کام کے کولھاپوری چپل تھے۔ ایک گلگلاسی بُھوری بھوری لڑکی اس کے کندھے پر سر رکھے اونگھ رہی تھی۔ کبھی ایک دم چونک کر لال لال زبان نکال کر لڑکے کے میلے کندھے کو چاٹتی، پھر سو جاتی۔

میں نے قریب جا کر دیکھا، تو اس لڑکے کے سامنے سیڑھی پر ایک بالشت بھر لمبا کالا سپنو لیا گنڈلی مارے پڑاتھا۔ ایک دوسری لڑکی اس کے گھٹنے سے لگی سانپ سے کھیل رہی تھی۔ کبھی اسے انگلیوں میں الجھا لیتی، کبھی ہتھیلی پر رکھ کر اسے جگانے کی کوشش کرتی، مگر سانپ نہایت ٹھیس اونگھے جا رہا تھا۔ بالکل ان لڑکوں اور لڑکیوں کی طرح دنیا سے بے نیاز اپنے خیالوں میں گم۔

بیچ چورا ہے پر یہ ڈرامہ کھیلا جارہا تھا، اور اس کے آس پاس زندگی جیٹ کی رفتار سے لپکی چلی جارہی تھی۔ ڈبل ڈیکر بسیں، لمبی چوڑی موٹریں سکوٹر سنسناتے گزر رہے تھے۔ ومپی بار میں غول کے غول، ہنس مکھ نوجوانوں کے آرہے تھے۔ سینما ہال کے سامنے ٹکٹ کی کھڑکی کھلنے کے انتظار میں کیو بڑھتا جارہا تھا۔ مائیں پرام میں بچوں کو بٹھائے لپکی چلی جارہی تھیں۔ ایک لڑکا گٹار پر کوئی آئرش گیت گا رہا تھا۔ اس کا ساتھی کوئی پچاس برس کا لمبا تڑنگا انسان چست پتلون اور سفید بے داغ قمیص جس میں فرل اور بیلیں جھول رہی تھیں پہنے ٹیپ ڈانس کر رہا تھا۔ کیو میں کھڑی لڑکیاں گنار کی دھن پر تھرک رہی تھیں۔ اور لڑکے کو میٹھی میٹھی نظروں سے گھور رہی تھیں۔ لڑکا غیر معمولی طور پر حسین تھا۔ اور اس کے چہرے پر فرشتوں جیسی معصومیت اور نور تھا۔

سامنے ایک سپاہی پشت پر ہاتھ باندھے فلسفیوں کی طرح کسی سوچ میں ڈوبا ٹہل رہاتھا۔

کوئی نظر اٹھا کر بھی اس میل کے انبار کو نہیں دیکھ رہا تھا۔ جیسے وہاں کچھ بھی نہ ہو، جیسے میں نے صرف جادو کی عینک پہن رکھی ہو۔

کیتھی!۔۔۔۔نہیں یہ شبہ نہیں، یہ واقعی کیتھی تھی۔ کیونکہ تھوڑی ہی دیر میں اس نے اپنی غیر حاضر آنکھوں کو ایک نقطے پر لا کر مجھے پہچان لیا۔اس کے دانتوں پر جڑے ہوئے تار چمک اُٹھے، وہ پھر بے نیاز ہوکر دائیں بازو والے لڑکے کی طرف جُٹ گئی۔ کیونکہ بائیں بازو والے کے پاس سوئی ہوئی قیامت جاگ اٹھی تھی اور اس پر بے طرح حملہ آور تھی۔

نیگرو لڑکی بالکل اسی رفتار سے پیٹ چلا رہی تھی، پانی کی بوند پر ساکت ہوجاتی۔

دم بھر کے لیے کیتھی لڑکے کا پنڈ پھوڑ کر میری طرف متوجہ ہوئی۔ اس نے مجھے سیڑھیوں پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ سمجھی ہوگی میں شاید برامان جاؤں گی، مگر میں فوراً پھسکڑا مار کربیٹھ گئی۔

لڑکے نے اس دخل در معقولات پر احتجاج کیا مگر کیتھی اسے پرے دھکیل کر میرے قریب آکر بیٹھ گئی۔ میں نے اسے بتایا کہ فی الحال لندن میں آگئی ہوں جلدی واپس جانے والی ہوں۔

”گھرجاؤ تو حلیمہ سے کہہ دینا، جانے سے پہلے اس سے ملنے آؤں گی“۔۔۔۔میں نے کہا

گھر؟۔ اونہک، گھر نہیں“۔ وہ پیر پسار کربیٹھ گئی۔

”کیوں؟ کیا مما سے جھگڑا ہوگیا“؟

”نہیں۔۔۔اب میں کوئی بچی تو نہیں؟“

”کون کہتا ہے بچی ہو، مگر۔۔۔۔“

”میں نے خود کو پالیا ہے“۔۔۔ وہ نہایت درویشانہ انداز میں بولی

”کب؟“۔۔۔ میں نے مذاق اڑانا چاہا۔

”دو ہفتے ہوئے، جیل سے نکلنے کے بعد۔۔۔ میری وکی سے ملاقات ہوئی“۔۔۔۔ اس نے کسی خاص انسان کی طرف نہیں، پورے انبار کی طرف اشارہ کیا۔

”جیل؟۔۔۔ جیل؟“۔۔ میں ہکلانے لگی۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ وہ دکانوں پر سے چیز اٹھاتی ہوئی پکڑی گئی تھی۔ اس نے مجھے فخر یہ بتایا کہ پہلے وہ اسے نہایت شرم کی بات سجھتی تھی، مگر اس کے سب ساتھی اس فن میں ماہر تھے۔ اور یہ کافی رومانٹک بات سمجھی جاتی تھی۔ شاید مارلین مینرو، یا صوفیہ لورین بھی شوپ لفٹنگ کیا کرتی تھیں۔ ٹی، وی پر دکھایا گیا تھا۔ یہ بڑے بڑے سٹالوں سے سامان اُچک لینے کی عادت عام ہے اور بچوں سے زیادہ بوڑھیاں اس لت میں گرفتار ہیں۔ سٹال پر بظاہر کوئی نہیں دکھائی دیتا، جو چیز چاہیے بٹوے میں ڈال لو۔ کیونکہ سب خودہی چیزیں چنت ہیں اور پھر کاونٹر پر جا کر دام دیتے ہیں۔ لیکن نہ جانے کیسی شِکرے جیسی نظر والے کہیں سے چُھپ کر دیکھتے رہتے ہیں۔ کبھی پکڑ لیتے ہیں تو بڑی لے دے مچتی ہے۔ اس دفعہ جب کیتھی نے کچھ انڈر وئیر اُڑا ئے تو دھر لی گئی اور دو ہفتے کے لیے اصلاحی جیل بھیج دی گئی۔ وہاں چو وہ طبق روشن ہوگئے۔ نشہ اور سگریٹ اس نے پہلی بار وہیں پیا۔ چھوٹ کر وہ گھر سے غائب ہوگئی۔ مختلف گروہوں کے ساتھ رہتی ہے، کپڑے لتے کا تو سوال ہی نہیں، کھانا کہیں سے مل جاتا ہے، کوئی دے ہی دیتا ہے، چین ہی چین ہیں۔ بس پیار ہی پیار ہے۔ زندگی میں کیے جاؤ پیار۔۔۔ سکول سے الگ جان چھوٹی۔

”تھوڑی دُبلی ہوئی نا؟“۔۔ اس نے پیٹ میں گھونسے مار کے کہا۔

”ہاں، کافی!“۔۔۔ میں نے اطمینان دلایا۔۔۔”مگر وزن تو گھٹا ہوگا، اتنا میل۔۔۔۔“ وہ قطعی متاثر نہ ہوئی۔

”یہ میرا اپنا میل ہے“۔۔ اس نے بالکل مہیش یوگی کے انداز میں کہا۔

ساری چلبلاہٹ، بے قراری اور سیمابیت پر جیسے اوس پر گئی ہو۔ ایک دم سنجیدہ، نرم گفتار، سارا بچپن غائب۔

تو کیتھی نے خود کو پالیا!۔۔۔ وہ دو ہفتے میں کتنی بردبار، کتنی بوڑھی ہوگئی۔ اتنی جلدی اسے جنت کی کنجی مل گئی۔ اس کی سمجھ میں آگیا کہ عاشق بٹورنے کے لیے نہ بجلی کی جھاڑو چاہیے نہ نئے ماڈل کی استری نہ اسٹین لیس سٹیل کے برتنوں سے پیار ملتا ہے، نہ نئی وضع کے مکسر سے زندگی کا رس ٹپکتا ہے، سب اشتہارئیے جھوٹے ہیں، ورغلاتے ہیں۔ چاہے جوتے بیچیں چا ہے سیاسی گورکھ دھندے، خوب آور پلنگ ہوں یا حکومت کی کرسیاں،سارا مال گھن کھایا ہوا ہے۔ تم سب چور ہو۔ اچکے ہو، ہم تمہاری کوئی بات نہیں مانیں گے۔ تمہاری بنائی ہوئی در سگاہوں میں ننگے ناچیں گے۔ نشے میں ڈوب کر تمہاری دنیا کو بھلائیں گے۔ تمہارے شاہراہ عام پر ہنی مون بنائیں گے۔

اور کیتھی پاس والے پر جٹ گئی۔

مجھے وحشت ہونے لگی۔۔۔یہ میں کہاں بیٹھی ہوں، کیوں بیٹھی ہوں؟ آس پاس سے کون ساتحفہ سمیٹ کر اپنے بچوں کی ذہنی نشوو نما کی خاطر لے جاؤں؟

بچہ کیچڑ میں نچلا ہوا ہے۔ ماں کڑھ رہی ہے۔ یہ میلے کچیلے بچے جان بوجھ کر چورا ہے پر یہ ڈرامہ کھیل رہے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بظاہر بے پروائی سے گزر جانے والے اتنے بے نیاز نہیں۔ انہیں کن آنکھوں سے دیکھ دیکھ کر کڑھ رہے ہیں، سُلگ رہے ہیں۔ کسی نے ضرور چُھپ کر تصویریں لی ہوں گی، جو چھپیں گی، کوئی جرنلسٹ مضمون کیلئے جلدی جلدی نوٹ لے رہا ہوگا، کوئی مصنف اپنے نئے ناول کے لیے مواد جمع کر رہا ہوگا۔ اب دنیا کے مدبر ملک اور قوم کے وقار کی دہائی دیں گے۔نفسیات کے ماہر فتوے صادر کریں گے۔ ان کے سدھار کے لیے محکمے قائم ہوں گے، کمیٹیاں بنیں گی۔ ان کا نام تاریخ میں لکھا جائے گا۔

بس سٹینڈ کی طرف جاتے ہوئے میں نے دیکھا۔۔۔

”عاقبت سنوارنا چاہتے ہو، تو حضرت مسیح کا مجسمہ خریدو!۔ صرف چھ شلنگ، دو کے خریدار کو صرف گیارہ شلنگ میں!“

ایک بڑی بی بڑی حسرت سے مجسموں کی قطار کو تک رہی تھیں۔ پھر ان کی نظر مارگ اینڈ سپنسر کے گرینڈ سیل کے اعلان پر پڑی۔ بڑی دیر سے وہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھیں کہ اپنی عاقبت سنواریں یا روٹھی ہوئی جوانی کو منانے کا سامان کریں!۔

میری بس آنے سے پہلے انہوں نے فیصلہ کرلیا۔۔۔ اور مارگ اینڈ سپنسر کے جھلماتے ہوئے میک اَپ کے سٹال کی طرف بڑھ گئیں۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close