کارساز واقعہ اور علی محمد بلوچ

سنگت میگ ڈیسک

یہ سنہ 2007ع کی بات ہے، جب نو سالہ خود ساختہ جلاوطنی ترک کرنے کے بعد بینظیر بھٹو 18 اکتوبر دوپہر ایک بج کر 45 منٹ پر کراچی پہنچیں، تو ان کے استقبال کے لیے ملک بھر سے آنے والے لوگوں کا اتنا بڑا جلوس تھا کہ انہیں کراچی ایئرپورٹ سے کارساز تک پہنچنے میں دس سے زائد گھنٹے لگے

18 اکتوبر کا سورج کراچی کے آسمان پر اپنا سفر مکمل کر کے سمندر میں ڈوب چکا تھا اور کراچی کی سڑکوں پر بینظیر بھٹو کا استقبالیہ جلوس رواں دواں تھا۔ وہ خوشی اور گرم جوشی سے ہاتھ ہلا ہلا کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دے رہی تھیں

اس ریلی کا رُخ صدر کی طرف آتے ہوئے بائیں جانب تھا، لیکن کارساز کے مقام پر اس کو داہنے ہاتھ کی سڑک پر موڑ دیا گیا اور اس دوران اچانک اسٹریٹ لائٹس بند ہوگئیں… اور پھر ایک زوردار دھماکہ ہو گیا!

جس کے بعد دنیا کی آنکھوں نے ایک تکلیف دہ منظر دیکھا… زمین پر لوگ گرے ہوئے تھے، وہ زخمی تھے یا ہلاک ہو چکے تھے.. اندھیرے میں کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک اور دھماکہ ہوا.. جس کے بعد وہاں قیامت صغریٰ کا عالم بپا ہو گیا

دو دھماکے ہو چکے تھے، جلد ہی ایک سفید رنگ کی کار اس ٹرک کے نزدیک آ کر رُکی، جس میں بینظیر بھٹو سوار تھیں، تو بہت سے جیالے اس کے گرد ایک ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے، پھر بینظیر بھٹو ٹرک سے باہر نکلیں، گاڑی میں بیٹھیں اور وہ گاڑی بہت تیزی کے ساتھ وہاں سے نکل گئی.. ریلی کے کئی باہمت شرکاء زخمیوں کی مدد کرنے میں جٹ گئے. لاشوں اور زخمیوں کو کراچی کے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا

اس دھماکے میں کم از کم 200 افراد ہلاک اور 500 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔ جن میں سے کئی زندگی بھر کے لیے معذور ہوئے..

کراچی کی تاریخ کے بدترین واقعات میں سے ایک سانحہ کارساز کو آج چودہ سال کا عرصہ بیت چکا ہے، لیکن اس جلوس میں شامل علی محمد بلوچ کو 18 اکتوبر 2007ع کا دن ایسے ہی یاد ہے، جیسے کل کی بات ہو

محمد علی بلوچ بتاتے ہیں کہ
’ہمارے علاقے سے پارٹی کارکنان کے کئی قافلے روانہ ہونے تھے، مگر ان قافلوں کے نکلنے میں دیر تھی اور مجھ سے صبر نہیں ہورہا تھا تو میں پہلے ہی ایئرپورٹ چلا گیا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ اب بے نظیر واپس آگئی ہیں اور اب ہر فرد کو روزگار ملے گا۔ اس لیے میں ان کو دیکھنے کے لیے بے چین ہورہا تھا۔‘

علی محمد بلوچ بھی ان دھماکوں سے زخمی ہونے والوں میں شامل تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس دن بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لیے وہ نیا گولیمار کے قریب واقع حاجی مرید گوٹھ سے صبح ہی ایئرپورٹ پہنچ گئے تھے، کیونکہ ان سے صبر نہیں ہو رہا تھا

پارٹی کارکنوں کے رش کی وجہ سے بےنظیر بھٹو کو ایئرپورٹ سے باہر نکلنے میں کئی گھنٹے لگ گئے۔ جب ان کا قافلہ شاہراہ فیصل پر روانہ ہوا تو دیگر پارٹی کارکنان کی طرح علی محمد بلوچ بھی قافلے میں پیدل چلنے لگے۔

وہ بتاتے ہیں: ’اس قدر رش تھا کہ قافلہ انتہائی سست رفتاری سے آگے بڑھ رہا تھا۔ گرمی اور پیدل چلنے کے باعث جیالوں کی حالت خراب تھی، لیکن اس کے باوجود وہ جذباتی انداز میں نعرے لگارہے تھے۔ ایک عید کا سماں تھا کہ ہماری لیڈر وطن واپس آئی ہے۔ ہر جیالا انتہائی خوش تھا۔ لوگوں نے کہا کہ اب بےنظیر واپس آئی ہیں اب روشنیاں لوٹ آئیں گی۔‘

بےنظیر بھٹو کی ریلی رات 12 بجے کے قریب شاہراہ فیصل پر کارساز کے قریب پہنچی۔ علی محمد بلوچ بتاتے ہیں: ’جب جلوس کارساز پر پہنچا تو بجلی بند تھی، ہرطرف اندھیرا تھا۔ اچانک ایک ہلکے دھماکے کی آواز آئی۔ جلوس میں شامل کچھ لوگوں نے کہا کہ گاڑی کا ٹائر برسٹ ہوا ہے، تو کسی نے کہا بجلی کے کھمبے پر لگا پی ایم ٹی پھٹ گیا ہے۔ میں اس وقت بےنظیر بھٹو کی گاڑی سے تقریباً ایک سو فٹ پیچھے تھا۔ تھوڑی دیر بعد بہت بڑا دھماکا ہوا۔ میری ناف کے پاس والے حصے اور رانوں سے خون بہنے لگا۔‘

علی محمد بلوچ نے بتاتے ہیں ’اندھیرے میں چیخ پکار تھی۔ ایک قیامت کا منظر تھا۔ اس کے بعد ایمبولینسیں آنا شروع ہوئیں۔ میں نے کئی زخمیوں کو ایمبولینس میں سوار کرایا۔ انسانی اعضا ایسے بکھرے ہوئے۔ میں نے کئی انسانی اعضا اپنی جھولی میں اٹھا کر ایمبولینس میں رکھے۔ ہم سب کارکن بڑے پریشان تھے، مگر رات گئے پتہ چلا کہ بےنظیر بھٹو سلامت ہیں۔‘

بعد میں علی محمد بلوچ کو بھی جناح ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ان کے زخموں کی مرہم پٹی کی گئی

انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصے بعد انہیں سندھ حکومت کی جانب سے ایک لاکھ روپے معاوضے کے طور پر دیے گئے تھے۔ ’اس کے بعد بھی معاوضے کی رقم کے کئی اعلانات ہوئے مگر مجھے ایک روپیہ بھی نہیں ملا۔‘

علی محمد بلوچ نے اپنے پاس محفوظ ایک پُرانی فائل سے 20 اکتوبر 2007ع کو اردو اخبار روزنامہ ایکسپریس کے میگزین سیکشن میں چھپنے والی ایک خبر دکھائی، جس میں کئی تصاویر میں سے ایک میں وہ پیپلز پارٹی کے جھنڈے والی قمیص پہنے ہوئے ایک زخمی نوجوان کو اٹھائے ہوئے کھڑے ہیں

پچاس سالہ علی محمد بلوچ مراز قائد کے نزدیک سیکریٹریٹ چورنگی پر واقع پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی دفتر پیپلز سیکریٹریٹ کا انتظام سنبھالتے ہیں۔ وہ حاجی مرید گوٹھ میں ایک کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں، جن میں چھوٹی بیٹی تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا ہے اور انہیں ہر دو ہفتے بعد خون لگایا جاتا ہے

علی محمد بلوچ نے بےنظیر بھٹو کے دستخط سے ان کے نام لکھے ایک خط کی کاپی دکھائی، جس میں سابق وزیراعظم نے پارٹی کی لیے ان کی خدمات کو سراہا ہے

وہ بتاتے ہیں: ’کئی بار پارٹی رہنماؤں نے سرکاری نوکری کا آسرا دیا، لیکن آج تک کوئی نوکری نہیں ملی.. کئی رہنماؤں نے وزیراعلیٰ کے نام خطوط لکھ کر دیے، مگر پھر بھی نوکری نہ مل سکی۔ انتہائی کسمپرسی والی زندگی گزر رہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ 1986ع سے پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں اور ساری زندگی پارٹی کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ ’میں کرائے کے گھر میں رہتا ہوں اور کرایہ دینا مشکل ہے۔ میں التجا کرتا ہوں کہ اگر مجھے ایک گھر دیا جائے تو مشکل زندگی میں کچھ آسانی ہوجائے گی۔‘

یہ صرف ایک علی محمد کی کہانی نہیں ہے. اس سانحے میں کئی جان گنوانے والے جیالوں کے گھرانے مسائل کا شکار ہوئے.. کئی زخمی عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے… ان میں سے سب کی کہانی دکھ بھری ہے.. لیکن دکھ، تو بس دکھ سہنے والا ہی جانتا ہے…

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close