اسٹینفرڈ : اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے خودکار گاڑیوں والی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے نابینا افراد کی چھڑی ایجا کی ہے۔ اس میں ایک پہیہ بھی لگایا گیا ہے جس سے نابینا افراد میں چلنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے
رپورٹ کے مطابق یہ چھڑی لائٹ ڈٹیکشن اینڈ رینجنگ (لیڈار) ٹیکنالوجیکی مدد سے کام کرتی ہے، یوں سمجھ لیں کہ یہ اسمارٹ چھڑی کا دل و دماغ ہے، جس کی کی بدولت چھڑی اطراف کو ‘دیکھتی’ اور کسی رکاوٹ کی صورت میں مالک کو خبردار کرتی ہے
جب اسے نابینا افراد پر آزمایا گیا تو ان کے چلنے کی رفتار میں بھی ایک فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ، کیونکہ چھڑی کے کنارے پر ایک افقی پہیہ لگا ہے جو دائیں بائیں چلتا رہتا ہے
اگرچہ اس کی قیمت چار سو ڈالر رکھی گئی ہے، لیکن کم خرچ ہونے کی صورت میں دنیا کے پچیس کروڑ ایسے افراد کا بھلا ہوسکتا ہے، جو مکمل یا جزوی نابینا پن کا شکار ہیں
اس حوالے سے میکینکل انجینیئر پیٹرک سلیڈ نے بتایا کہ وہ اپنی ایجاد کو سادہ چھڑی سے بڑھ کر بنانا چاہتے ہیں۔ ہماری ایجاد نہ صرف کسی رکاوٹ سے خبردار کرتی ہے، بلکہ یہ بھی بتاتی ہے کہ سامنے موجود پتھر یا میز سے کس طرح بچنا ہوگا
اسمارٹ چھڑی میں جائرواسکوپ، ایسلرومیٹر، جی پی ایس نظام، میگنیٹومیٹر اور لیزر نظام موجود ہے۔ یہ سارے سینسرز مل کر چھڑی استعمال کرنے والے کو اس کی پوزیشن، رفتار، سمت اور اطراف کی مختلف اشیا کی خبر دیتے رہتے ہیں
اسمارٹ چھڑی میں کئی طرح کے الگورتھم بھی شامل کئے گئے ہیں، جن میں ایک وقت میں لوکلائزیشن اینڈ میپنگ بہت اہم ہے۔ یہ فوری طور پر اطراف کا نقشہ بنا کر بتاتا ہے کہ اس میں خود انسان کہاں موجود ہے اور اسے کس طرح سے اپنا راستہ لینا ہے
اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنسدان مائیکل کوکینڈرفر کہتے ہیں کہ ہماری خواہش کے مطابق جہاں تک ممکن ہوسکا یہ چھڑی رکاوٹ دیکھ کر اپنا راستہ بدل لیتی ہے اور اس کا پہیہ مڑ کر نابینا فرد کو صاف راہ پر لے آتا ہے۔ اگر چھڑی والا فرد اسے لائبریری یا چائے کی دکان کا کہدے تو چھڑی اسے دائیں بائیں موڑتے ہوئے خود ہی وہاں تک لے جاتی ہے
اگرچہ اس کا ڈیزائن اوپن سورس رکھا گیا ہے لیکن ہارڈویئر کے ساتھ اس پر چار سو ڈالر لاگت آتی ہے.