بادشاہ کا خواب (عربی ادب سے منتخب افسانہ)

زکریا تامر

حاکم وقت نے رات کو خواب دیکھا کہ وہ کسی بڑے باغ میں چل رہا ہے… اتنے میں ایک بہت بڑا درخت اس کے اوپر آ گرتا ہے اور اور وہ مر جاتا ہے… خوف کی حالت میں نیند سے جاگا اور اس وقت کے تین بڑے خواب کی تعبیر بتانے والوں کو بلا کر خواب کی تعبیر پوچھی

پہلے نے کہا: آپ کے ملک میں باغات کی کثرت ہوگی اور بیرونِ  ملک لکڑی بیچنے سے آپ کو کثیر زر مبادلہ حاصل ہوگا

دوسرے نے کہا: یقیناً آپ کے دشمن آپ کے خلاف جادو کا سہارا لیں گے، اور اس نے جادو کا تعویذ کسی درخت کے نیچے دبا دیا ہے، لہٰذا اس کو ڈھونڈنا ہوگا اور تلف کرنا ہوگا

تیسرے نے کہا: یہ کوئی مشکل خواب نہیں ہے، یہ آپ کو تنبیہہ کرنے کے لیے خواب ہے اور اس میں واضح طور پر بتایا جار رہا ہے

حاکم نے غصے سے پوچھا ”کیا بتایا جار ہا ہے؟“

خواب کی تعبیر کرنے والے نے بتایا: ”ہمارے محترم حاکم صاحب کی موت کسی درخت کے گرنے سے ہو گی۔“

حاکم یہ سن کر خاموش ہو گیا، گویا اس تیسرے کی بات اس کے دل کو لگی تھی..

حاکم نے فوراً حکم دیا کہ مملکت میں موجود تمام درخت کاٹ دیے جائیں… لہٰذا سارے درخت کاٹ دیے گئے.. کوئی ایسا درخت نہیں بچا، جہاں پرندے اپنا گھونسلا بنا سکیں.. درخت نہ رہے تو سارے پرندے بھی وہاں سے بھی ہجرت کر گئے

ایک اور رات حاکم وقت نے ایک اور خواب دیکھا، کہ وہ ایک بہت بڑے باغ میں ہے، لیکن اس میں کوئی درخت نہیں۔ وہ نہر کے کنارے چل رہا ہے ، اتنے میں اس کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں اور حاکم وقت نہر میں گر جاتا ہے… ارد گرد موجود سارے لوگ تماشہ دیکھ رہے ہیں اور کوئی حاکم کو بچانے کے لیے آگے نہیں بڑھتا!

جب حاکم نیند سے بیدار ہوا، تو بہت غصے میں تھا۔ اس تیسرے شخص کو بلا کر خواب کی تعبیر پوچھی، بتائی گئی تعبیر کے مطابق اب حاکم کی موت نہر میں گرنے سے واقع ہونی تھی!

حاکم نے کہا: ”میں کسی نہر میں گر کر نہیں مروں گا، جب میری مملکت میں کوئی نہر ہی نہیں ہوگی!“ یہ کہہ کر اس نے  حکم دیا کہ مملکت کی ساری نہریں ختم کردی جائیں!

حاکم نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے تخت پر براجمان رہا… اس کو کوئی پروا نہیں تھی کہ اس کی مملکت صحرا بن چکی تھی!


عربی زبان کے منفرد ادیب،  قصہ گو اور مختصر افسانہ نویس

زکریا تامر

زکریا تامر کا شمار عربی ادب كے منفرد لکھاریوں میں ہوتا ہے، وہ اپنے قصہ گوئی کے انداز کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا تعلق شام سے ہے۔  87 سالہ زکریا تامر  2 جنوری 1931 ء کو  شام کے شہر دمشق میں پیدا ہوئے. محض 14 برس کی عمر میں گھر کی معاشی ذمہ داریاں سر پر آن پڑیں، جس کی وجہ سے وہ تعلیم   کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے۔ ابتداء میں وہ دن میں ایک لوہار کے پاس تالا چابی بنانے کا کام کرتے اور رات میں مختلف کتابیں پڑھتے۔ مطالعے نے ان کے اندر کے لکھاری کو تحریک دی اور 1957ء سے انہوں نے شام کے مختلف رسالوں میں کہانیاں لکھنا شروع کیں۔ شامی ادیب اور مجلہ شعر کے  مدیر یوسف الخال نے زکریا تامر میں چھپے ادیب کو ابھارا اور اور ان کی کہانیوں کی کتاب  شایع کرنے میں مدد کی، جس سے زکریا تامر کو ملکی سطح پر پہچان ملی۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں زکریا نے کئی ادبی اداروں میں ملازمت کی، وہ شام کے ادیبوں کی یونین کے صدر بھی رہے۔ زکریا تامر شام کی وزارت ثقافت اور وزارت اطلاعات میں ملازم رہے اور 1981ء میں برطانیہ منتقل ہوگئے۔ عربی زبان میں مختصر قصے لکھنے میں زکریا تامر کا کوئی ثانی نہیں۔  ان کی ننھی منی کہانیاں معنویت کے لحاظ سے بہت بڑی تسلیم کی جاتی ہیں، جو مختصر ہونے کے باوجود کئی پرتیں لیے ہوتی ہیں۔ وہ طنزیہ مضامین بھی لکھتے رہے ہیں۔ ان کی کہانیاں جو دراصل فلیش فکشن کہلاتی ہیں، افسانہ نگاری کے علاوہ بچوں کے ادب کے لئے بھی مشہور ہیں۔  ان کے قصے طنز اور علامات سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ان کی بہت سی کہانیوں کی بنیاد لوک ادب پر ہے جسے وہ بہت مہارت کے ساتھ ماورائے حقیقی (Surrealistic) انداز میں سیاسی و سماجی جبر اور ہر طرح کے استحصال کے خلاف احتجاج کے لئے برتتا ہے ۔  زکریا تامر  کی کہانیوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور  ان کی کہانیاں کئی ممالک میں پڑھائے جانے والے نصاب کا بھی حصہ ہیں.


Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close