کیم ایڈائر کو اس وقت پتا چلا کہ ان کی وڈیو گیمز کھیلنے کی لت کنٹرول سے باہر ہو چکی ہے، جب اس کی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی ختم کرنے کا سوچا
وہ کہتے ہیں کہ میں اس کے ساتھ دس سال تک لڑتا رہا۔ میں نے ہائی اسکول چھوڑا، کالج نہیں گیا، اور اپنے خاندان کو دھوکہ دینے کے لیے نوکریوں کا بہانہ کرتا رہا۔ آخرکار میں نے خودکشی کا فیصلہ کیا اور ایک نوٹ لکھا اور یہ وہ رات تھی جب مجھے احساس ہوا کہ مجھے مدد کی ضرورت ہے۔ میں اب تین ہزار 860 دن سے گیمنگ کی لت سے فری ہوں
بتیس سالہ کینیڈین شہری کیم ایڈائر اب ’گیم کویٹرز‘ کے بانی ہیں، جو کہ ان لوگوں کے لیے ایک آن لائن سپورٹ گروپ ہے، جنہیں گیمنگ کی لت پڑ گئی ہے۔ اس گروہ کے دنیا بھر میں پچھتر ہزار سے زیادہ اراکین ہیں
اگرچہ ٹیکنالوجی، خاص طور پر انٹرنیٹ نے کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران دنیا کے کام کاج چلانے میں بہت مدد کی ہے، ایڈائر کہتے ہیں کہ اُن جیسے لوگوں کے لیے بہت مشکل بھی رہی ہے
وہ کہتے ہیں کہ عالمی مرض کی وجہ سے میں ٹوئچ (ایک لائیو سٹریمنگ سروس جو ان لوگوں پر فوکس کرتی ہے جو کمپیوٹر گیمز کھیلتے ہیں) اور یوٹیوب پر معمول سے زیادہ وقت صرف کرنے لگا تھا
دی یو ایس نیشنل لائبریری آف میڈیسن اب گیمنگ پر انحصار کو انٹرنیٹ کی لت کے ایک بڑے حصے کے طور پر درجہ بند کرتی ہے۔ اس کی تعریف کچھ اس طرح سے ہے: ’ضرورت سے زیادہ یا ناقص طور پر کنٹرول شدہ مصروفیت، کمپیوٹر کے استعمال اور انٹرنیٹ تک رسائی کے بارے میں مسلسل خواہش یا طرز عمل جو خرابی یا تکلیف کا باعث بنتا ہے۔‘
اگرچہ بہت سے لوگ یہ بحث کریں گے کہ یہ شراب نوشی یا منشیات کی لت کی طرح خطرناک نہیں ہے، لیکن پھر بھی یہ متاثرین کو کمزور کر سکتی ہے۔ اور ڈاکٹر اینڈریو دوان، جو ایک نیورو سائنسدان اور ڈجیٹل لت کے ماہر ہیں، اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ لاک ڈاؤن نے اس مسئلے کو بڑھاوا دیا ہے
وہ کہتے ہیں کہ ’زندگی میں تناؤ (حقیقت سے) فرار کے طریقہ کار کی خواہش کا باعث بنتا ہے۔ وبائی مرض نے لوگوں کی زندگیوں میں دباؤ بڑھایا ہے اور بچنے کا ایک آسان طریقہ تفریحی ڈجیٹل میڈیا کا استعمال ہے، جیسا کہ گیمنگ اور سوشل میڈیا
تناؤ سے بچنے کے لیے اس کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے نشے کی لت میں مبتلا افراد کے رویوں کی نشو و نما کا خطرہ پیدا ہوتا ہے
انٹرنیٹ کی لت سے نمٹنے میں مدد کے لیے متعدد ٹیک فرمز نے ایسے ٹولز تیار کیے ہیں، جن کا استعمال ویب یا گیمنگ ویب سائٹس کو بلاک یا محدود کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے
لائن وائز ایک ایسی ہی پروڈکٹ ہے، جو بچوں یا خاص طور پر، ان کے والدین کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہے
ویب سائٹ اور ایپ والدین اور کیئررز یا نگہداشت کرنے والوں کو دور بیٹھے ہوئے بچوں کے گیمنگ سائٹس یا انٹرنیٹ پر وقت گزارنے کو محدود کرنے اور ان کی نگرانی کرنے میں مدد دیتی ہے، چاہے وہ بچوں کے سمارٹ فونز کے ذریعے ہو یا لیپ ٹاپ کے ذریعے
لائن وائز میں معمول کے روک تھام کے آپشن بھی ہوتے ہیں جو فحش مواد یا پرتشدد مواد تک رسائی کو روکتے ہیں
سان ڈیاگو میں قائم لائن وائز کے ڈجیٹل فلاح و بہبود کی ماہر اور ایک ماہر نفسیات تیوڈورا پاوکوچ کا کہنا ہے کہ نوجوان خاص طور پر بہت زیادہ وقت آن لائن گزارنے کے اثر میں آ سکتے ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جس سے نوجوانوں کے والدین بالکل راضی ہونگے
’آن لائن پر ڈجیٹل طور پر صحت مند اور متوازن طریقے سے وقت کا انتظام کرنے کے لیے انتہائی نفیس علمی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، جو مکمل طور پر اس وقت تک تیار نہیں ہوتی، جب تک ہم پچیس سال کی عمر تک نہیں پہنچ جاتے۔‘
وہ مزید کہتی ہیں: ’آن لائن پلیٹ فارم اس لیے بنائے گئے ہیں کہ وہ ہمارے وقت، توجہ اور اعداد و شمار کو حاصل کریں اور زیادہ سے زیادہ استعمال کریں اور اس طرح وہ بہت سے آن لائن چھپے ہوئے خطرات کے ساتھ مل کر بچوں کے لیے غیر معمولی طور پر مشکل بنا دیتے ہیں کہ وہ آن لائن دنیا کے ساتھ نپے تلے، محفوظ اور ذمہ دارانہ طریقے سے مشغول رہ سکیں۔‘
بڑوں کے لیے انٹرنیٹ کی لت جوئے کی لت میں بھی بدل سکتی ہے، کیونکہ بیٹنگ ایپس اور ویب سائٹس ایندھن کو ہوا دینے کا کام کر سکتی ہیں
بیٹ بلاکر ایک ایسی ایپ ہے جو لوگوں کی دسیوں ہزار جوا کھیلنے والی ویب سائٹس اور ایپس تک ایک محدود وقت تک رسائی بلاک کرتی ہے
جب پابندی ایکٹیویٹ یا شروع کر دی جاتی ہے تو کوئی شخص اس وقت تک جوئے کے اس پلیٹ فارم میں داخل نہیں ہو سکتا، جب تک پابندی کی معیاد ختم نہیں ہو جاتی
بیٹ بلاکر ایپ کو، جو کہ مفت ہے، اس شخص کا پارٹنر، دوست یا والدین بھی کنٹرول کر سکتے ہیں
بیٹ بلاکر کے بانی ڈنکن گاروی کہتے ہیں کہ ’دور بیٹھے جوئے تک رسائی میں آسانی آج کل ہر اس شخص کے لیے بلاشبہ سب سے بڑا چیلنج ہو گا جو جوئے کی لت میں مبتلا ہے۔‘
’ہر کوئی اپنی جیب میں کسینو (جوئے بازی کے اڈوں)، یا سٹے بازوں کے ساتھ گھوم رہا ہے، اور کسی کی نظر میں آئے بغیر چھپ کر کھیلنا بہت آسان ہے۔‘
صارفین جوئے کی سائٹس کو گھنٹوں، دنوں یا ہفتوں تک بلاک کر سکتے ہیں۔ اور لوگ اس ایپ کو دوسری ویب سائٹس، جیسے گیمنگ ویب سائٹس، کو بلاک کرنے کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں
گیم بلاک ایک اور ایپ ہے جسے جوئے کی ویب سائٹس تک رسائی کو روکنے کے لیے اسی طرح ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آسٹریلوی فرم کے چیف ایگزیکٹیو ڈیوڈ وار کہتے ہیں کہ ’ہم جوئے کے مخالف نہیں ہیں۔‘ اس کے بجائے ان کی توجہ ان جواریوں کی مدد کرنے پر مرکوز ہے جنھیں جوئے کی لت بیماری کی طرح لگ چکی ہے
ڈاکٹر دوان کی وڈیو گیمز کی لت چھڑوانے میں مہارت اتنی آسانی سے نہیں آئی۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ خود بھی اس کے عادی ہوا کرتے تھے
وہ کہتے ہیں کہ ’دی جانز ہاپکنز یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن (بالٹی مور) میں رہائش کے دوران میں تقریباً دس سال تک ہر ہفتے اَسی سے سو گھنٹے تک وڈیو گیمز کھیلتا رہتا تھا۔‘
وہ ایک کتاب ’ہکڈ آن گیمز: دی لیور اینڈ کوسٹ آف وڈیو گیمز اینڈ انٹرنیٹ ایڈکشن‘ کے مصنف ہیں اور کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کو دو الگ الگ حصوں کے طور پر دیکھا جانا چاہیے
’میں ڈجیٹل میڈیا کو دو وسیع اقسام میں تقسیم کرتا ہوں۔ ڈجیٹل شوگر بمقابلہ ڈجیٹل ویجیز۔ ڈجیٹل سبزیاں، جیسا کہ آن لائن تھیراپیز یا علاج کو لوگوں میں دباؤ کو سنبھالنے اور ان کے لت پڑنے کے رویوں کے خطرات کو کم کرنے میں مدد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے
’جبکہ ڈجیٹل شوگر جیسے گیمنگ، پورنوگرافی اور ایسا سوشل میڈیا جس کا کام سے تعلق نہ ہو، کے زیادہ استعمال سے نشے کے رویوں کا خطرہ بڑھا سکتا ہے، خاص طور پر جب یہ سرگرمیاں روزانہ کے دباؤ سے بچنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔‘
ڈاکٹر دوان کو ڈر ہے کہ ہم سب اب جتنا وقت آن لائن گزار رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے یہ لگتا ہے ہمیں زیادہ گیمنگ اور انٹرنیٹ کی لت دیکھنے کو ملے گی
تاہم، کیم اڈائر کو امید ہے کہ ٹیک فرمز جیسا کہ لائن وائز، بیٹ بلاکر اور گیم بلاک اس مسئلے کو کم کرنے میں مدد کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اور اس بات پر زور دینا بھی اہم ہے کہ جو بھی کسی بھی قسم کی لت کے بارے میں فکر مند ہو وہ اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کرے
مسٹر اڈئر کا کام ’سائکیاٹری ریسرچ‘ میں شائع ہو چکا اور اب وہ ایک بین الاقوامی اسپیکر ہیں، جو اس لت کے بارے میں بات کرتے ہیں
وہ کہتے ہیں کہ ’مدد مانگنے سے میری جان بچ گئی۔ میں اپنی لت کے دوران فریب کار تھا، پیچھے رہتا تھا، تنہا، غصیلا اور ناقابل رسائی تھا۔ اب میں خوش ہوں، مطمئن ہوں اور عام زندگی کے تناؤ سے نمٹنے کے قابل ہوں۔‘
(بشکریہ بی بی سی اردو)