انسدادِ منشیات کمیٹی بلیدہ زامران کی جانب سے منشیات جیسے سماجی ناسور کے خلاف بلیدہ میں ایک عظیم الشان اور کامیاب گرینڈ جرگہ کا انعقاد نہایت ہی قابل ستائش اور قابل تحسین ہے۔ بلوچستان کے اکثر و بیشر علاقے خاص طور پر مکران اس وبا کے حصار میں ہے۔
نشہ ایک لعنت ہے، نشہ ایک فریب ہے۔ نشہ انسان کی صحت کے لئے زہر قاتل ہے اور نشہ انتہائی مضر اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس سے تندرست اور صحت مند انسان جسمانی اور ذہنی دونوں طور پر مفلوج ہوتا ہے۔ انسان اپنا وقار کھو بیھٹتا ہے۔ انسان تنہا ہوجاتا ہے۔ مسلسل بے چین رہتا ہے۔ مایوسی اور پریشانی کے الم میں مبتلا رہتا ہے۔ احساس اور ضمیر پژ مردہ ہو جاتا ہے، جس سے انسان بے حِس بن جاتا ہے۔ سماجی اقدار سے انحراف کرنے لگتا ہے۔ معاشرتی رشتوں اور بندھنوں سے بیگانہ رہتا ہے۔ مکمل طور پر ایک غیر ذمہ دار انسان بن جاتا ہے۔ معاشرے کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ لوگوں سے اس کے فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ معاشرے میں اس کو ایک ناکارہ انسان تصور کیا جانے لگتا ہے۔ معاشرے میں اس کی عزت اور تعظیم ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان انسان کو نفسیاتی مسائل اور دیگر سنگین مسائل سے دوچار کرتا ہے۔ نشے کی قبیح عادت کئی معاشرتی اور سماجی برائیوں کو جنم دیتی ہے۔ اس کے عادی لوگ اپنے نشے کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے انتہائی غلط کام بھی کرتے ہے تاکہ اس سے انہیں نشے کی لت کی تسکین کے لیے پیسے مل سکے۔ منشیات کا خطرناک مرض خود انسان کو، اس کے گھر بار کو، معاشرے کو حتیٰ کہ پوری قوم کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں نوجوان نسل منشیات کی لٙت میں بری طرح مبتلا ہے۔ جس سے اپنی برسوں کی تاریخ اور آئے روز رونما ہونے والے سنگین واقعات سے مکمل بے خبر ہے۔ اپنے تابناک مستقبل اور دنیا سے بیگانہ ہو کر حقیقت سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔ اور خیالوں میں بھٹک کر تیزی کے ساتھ اس لعنت اور ناسور کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ نوجوان نسل کا افیون، کریستال، ہیروئن، شیشہ ، شراب اور چرس میں مبتلا ہونا ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ نشہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرتا ہے، جس سے عجیب و غریب مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس زہر میں نوجوان نسل کا مبتلا ہونا قوم کی اجتماعی قوت کے خاتمے کا مترادف ہے۔ منشیات کو پھیلنے سے روکنا اور اس کا مکمل خاتمہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ اس میں انسانیت کی فلاح و بہبود اور بقاء مضمر ہے۔ نوجوان نسل کسی بھی سماج اور معاشرہ کی نہایت قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔ قوم اور ملک کا معمار ہے۔ نوجوان نسل کے کردار سے کوئی ذی شعور انسان انکار نہیں کر سکتا۔ نوجوان نسل معاشرے میں انتہائی اہم رول ادا کرتی ہے۔ قوم و ملک کو تعمیر و ترقی کی بلندیوں تک پہنچاتی ہے۔ ترقی و خوشحالی اور عروج و زوال میں نوجوان کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنی نوجوان نسل کو اس مسلط کردہ منشیات کی وبا سے ہر حال میں بچانا ہے۔ چاہے جو بھی مشکلات پیش آئیں مگر پیچے ایک قدم ہٹنا نہیں ہے۔ بلکیں اس سے دیدہ دلیری سے مقابلہ کرنا ہے۔ اور اپنی نوجوان نسل کو کسی بھی قیمت پر بچانا ہے۔
بہرحال بلیدہ کی غیور عوام نے اس اہم قومی مسئلے کی اہمیت کا اداراک کرتے ہوئے عوامی شعور کی بیداری کی خاطر اس مہم میں ہاتھ بٹانے کے لئے درخواست کی ہے جو نہایت خوش آئند امر ہے۔ ان کی طرف سے گذشتہ کئی مہینوں سے منشیات کے اس موزی مرض کے خلاف سڑکوں پر نکل آنا، علم و آگاہی کی مہم چلانا اور خاص طور پر خواتین کا اس مہم میں شرکت کرنا اور اس گرینڈ جرگے کا انعقاد یعقیناٙٙ خوش آئند اور اہم پیشرفت ہے۔ اب اس کاروان کو روکنا نہیں ہے۔ بلکیں اس میں ایندھن ڈال کر بلوچستان کے طول و عرض میں پھیلانا ہے۔ سب کو اس میں شامل ہونا ہے۔ اور اپنا قومی فریضہ انجام دینا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی منشیات کا اڈہ چلانے والا اور سب سے بڑا منشیات فروش اور سب سے بڑھ کر اس کالے دھن کا پشت پناہی کرنے والا عوام سے زیادہ طاقت ور نہیں ہے۔ ( Power belongs to people ) عوام طاقت کا سرچشمہ ہے۔ اس کالے دھندے میں ملوث کوئی کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، عوام سے مقابلہ نہیں کرسکتا بلکی سارے کے سارے عوام کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں گے۔ اس لئے عوام اپنا سینہ تان کر ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں تب تک وہ اس کالے دھندے سے باز نہ آ جائیں۔ یہ موذی مرض ہماری نسل کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام زی شعور بلوچ معمولی مفادات، قریبی رشتوں اور علاقائیت سے بالا تر ہو کر ڈٹ کر اس زہر قاتل سے لڑیں تاکہ ہمارے قیمتی اثاثوں کا روشن مستقبل تاریک ہونے سے محفوظ ہو سکے۔
بنیادی طور پر یہ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ منشیات کو مکمل طور پر بند کریں، اس کالے دھندے میں ملوث افراد کے خلاف بھرپور کاروائی کریں اور ملوث افراد کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچائیں مگر یہاں معاملات کچھ اور ہیں۔ یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ حتیٰ کہ آپ کو منشیات سے رنگے ہاتھ ایوانوں میں بھی نظر آئیں گے، تو پھر کون ان کو روکے گا، کون ان کے خلاف کاروائی کرے گا؟ یہاں ریاست اور حکومت دونوں اپنی اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے غافل ہو کر گہری نیند میں سو رہی ہیں۔ ان کو جگانے اور اپنی ذمہ داریوں سے ْآگاہ کرنے کے لئے عوامی سیلاب کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ ان کو جھنجھوڑ کر اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جا سکے۔ بہرحال عوام کو چاہیے کہ وہ ریاست اور حکومت پر تکیہ کر کے خاموش بیٹھ نہ جائیں کہ وہ ہماری نسل کو اس خطرناک مرض سے نجات دلائینگے۔ بلکہ ان کو اپنے آپ پر قوی بھروسہ کر کے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو اس وبا کے تدارک کے لئے اپنا قومی فریضہ نہایت خوش اسلوبی سے انجام دینا ہے، تاکہ اس موذی مرض کے بھیانک نتائج سے اپنی نوجوان نسل کو بچا سکیں اور ہماری نوجوان نسل اپنے مثبت کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائے اور سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اور سائنسی میدان میں اپنا کلیدی کردار ادا کرکے تغیر و تبدیلی کا انقلاب برپا کرسکے۔
چنانچہ اس ضمن میں والدین پر بھی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور نشونما کے لئے اپنا صف اول کردار ادا کریں۔ کوتاہی یا بے اعتنائی سے مکمل گریز کریں۔ بچوں کے اٹھنے بیٹھنے پر نظر رکھیں۔ بری صحبت میں بیٹھنے سے منع کریں۔ زیادہ تر وقت ان کی تعلیم و تربیت پر صرف کریں۔ بچوں کے فارغ اوقات میں ان کو سیرو تفریح اور کھیلوں میں مشغول کریں۔ منشیات کے مضمرات سے ہر وقت ان کو آگاہ کرتے رہیں۔ اسی طرح اساتذہ بھی نہایت اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ اساتذہ کو چائیے کہ وہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بہترین کردار ادا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ وقتاٙٙ فوقتاٙٙ بچوں کی ذہن سازی کریں اور ان کو منشیات کے مُضر اثرات سے آگاہ کرتے رہیں۔ خاص طور پر پڑھے لکھے نوجوانوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو منشیات کی بیماری سے بچانے کے لئے علمی و آگاہی کے پروگرام منعقد کریں۔ سیاسی و سماجی شخصیات اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔ علمائے کرام اپنا کردار ادا کر کے پیش پیش ہوجائیں۔ قلم کار اور دانشور اس گھمبیر معاملے میں صحیح رہنمائی کریں۔ ادیب و شاعر اپنا کردار ادا کریں۔ حتیٰ کہ معاشرے میں ہر فرد اس سنگین مسئلے کے حل کو اپنا فرض منصبی سمجھ کر اس کے لئے اقدامات اٹھائے۔ تب کہیں جاکر ہم منشیات جیسے سماجی ناسور اور لعنت کو صفحہ ہستی سے مٹا کر ایک صحت مند اور پاک و صاف معاشرے کی تشکیل کے ضامن بنیں گے۔ جس سے ہماری نوجوان نسل اس زہرِ ہلاہل سے محفوظ رہ سکے گی۔