”بلا سود قرضہ“ لوگ حکومت کے سستے قرضے لے نہیں رہے یا لے نہیں پا رہے؟

نیوز ڈیسک

انور شاہین چھوٹے پیمانے پر ایک کاروبار کرتے ہیں تاہم وہ اپنے کاروبار میں اضافہ چاہتے ہیں۔ انور شاہین کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ وہ بینک سے قرض نہیں لے سکتے، کیونکہ وہاں سے قرض لینے کے لیے ان کے پاس گروی رکھنے کے لیے کچھ نہیں ہے

اس صورت حال میں جب حکومت کی جانب سے جب نوجوانوں کو کاروبار کرنے کے لیے بلا سود قرضے دینے کی اسکیم کا اجرا کیا گیا، تو انور شاہین نے اس اسکیم کے تحت قرض لینے کے لیے درخواست دی اور بینک کی جانب سے تمام کاغذی کارروائی کو بھی پورا کیا، لیکن انہیں ابھی تک یہ قرضہ نہیں مل سکا

علاوہ ازیں دوسری حکومتی اسکیم ”کامیاب پاکستان پروگرام“ میں بھی انور شاہین نے درخواست دی، تاہم انہیں ابھی تک قرض حاصل کرنے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی

افتخار رسول ایک سافٹ ویئر ڈویپلر ہیں اور محدود پیمانے پر سافٹ ویئر ڈولمپنٹ کا کام کرتے ہیں۔ افتخار اپنے کام کو بڑھانا چاہتے ہیں، جس کے لیے انھیں سرمائے کی ضرورت ہے

یہ سرمایہ انہیں حکومت کی جانب سے بلا سود قرضے کی صورت میں مل سکتا ہے اور وہ یہ قرض حاصل کرنے کے خواہش مند بھی ہیں، کیونکہ انہیں اپنے کاروبار میں وسعت کے لیے پندرہ سے بیس لاکھ کی ضرورت ہے، تاہم افتخار رسول نے ابھی تک اس قرضے کے لیے درخواست نہیں دی

افتخار کا کہنا ہے ”حکومت کی اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے کچھ کاغذی کارروائی اور دوسری ضروریات کی تکمیل کرنا لازمی ہے اور بہت سے فارم بھرنا ہوتے ہیں، جو وہ ابھی تک نہیں بھر سکے۔ کیونکہ ایک تو ان کے پاس وقت نہیں اور دوسرا بہت سارے فارمز کو بھرنے میں وہ اکتاہٹ محسوس کرتے ہیں“

ان کے برعکس محمد اسماعیل نے وزیر اعظم پاکستان کی کامیاب نوجوان اسکیم میں قرض لینے کے لیے درخواست دی تھی اور انہوں نے فارمز اور شرائط بھی پوری کر دی تھیں، تاہم انہیں قرض کا اجرا نہیں ہو سکا

ایک جنرل اسٽور بنانے کا ارادہ رکھنے والے اسماعیل کا کہنا ہے ”مجھے نہیں معلوم کہ مجھے قرض کیوں نہیں ملا، اب میں نے اس کی فکر کرنا بھی چھوڑ دی ہے۔“

پاکستان میں ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کی جانب سے لوگوں کو کاروبار کرنے کے لیے بلا سود قرض دینے کی اسکیموں کا اجرا کیا گیا، جن میں ”کامیاب نوجوان پروگرام“ اور ”کامیاب پاکستان پروگرام“ جیسی اسکیمیں شامل ہیں۔ لیکن اکثر افراد اس بارے میں شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ قرض کے حصول کے لیے درخواست دینے کے باوجود انہیں یہ قرض نہیں مل سکا

یاد رہے کہ موجودہ حکومت کی جانب سے اکتوبر کے مہینے میں ”کامیاب پاکستان پروگرام“ کی اسکیم کا اجرا کیا گیا تھا، جس کے تحت لوگوں کو کاروبار کرنے، زرعی زمین اور مکان خریدنے کے لیے بلاسود قرض دے جانے ہیں، جو بینکوں نے مائیکرو فنانس اداروں کے ذریعے مستحق افراد میں تقسیم کرنا ہیں

تاہم نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں اس اسکیم کے تحت قرضے فراہم کرنے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ دو مہینوں کے ہدف کے مقابلے میں صرف ڈھائی فیصد تک فراہم کیے گئے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت پانچ لاکھ تک کا قرض بلا سود فراہم کیا جاتا ہے

بینکاری اور معیشت کے ماہرین کے مطابق ”کامیاب پاکستان پروگرام“ کے تحت جو قرضے دیے جائیں گے ان کا نتیجہ بھی شاید ماضی کی اسکیموں کی طرح نکلے کہ جن کا کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا

حکومت اس اسکیم کے بارے میں فقط دو تین مہینوں میں کامیابی اور اس سے مطلوبہ نتائج نکلنے کی توقعات کو مسترد کرتی ہے، حکومت کا موقف ہے کہ اسکیم تین سال پر محیط ہے اور تین سالوں کے اختتام پر ہی اس کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں کوئی حتمی رائے دی جا سکتی ہے

واضح رہے کہ ”کامیاب پاکستان پروگرام“ حکومت کی جانب سے کاروبار شروع کرنے اور کاروبار کو وسعت دینے کے لیے قرضے فراہم کرنے کے لیے شروع کی گئی ایک اسکیم ہے، جس میں دیگر مختلف زمرے بھی شامل ہیں

وزارت خزانہ کی ویب سائٹ پر دستیاب کامیاب پاکستان پروگرام کے آپریشنل فریم ورک کے مطابق یہ موجودہ حکومت کا فلیگ شپ منصوبہ ہے، جس سے معاشرے کے غریب طبقات کو مالی طور پر خود مختار بنانا ہے۔ اس اسکیم کے تحت کامیاب کاروبار، کامیاب کسان کیٹیگری کے ساتھ مکان خریدنے کی کیٹیگری بھی متعارف کرائی گئی ہے۔ کامیاب کاروبار کے لیے تین سال کے لیے پانچ لاکھ روپے اور اسی طرح کامیاب کسان کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ کے زرعی قرضے اور دو لاکھ زرعی آلات خریدنے کے لیے دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسی طرح مکان خریدنے کے لیے ستائیس لاکھ تک قرض فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے

اس سوال پر کہ کیا کامیاب پاکستان پروگرام عام افراد کو کاروبار میں توسیع میں مدد فراہم کر سکتا ہے؟ بینکر راشد مسعود عالم کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کے تحت پانچ لاکھ کی رقم سے کاروبار شروع کرنے کا جو اعلان کیا گیا ہے، وہ زیادہ فائدہ مند نظر نہیں آتا کیونکہ اس سے چھوٹے پیمانے پر بھی کوئی کام نہی ہو سکتا

اپنی اس رائے کی وجہ بتاتے ہوئے راشد مسعود عالم کہتے ہیں ”ملک میں ماضی میں بھی ایسی اسکیموں کا اجرا کیا گیا ہے، تاہم اس کا نتیجہ کچھ ایسا شاندار نہیں نکلا کہ اس سے عام آدمی کو کوئی خاص فائدہ ملا ہو اور وہ مالی طور پر خود مختار ہوا ہو۔“

انہوں نے بتایا کہ اگرچہ حکومت نے اس اسکیم کے لیے مائیکرو فنانس اداروں کے ذریعے رقم تقسیم کرنی ہے، جو بینک فراہم کریں گے، تاہم یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بینک قرض دینے سے پہلے رسک منیجمنٹ کے پہلو کو بھی دیکھتے ہیں، تاکہ ان کا سرمایہ محفوظ رہے

انہوں نے کہا کہ حکومتی اسکیمیں اکثر بینکوں کے نان پرفارمنگ لون کے پورٹ فولیو میں اضافہ کرتی ہیں، جو بینکوں کے فائدے کی چیز نہیں ہوتی

ایک مقامی انگریزی اخبار سے وابستہ معاشی امور کے صحافی شہباز رانا کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کی منصوبہ بندی اچھے طریقے سے نہیں کی گئی ہے، جس کی وجہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کا اس میں بھی سیاسی ایجنڈا ہے

وہ کہتے ہیں ”اگر صرف دو مہینوں کے اعداد و شمار کو لیا جائے، تو قرض فراہمی حکومت کے اپنے اہداف سے بھی کم ہے. حکومت اس اسکیم کے عمل درآمد کے مرحلے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتی

شہباز رانا کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کے تحت بینکوں کی جانب سے فراہم کیے گئے قرضے مائیکرو فنانس اداروں کے ذریعے تقسیم ہونے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اس سکیم کی منصوبہ بندی میں خامیوں کی وجہ سے مائیکرو فنانس ادارے اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس اسکیم کے تحت قرضے فراہمی میں مسئلہ بن رہا ہے

اس اسکیم کے تحت شرط ہے کہ یہ ادارے جس دن بینک سے رقم وصول کریں گے، وہ اسے دینے کے پابند ہوں گے، تاہم یہ ادارے اس میں کچھ رعایت حاصل کرنا چاہ رہے ہیں

دوسری جانب اس سلسلے میں وزیر خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم کا موقف ہے کہ اس اسکیم کو شروع ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے ہیں، اس لیے اس کے تحت کم قرضے فراہم کرنے پر اس اسکیم کی ناکامی کا تاثر درست نہیں ہے

وزیر خزانہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ابھی تو اسکیم شروع ہوئی ہے اور قرضے دینے کے لیے پراڈکٹ بنانے ہیں جو مائیکرو فنانس ادارے کر رہے ہیں

مزمل اسلم کہتے ہیں ”اس اسکیم میں مارکیٹنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طریقۂ کار شامل ہیں، تاکہ معاشرے کے جن افراد کو بینکوں میں گھسنے نہیں دیتا جاتا تھا، انہیں مائیکرو فنانس اداروں کے ذریعے گھر بیٹھے قرض فراہم کیا جا سکے۔“

حکومت کی جانب سے عام غریب افراد کو رعایتی قرضے سے جڑی مشکلات کے بارے میں ایک مقامی بینک کے ڈجیٹل شعبے میں قرضے کی درخواستوں کے معاملات دیکھنے والے شہاب رضوان نے بتایا کہ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بینکوں کی جانب سے جب حکومتی اسکیموں کے تحت قرضے فراہم کیے جاتے ہیں، تو اس کے لیے مخصوص بینکنگ پراڈکٹس تیار کی جاتی ہیں، جنہیں تیار کرنے میں کچھ عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اسی طرح ان پراڈکٹس کی ہینڈلنگ کے لیے افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے، جو بینک فوری طور پر ہائر نہیں کر سکتا. اسی طرح ان پراڈکٹس کے بارے میں عملے کی تربیت اور ان سے متلعق دستاویزی ضرویات کی تکمیل سے متعلق آگاہی بھی ضروری ہوتی ہے

شہاب رضوان کہتے ہیں ”اکثر درخواست گزار قرضہ حاصل کرنے کے طریقہ کار کے بارے میں شکایت کرتے ہیں، جس کی بنیاد ی وجہ یہی ہے کہ جو درخواستیں دیتے ہیں یا آن لائن فارم بھرتے ہیں، وہ بنیادی معلومات بھی اکثر اوقات غلط لکھ دیتے ہیں

وہ اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں ”چھوٹے قرض لینے والے ایسے افراد ہوتے ہیں، جن کے پاس آن لائن فارم بھرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، جس کی وجہ ان کے اندر کمپوٹر لٹریسی کا فقدان ہے اور جو ان کی جگہ آن لائن فارم بھرتے ہیں، وہ ایسی بنیادی غلطیاں کرتے ہیں جو قرض لینے کے طریقہ کار کو متاثر کرتی ہیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close