سابق بھارتی سفارت کار اور وزیرخارجہ نٹور سنگھ کی کتاب ایک زندگی کافی نہیں (One Life is not enough) میں بہت سے واقعات ہیں۔ منجھا ہوا بھارتی ڈپلومیٹ، جس نے بعد میں ملازمت چھوڑ کر کانگریس پارٹی سے سیاست کی، الیکشن جیتے اور اہم وزارتیں حاصل کیں، اس کے مشاہدات دلچسپ ہیں
ہمارے ہاں ریٹائر جرنیلوں، سفارت کاروں اور سیاستدانوں کی کتابوں کا ٹرینڈ زیادہ نہیں، چند ایک کتابیں شائع ہوئیں، ان میں سے بھی بہت کم اردو میں ترجمہ ہوسکیں
جنرل کے ایم عارف کی دو کتابیں انگریزی اور اردو میں شائع ہوئیں اور کئی حوالوں سے وہ بہت اہم ہیں۔ جنرل ضیا کے دور کو جاننے اور سمجھنے کے لئے ہمارے پاس وہی ایک نسبتاً معتبر ذریعہ ہے
جنرل ضیا کے دور میں بہت سے جرنیل اہم رہے، ان میں سے کسی نے کبھی اپنی یاداشتیں مرتب کرنے کی زحمت نہیں کی۔ جنرل فیض علی چشتی کی ایک کتاب ہے، اس میں بھی بھٹو کا تختہ الٹنے کے حوالے سے زیادہ تفصیل ہے اور جنرل چشتی نے اپنے مزاج کے مطابق اپنی قصیدہ خوانی پر زیادہ فوکس رکھا، ٹھوس معلومات کم ہیں
جنرل کے ایم عارف کی پہلی کتاب ”ورکنگ ودھ ضیا“ کا ترجمہ ’’ضیا الحق کے ساتھ‘‘ اور دوسری ’’ملٹری شیڈو‘‘ کا ترجمہ ’’خاکی سائے‘‘ کے نام سے دوست پبلشر اسلام آباد نے شائع کیں
ایوب خان کے حوالے سے الطاف گوہر کی کتاب واحد ذریعہ ہے۔ کچھ چیزیں قدرت اللہ شہاب کی شہرہ آفاق کتاب شہاب نامہ سے پتہ چلتی ہیں۔ تھوڑا بہت م ب خالد کی کتاب ایوان صدر میں سولہ سال سے.. سانحہ مشرقی پاکستان پر البتہ چند ایک فوجی افسروں نے کتابیں لکھیں، میجر جنرل راؤ فرمان علی، پاکستان کے آخری آرمی چیف جنرل گل حسن، بریگیڈئر ظفر اقبال چودھری، بریگیڈئر صدیق سالک وغیرہ۔
پچاس کے عشرے کے سیاستدانوں میں سے دو سابق وزرائے اعظم ملک فیروز خان نون اور چودھری محمد علی کی سوانح حیات شائع ہوئیں، معلوم نہیں آج کل دستیاب ہیں یا آؤٹ آف پرنٹ ہو چکیں۔ چودھری خلیق الزماں نے بھی کتاب لکھی۔
سیاستدانوں میں سے ایئر مارشل اصغر خان نے کئی کتابیں لکھیں، مگر ان کی نوعیت یاداشتوں سے زیادہ فکری ہے۔ ایک اچھی اور اہم سوانح حیات سردار شیرباز مزاری کی بھی شائع ہوئی، بدقسمتی سے اسے زیادہ اہمیت نہیں مل سکی، شائد ضخیم اور انگریزی میں ہونے کے باعث، ان کا پبلشنگ ہائوس بھی ایک وجہ بنا جو کتاب پھیلانے پر زیادہ یقین نہیں رکھتا اور کتابوں کے اقتباسات چھاپنے کی حوصلہ شکنی کرتا ہے
میاں ممتاز دولتانہ کو جم کر کتاب لکھنی چاہیے تھی کہ وہ صاحب مطالعہ انسان تھے۔دولتانہ صاحب کے بارے میں میرا تاثر یہی ہے کہ جس قدر ان کی ستائش کی جاتی ہے، ان کی کامیابیاں ویسی نہیں ۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں سے انصاف نہیں کیا
نوابزادہ نصراللہ خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ باقاعدگی سے روزنامچہ لکھتے تھے، کتاب وہ بھی نہ لکھ سکے۔ خان عبدالولی خان نے اپنے مخصوص نظریات کے اظہار کے لئے کتاب لکھی ، مگر اپنی یاداشتوں کو قلم بند نہیں کیا، حالانکہ وہ اس پر قدرت رکھتے تھے
مولانا کوثر نیازی کی کتاب ’’اور لائن کٹ گئی‘‘ پیپلزپارٹی حکومت اور پی این اے مذاکرات کے حوالے سے تفصیل جاننے کا ایک ذریعہ ہے، ایک موقف۔ پی این اے کی طرف سے نوابزاہ نصراللہ، پروفیسر غفور اور مفتی محمود مذاکراتی کمیٹی میں شامل تھے۔ ان تینوں نے مولانا کوثر نیازی کی طرح کتاب نہیں لکھی، یوں ان کی جانب سے باقاعدہ موقف سامنے نہیں۔ پروفیسر غفور احمد کی بھی پاکستانی تاریخ پر تین چار کتابیں ہیں، مگر مجھے پروفیسر صاحب سے یہ شکوہ ہے کہ انہوں نے اخباری مواد پر زیادہ تکیہ کیا اور اپنی یاداشتیں کم بیان کیں۔ ویسے تو پیپلزپارٹی کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی میں شامل عبدالحفیظ پیرزادہ نے بھی کتاب نہیں لکھی، حالانکہ وہ بعد میں طویل عرصہ فعال رہے
جماعت اسلامی کے ایک امیر میاں طفیل محمد کے انٹرویوز پر مبنی ایک کتاب شائع ہوئی۔ قاضی حسین احمد کو اپنی یاداشتوں کو مرتب کرنا چاہیے تھا، وہ اس کے اہل تھے، چند ایک کالم انہوں نے لکھے، مگر وہ جم کر کام نہ کر سکے۔ جماعت اسلامی کے ایک اہم رہنما خرم مراد کی یاداشتوں پر مبنی دلچسپ کتاب ان کے انتقال کے بعد شائع ہوئی، یہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، مگر افسوس کہ جماعت کے اہم دور کی تفصیل اس میں موجود نہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی کتاب ڈاٹر آف ایسٹ (دختر مشرق) ایک اچھی کتاب ہے، مگر ان کی زندگی کے اہم سال 1988 کے بعد شروع ہوتے ہیں، اس بارے میں انہوں نے کبھی کچھ نہیں لکھا۔ میاں نواز شریف نے خود تو کتاب نہیں لکھی، مگر ان کے ایک طویل انٹرویو اور کچھ دیگر مواد پر مبنی کتاب ضرور شائع ہوئی۔
شیخ رشید نے نوے کے عشرے میں اپنی کتاب فرزند پاکستان لکھی، تب وہ نواز شریف کے ساتھی تھے۔ اس کتاب کو ابھی دو سال پہلے اپ ڈیٹ کیا اور قابل ذکر بات ہے کہ انہوں نے کتاب کے بہت سے ایسے مواد کو برقرار رکھا جو اب ان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا تھا
سفارت کاروں کی بات ہو رہی تھی، اس حوالے سے بھی زیادہ کتابیں موجود نہیں، کچھ ہیں بھی تو وہ خشک اور بور، عام قارئین کے لئے دلچسپی سے عاری۔ جمشید مارکر ہمارے نامور سفارت کار ہیں، ان کی پہلی کتاب چھپی ، دلچسپی سے لی اور پڑھی، اس میں مختلف جگہوں پر بطور سفارت کار پوسٹنگ اور وہاں کی بوریت زدہ تفصیل کے سوا کچھ نہیں تھا۔ مایوسی ہوئی۔ البتہ ان کی دوسری کتاب اہم ہے۔ سابق سفیر کرامت غوری کی کتاب نے البتہ تہلکہ مچایا، انہوں نے کئی اہم سیاسی لیڈروں جیسے مولانا فضل الرحمٰن ، نوابزادہ نصراللہ خان کے بارے میں بھی کھل کر خاصا کچھ لکھ دیا۔ کرامت غوری کی نئی کتاب بھی آئی ہے، مگر اسے ابھی پڑھ نہیں سکا۔ عبدالباسط ہمارے معروف سفارت کار رہے ہیں، بھارت میں وہ ہائی کمشنر تھے، انہیں ترقی نہ دی گئی تو احتجاجاً استعفا دے دیا۔ ان کی کتاب Hostility میں سنا ہے کہ خاصا کچھ کھل کر بیان کیا گیا۔ یہ کتاب میری ترجیحی فہرست میں موجود ہے، مگر ابھی پڑھ نہیں سکا۔ ملیحہ لودھی بنیادی طور پر صحافی ہیں، مگر بطور سفارت کار انہیں بہت اہم پوسٹنگ ملیں اور اب وہ مستند سفارت کار کی شناخت رکھتی ہیں، ان کی کتابیں شائع ہوتی رہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل امریکا میں سابق پاکستانی سفیر اعزاز چودھری کی کتاب بھی شائع ہوئی، اس کا تذکرہ برادرم رئوف کلاسرا نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں کیا۔ یہ کتاب مل نہیں سکی، ورنہ اسے ضرور پڑھتا۔
نٹور سنگھ کی دو کتابوں کی ای بکس مجھے کسی دوست نے بھجوائی، ایک تو وہی جس کا شروع میں ذکر ہوا، دوسری Walking with Lions ہے۔ نٹور سنگھ کی یاداشتوں سے نمٹ لوں تو پھر دوسری کتاب دیکھوں گا۔
بات اِدھر اُدھر چلی گئی اور نٹورسنگھ کی یاداشتیں رہ گئیں۔ نٹور سنگھ جب پاکستان بطور سفیر آنے لگے تو وہ بھارت میں تب پاکستانی سفیر عبدالستار سے ملنے گئے۔ نٹور سنگھ کے بقول اس نے پاکستانی سفیر کو کہا کہ آپ کی طرح میری بھی تمام زندگی سفارت کاری میں گزری ہے، اس لئے مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان میں کیا کہنا ہے، آپ مجھے یہ مشورہ دیں کہ مجھے وہاں کیا نہیں کہنا چاہیے؟ عبدالستار نے نٹور سنگھ کو مختصر مگر بلیغ مشورہ دیا جو ان کے بقول آج تک نہیں بھول پائے۔ عبدالستار نے کہا ، ’’پاکستان میں یہ کبھی نہ کہنا کہ ہم (بھارتی، پاکستانی) ایک جیسے لوگ ہیں، کیونکہ ہم ایک نہیں ہیں۔(Never say that we are the same People.We are not.) عبدالستارنے پھر اپنے جملے کی وضاحت کی کہ اگر ہم ایک تھے تو پھر 1947 میں الگ کیوں ہوئے؟ نٹورسنگھ کے بقول اس نے پاکستانی سفارت کار کے اس مشورے کو پاکستان میں قیام کے دوران اچھی طرح یاد رکھا
بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے دور میں بھارتی فوج نے بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں کیں، جنہیں براس ٹیک کا کوڈ نام دیا گیا۔ نٹور سنگھ تب وزیر مملکت برائے امور خارجہ تھے۔ انہوں نے لکھا کہ افغان صدر جنرل نجیب کو لینے وزیراعظم راجیو گاندھی مجھے اپنے ساتھ لے گئے ، راستے میں پوچھا کہ کیا پاکستان انڈیا میں جنگ ہونے جا رہی ہے؟ نٹورسنگھ نے حیرانی سے کہا کہ مجھے علم نہیں، وزارت خارجہ اس حوالے سے نہیں جانتی۔ راجیو گاندھی نے کہا کہ بطور وزیراعظم وہ بھی اس حوالے سے بے خبر ہیں۔ راجیو نے پھر نٹور سنگھ اور وزیرخارجہ این ڈی تیواڑی کو کہا کہ امریکی اور روسی سفیروں سے کہو کہ وہ پاکستانی فوج کی نقل و حرکت کے حوالے سے اپنی سیٹلائٹ بیسڈ انفارمیشن دیں۔ دونوں ممالک نے اطلاع دی کہ پاکستانی فوج حملے کی تیاری نہیں کر رہی۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس قدر بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں بھارتی آرمی چیف جنرل سندر جی نے کرائیں اور وزیر دفاع ارون سنگھ کی تائید حاصل تھی۔ نٹورسنگھ کے بقول راجیو گاندھی کو انہوں نے مشورہ دیا کہ ارون سنگھ کو برطرف کر دیا جائے، مگر راجیو نے ایسا نہیں کیا اور کہا کہ وہ ہمارا دوست ہے۔ نٹور سنگھ کا برجستہ جواب تھا ’’وزیراعظم کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔‘‘ راجیو نے ہدایت جاری کی کہ جنگ کے خطرے کو ٹالنے کے لئے کوششیں کی جائیں
نٹورسنگھ نے جنرل ضیا الحق کے فروری 87 میں جے پور کرکٹ ٹیسٹ میچ دیکھنے کے بہانے دورہ بھارت کا ذکر کیا اور کہا کہ جنرل ضیا نے راجیو گاندھی سے اس پر ڈسکس کیا۔ نٹور سنگھ نے البتہ اس مشہور واقعے اور دھمکی کا ذکر نہیں کیا، جو مبینہ طور پر جنرل ضیا نے راجیو گاندھی کو دی تھی۔