سابق بھارتی وزیرخارجہ کے انکشافات – 1

محمد عامر خاکوانی

آج کل پاکستان میں لیکس (Leaks) سیزن چل رہا ہے، آئے روز کوئی نہ کوئی آڈیو، وڈیو سوشل میڈیا پر لیک کر دی جاتی ہے اور پھر اگلے چند روز تک سب اسی پر لکھتے، تبصرے کرتے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ ان آڈیوز، وڈیوز کو عدالت میں کوئی لے کر نہیں جاتا کہ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ہوجائے۔ اس کے بجائے ہر فریق اپنے اپنے پروپیگنڈہ کے حق میں اسے استعمال کرتا ہے۔ مقصد صرف کنفیوژن بڑھانا، اپنی حمایت کا تاثر پیدا کرنا اور مخالفوں کے موقف کو کمزور کرنا ہے۔ یہ شورشرابا ابھی جاری رہے گا، مختلف کیمپس اپنے اپنے مقاصد کے لئے یہ شرلیاں چھوڑتے رہیں گے، الزام ، تردید، جوابی الزام کا سلسلہ جاری رہے گا، نتیجہ شائد کچھ نہ نکلے۔

اس شور شرابے میں گھس کر کسی ایک فریق کی ڈفلی بجانے سے بہتر مجھے تو یہ لگا کہ کتابیں پڑھی جائیں۔ سابق بھارتی وزیرخارجہ نٹور سنگھ کی دو کتابیں شروع کر رکھی ہیں۔ نٹور سنگھ فارن سروس میں رہے، بعد میں گاندھی خاندان کے قریب ہوگئے، اندرا گاندھی اور پھر راجیو گاندھی کے معتمد ساتھی رہے۔ بھارتی تاریخ کے بعض نہایت اہم، نازک مرحلے انہوں نے بڑے قریب سے دیکھے۔ ان کی تفصیل دلچسپ ہے۔

جنرل ضیا الحق کے اقوام متحدہ میں خطاب کے حوالے سے ایک واقعہ مشہور ہے کہ ضیا کی تقریر سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت کی گئی۔ جنرل ضیا کو اسلامی ممالک کی تنظیم کے چیئرمین کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا اور ایک طرح سے وہ مسلم دنیا کے نمائندہ کے طور پر وہاں گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیا نے اپنی تقریر سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت کرائے جانے کی شرط رکھی۔ اس زمانے میں یہ تقریر براہ راست دکھائی گئی تھی اور تلاوت بھی سنائی گئی۔ بعد میں ضیا مخالفوں کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ضیا حکومت نے دھوکہ کیا تھا اور وہ تلاوت اقوام متحدہ میں نہیں ہوئی تھی، بلکہ صرف پاکستانی ناظرین کے لئے پی ٹی وی پر تلاوت سنائی گئی۔ یہ بات برسوں سے پڑھتے سنتے آئے ہیں، ہمارے کئی لبرل سیکولر نامی گرامی صحافی اس حوالے سے مرحوم ڈکٹیٹر کا ٹھٹھا اڑاتے اور پھبتیاں کستے رہے ہیں۔
نٹور سنگھ کی کتابOne Life is not enough پڑھ کر یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ ایساحقیقت میں ہوا تھا۔ نٹور سنگھ یکم اکتوبر 1980 کو جنرل اسمبلی ہال میں ضیا کی مذکورہ تقریر کے روز موجود تھے۔ ایسے فورم پر شرکا ہیڈ فون لگائے ہوتے ہیں تاکہ تقریر درست سن سکیں یا ضرورت پڑنے پر اس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ سنا جا سکے۔ نٹور سنگھ اپنی کتاب کے صفحہ 195 پر شکایت کے انداز میں لکھتا ہے کہ اس روز جنرل ضیا تقریر کرنے ڈائس پر آئے اور پھر چند لمحات کے لئے خاموش کھڑے ہوگئے ، اس کے ساتھ ہی ہیڈ فون پر ہم نے قرآن پاک کی تلاوت سنی، یہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا اور اس کی کوئی پہلے سے مثال موجود نہیں تھی۔

نٹور سنگھ نے یہ بھی لکھا کہ ہم نے سفارتی ذرائع سے تمام تر کوششیں کی کہ ضیا الحق اپنی تقریر میں کشمیر کا ذکر نہ کرے۔، انہیں پیغام دیا گیا کہ ایسا کرنے پر بھارت سے تعلقات مزید بگڑ جائیں گے، ابتدا میں یقین دہانی کرائی گئی ، مگر بعد میں علم ہوا کہ ضیاالحق کشمیر کا تذکرہ کرے گا۔نٹورسنگھ کے بقول ضیاالحق نے تقریر میں چالاکی سے فلسطین کے ایشو کے ساتھ کشمیر کو ملاتے ہوئے اپنی بات کہہ ڈالی۔

نٹور سنگھ اپنے سفارتی کیرئر کے دوران پاکستان میں بھی تعینات رہے، یہ جنرل ضیا کے ابتدائی برس تھے ۔ نٹور سنگھ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ مجھے معلوم ہوا کہ اسلام آباد میں بھارتی سفارت خانہ (ہائی کمیشن )نے ضیا حکومت کے آنے کے بعد بھٹو خاندان سے کوئی رابطہ نہیں رکھا ۔ نٹورسنگھ نے اپنے طور پر کوشش کی مگر اندازہ ہوا کہ بھارتی سفارت کاروں پر نظر رکھی جا رہی ہے، تاہم اس نے بھٹو خاندان کے ڈینٹسٹ ڈاکٹر نیازی سے کسی طرح رابطہ کر لیا اور اپنے دانت دکھانے کے بہانے ان کے کلینک جا پہنچا۔ وہاں اس نے بیگم نصرت بھٹو سے رابطہ کی خواہش ظاہر کی۔ چند ہفتے بعد ڈاکٹرنیازی نے بتایا کہ بیگم نصرت بھٹو سے آپ فلاں دن کراچی میں ان کے گھر ملاقات کر سکتے ہیں۔ نٹور سنگھ اپنے ساتھی سفارت کار مانی شنکر آئر کے ساتھ بیگم نصرت بھٹو سے ملنے گیا، بے نظیر بھٹو تب لاڑکانہ میں نظر بند تھیں۔ نٹور سنگھ نے یہاں برسبیل تذکرہ ذکرکیا کہ اندرا گاندھی شملہ معاہدے کے لئے تیار نہیں تھیں، مگر وہ اپنے مشیر پی این ہاکسر کے مشورے پر ایسا کرنے پر رضامند ہوئیں، ہاکسر کے مطابق اگر بھٹو خالی ہاتھ واپس گئے تووہ ایک دن بھی حکومت نہیں کر پائیں گے۔ان کی حکومت گر جائے گی ۔ ایک غیر مستحکم پاکستان بھارت کے مفاد میں نہیں۔ پی این ہاکسر کے اس رائے پر وزیر خارجہ سورن سنگھ اور وزیر فخرالدین علی احمد خاموش رہے، یوں شملہ معاہدہ کی راہ ہموار ہوئی۔

نٹورسنگھ نے بیگم نصرت بھٹو سے ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ بیگم بھٹو شدید ڈپریشن میں تھیں، وہ بے نظیر بھٹو سے نہیں مل پا رہی تھیں اور انہیں بیٹی کی خیرخیریت کا کچھ بھی اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو نے بھارتی سفارت کاروں کو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے ایک نئی کہانی سنائی۔ نٹور سنگھ کے بقول بیگم بھٹو نے بتایا کہ ضیا حکومت نے مردہ بھٹو کو پھانسی دی تھی اور وہ اس سے چند گھنٹے قبل انتقال کر چکے تھے۔ بقول بیگم بھٹو ضیاحکومت کے چند افسران اس رات جیل میں بھٹو کے پاس آئے اور انہوں نے بھٹو سے بعض کاغذات پر دستخط کرنے کا کہا ، جس پر بھٹو نے برہم ہو کر اس اعلیٰ افسر کو کالر سے پکڑ لیا، ہاتھا پائی ہوئی جس میں بھٹو نیچے گرے اور ان کے سر پر شدید چوٹ لگی اور وہ جانبر نہ ہوسکے۔ نٹو ر سنگھ لکھتا ہے کہ جب وہ ملاقات کے بعد ہوٹل پہنچے تو کچھ دیر میں جنرل ضیاالحق کا انہیں فون آیا، ضیا نے پوچھاکیسے ہو اور کراچی میں وقت کیسا گزر رہا ہے ؟ نٹورسنگھ سمجھ گیا کہ پاکستانی حکمران یہ پیغام دے رہا ہے کہ ہر حرکت پر میری نظر ہے۔

نٹورسنگھ نے لکھا کہ کچھ عرصے بعد بیگم بھٹو سے ایک اور ملاقات ہوئی، وہ بیمار تھیں اور شدید کھانسی کے باعث خون تھوک رہی تھیں، مگر پاکستانی حکومت انہیں علاج کی غرض سے باہر جانے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ ہوشیار نٹور سنگھ نے بیگم نصرت بھٹو کو مشورہ دیا کہ وہ چند معروف ڈاکٹروں کو بلاکر چیک اپ کرائیں اور ان سے یہ مشورہ حاصل کریں کہ یہاں علاج کے بجائے باہر علاج کرانا زیادہ بہتر ہوگا۔ اس کے بعد نٹورسنگھ نے بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی سے رابطہ کر کے انہیں جنرل ضیا الحق کے نام ایک اپیل کرنے پر قائل کر لیا، جس میں بیگم نصرت بھٹو کو باہر علاج کرانے کی درخواست کی گئی۔نٹورسنگھ نے میڈیکل پینل کی رپورٹ کے حوالے سے اندرا گاندھی کی یہ تحریری اپیل جنرل ضیا الحق کو دی تو وہ ناخوش ہوئے اور اسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔ نٹور سنگھ کو اندازہ تھا کہ برا منانے کے باوجود جنرل ضیا الحق کے لئے اس اپیل کو مسترد کرنا آسان نہیں کیونکہ وہ بھٹو کو پھانسی دے چکے ہیں اور بھٹو کی بیوہ کی موت کا خدشہ افورڈ نہیں کر سکتے۔ وہی ہوا، بیگم بھٹو لندن چلی گئیں اور بے نظیر بھٹو ان کی جگہ پاکستان پیپلزپارٹی کی لیڈر بن گئیں۔
(جاری ہے)

نوٹ: یہ کالم ”92نیوز“ کے شکریے کے ساتھ شایع کیا گیا، ادارے کا اس کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close