کوئٹہ – کچھ لوگ یہ سوچ کر ساری زندگی کچھ نہیں کرتے کہ ان کے بس میں تو کچھ بھی نہیں، حالات پر کُڑھتے ایسے لوگ دوسروں پر الزام دھر کر خود کو بری الذمہ قرار دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں. لیکن وہ یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ابتدا ایک ایسے چھوٹے قدم سے بھی کی جا سکتی ہے، جسے اٹھانا ہمارے بس میں ہی ہوتا ہے
دسرتھ مانجھی، جسے بڑے پیمانے پر "ماؤنٹین مین” کے نام سے جانا جاتا ہے، ہندوستان کے بہار میں گیا کے قریب گہلور گاؤں کا ایک غریب مزدور تھا، جس نے تنِ تنہا ایک ایک پہاڑی سے 30 فٹ چوڑا اور 360 فٹ لمبا راستہ بنایا تھا۔ اُس نے اس کام کے لیے صرف ایک ہتھوڑا اور چھینی کا استعمال کیا تھا
ایسا ہی ایک کردار کوئٹہ میں مظہر علی بھی ہے. بلوچستان میں خشک سالی اور سخت موسمی حالات سے لڑتے ہوئے کوئٹہ کے مظہر علی اپنی مدد آپ کے تحت ایک ڈیم بنا رہے ہیں، وہ گزشتہ پندرہ مہینوں سے اس کام میں جُٹے ہوئے ہیں
مظہر علی کا کہنا ہے کہ مینے سوچا کہ خشک سالی سے مقابلہ کرنے کے لیے ایک ڈیم بناؤں، تاکہ یہ ایک مثال بن سکے اور حکومت اور عوام اس حوالے سے آگے آ کر اپنا کردار ادا کر سکیں
مظہر علی کا کہنا ہے کہ یہ کام میں مکمل طور پر اپنی مدد آپ کے تحت کر رہا ہوں، اس سلسلے میں مجھے کوئی کرایہ، پیسا یا تنخواہ نہیں دے رہا، لیکن میں بلوچستان کے کوہِ مردار کے پہاڑی سلسلے میں ایک ڈیم بنا رہا ہوں
انہوں نے بتایا کہ میں پچھلے پندرہ مہینوں سے اس پراجیکٹ پر کام کر رہا ہوں اور ہفتے میں ایک دو مرتبہ یہاں ضرور آتا ہوں
مظہر علی کہتے ہیں کہ مجھے یہ ڈیم بنانے کا خیال اس وقت آیا جب میں نے یہاں کے جانوروں کو مرتے اور جڑی بوٹیوں کو خشک ہوتے دیکھا، میں نے دیکھا کہ کوئی بھی ان کے لیے کام نہیں کر رہا
انہوں نے بتایا کہ میں شروع میں یہاں صرف جانوروں کے لیے دانہ اور پانی لاتا تھا، لیکن پھر میں نے سوچا کہ یہ کافی نہیں ہے، کیوں نہ یہاں ایک ڈیم بنایا جائے
مظہر علی کا کہنا ہے کہ یہ ڈیم کافی حد تک بن چکا ہے اور ان شاء الله جلد ہی یہ مکمل ہو جائے گا
ڈیم کے محلِ وقوع کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ ڈیم کوہِ مردار کے پہاڑی سلسلے میں بکو اور زیارت کے درمیان واقع ہے
انہوں نے بتایا کہ مجھے اس ڈیم کی تعمیر کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے، چھوٹے اور بڑے سائز کے پتھر اٹھانے پرتے ہیں، یہاں تک کہ اتنے بڑے پتھر بھی جو بھاری ہونے کی وجہ سے، مجھ سے ہل بھی نہیں پاتے، پھر میں انہیں توڑتا ہوں اور انہیں بند کے پاس لا کر ان کی مختلف تہیں بناتا ہوں
انہوں نے کہا کہ میں ہفتے میں ایک دو مرتبہ یہاں آتا ہوں اور صبح سے شام تک کام کرتا ہوں، جب گرمی زیادہ پڑتی ہے تو دوپہر کے بعد یہاں آ کر کام شروع کرتا ہوں
انہوں نے کہا کہ گھر سے ڈیم کی جگہ تک پہنچنے میں مجھے ڈیڑھ سے دو گھنٹے لگتے ہیں، کیونکہ میرے ساتھ کافی سامان اور پانی بھی ہوتا ہے جو میں درختوں، پرندوں اور اپنے لیے لاتا ہوں
انہوں نے کہا کہ میں اس کے ذریعے حکومت کی توجہ بھی اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ وہ کوئٹہ کی خشک سالی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس ضمن میں ہنگامی طور پر ماحول دوست اقدامات کرے، کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ شہر ویران ہو جائے گا
انہوں نے بتایا کہ یہاں مہینوں بارش نہیں ہوتی، ایسے میں جب بارش ہوتی ہے تو ڈیم بنا کر ہم اس پانی کو ذخیرہ کر سکتے ہیں
مظہر علی کا کہنا ہے کہ اس کام کے دوران مجھے زخم اور چوٹیں بھی آئیں، گر بھی چکا ہوں، لیکن اب میں اس کا عادی ہو چکا ہوں
انہوں نے کہا کہ میں فخر سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے یہ ڈیم اپنا خون پسینہ بہا کر بنایا ہے اور اب میں اس کام کو بڑھاتا رہوں گا
انہوں نے بتایا کہ یہ ڈیم لمبائی میں تقریباً چالیس فٹ ہے لیکن ہم اسے مزید لمبا بنانا چاہتے ہیں. چوڑائی میں یہ بارہ سے چوبیس فٹ ہے، جبکہ اونچائی ساڑھے سات فٹ ہے، جسے ہم بارہ فٹ تک لائیں گے
مظہر علی نے حکومت اور عوام سے اپیل کی کہ وہ ہمارے ساتھ ڈیم کی تعمیر میں تعاون کریں تاکہ اس شہر کو ویران ہونے سے بچایا جا سکے، خشک سالی سے بچنے کے لیے ہمیں ایسے مزید ڈیم بنانے کی ضرورت ہے
”میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر، لوگے آتے گئے کارواں بنتا گیا“ کے مصداق اگرچہ ابھی مظہر علی کا سفر کسی بڑے کارواں کی شکل تو اختیار نہیں کر سکا، لیکن چند لوگ ان کے ساتھ اس کام میں ضرور جُڑ گئے ہیں
اس حوالے سے مظہر علی نے بتایا کہ ڈیم بناتے وقت میں اکیلا تھا، لیکن اب ماشاءاللہ نوجوان آہستہ آہستہ آ رہے ہیں، ٹیکنیکل دوست بھی میرے ساتھ شامل ہو رہے ہیں جو اس فیلڈ میں گریجویشن کر چکے ہیں، یہ میرے لیے بہت خوشی کی بات ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ اس کام میں دلچسپی لے کر اس کو آگے بڑھائیں گے
ایسے ہی ایک نوجوان رضاکار محمد شعیب بھی ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ میں مظہر بھائی کو تیکنیکی مشورے دے رہا ہوں تاکہ مستقبل میں پانی رسنے جیسے مسائل پیدا نہ ہوں
انہوں نے کہا کہ یہ ”ارتھ فلڈ ڈیم” ہے یعنی میسر چیزوں سے بنایا گیا ڈیم. اس ڈیم کے پشتوں کی لمبائی تقریباً ساڑھے چھ فٹ ہے. اس حساب سے اس میں اتنی گنجائش ہے کہ تقریباً 860 میٹر کیوب پانی جمع کر سکے، لیکن ہمارا منصوبہ یہ ہے کہ ہم اس کے پشتوں کی لمبائی مزید بڑھائیں تاکہ اس میں پانی اسٹور کرنے کی گنجائش میں اضافہ ہو
ان کا کہنا تھا کہ ہماری زمین کا پانی ختم ہو رہا ہے، ہمیں اس طرح کے ڈیم چاہییں جو پانی ذخیرہ کر سکیں، تاکہ ساتھ ہی چٹانوں کے نیچے زیر زمین پانی کے ذخیرے بھی بحال ہو سکیں.
انہوں نے کہا کہ ان ڈیموں کی ضرورت صرف ہم انسانوں کو ہی نہیں بلکہ یہ حیاتیاتی تنوع کے لیے بھی ضروری ہیں
مظہر علی کا کہتے ہیں ”انسان اگر کام کرنا چاہے تو ویرانے بھی آباد کر سکتا ہے. ضروری نہیں کہ انسان نوکری کے پیچھے بھاگے، انسان خود بھی کام ڈھونڈ سکتا اور دوسروں کو کام دلوا سکتا ہے. مجھے اس کام سے بہت خوشی ملتی ہے، جو میرے لیے کافی ہے“