دُھوپ (ہندی افسانہ)

سدرشن پریہ درشنی (کینیڈا) ترجمہ: قیُوّم خالد (امریکہ)

”اب ہم ساتھ نہیں رہ سکتے“
ریکھا نہیں جانتی تھی کہ یہ الفاظ کیسے اپنے آپ آج نِکل گئے تھے، جو وِشال تک پہنچنے سے پہلے اُس کے ہاتھ میں پکڑے چائے کے کپ پر ٹہر گئے تھے اور چائے کی اُوپری سطح پر تیر رہے تھے۔ چائے کا کپ اور زِیادہ کانپنے لگا۔۔ شاید ان الفاظ کا بھاری پن سطح پر بیٹھ نہیں پا رہا تھا

دونوں کی نظریں یوں ملیں، جیسے خالی خول ہوں اور جن کا سب کچھ بہت پہلے ہی جھڑ چُکا ہو۔۔

وِشال کی آنکھیں اُس کی جانب اُٹھیں اور پھر جیسے زخمی پرندے کی طرح نیچے بیٹھ گئیں۔ صُبح صُبح اُس کی آواز میں جو غُصّہ ہوتا تھا، وہ وہیں کا وہیں جھاگ کی طر ح بیٹھ گیا تھا۔ اُسے لگا ہوگا کہ وہ شاید روز کچھ زیادہ ہی کہتا یا جھڑکتا رہا ہے

چائے کا کپ دِھیرے دِھیرے ہونٹوں کو چُھونے سے پہلے پہلے ہی تھرتھرا گیا تھا اور بِنا آواز کئے بیچ کی ٹیبل پر ڈھیر ہو گیا تھا

ایک گھمبیر سی خاموشی دونوں کے بیچ پسر گئی تھی۔ ریکھا جانتی تھی وہ زور زور سے بولے گا، گالیاں دے گا اور اُس کے سارے خاندان کی دہجّیاں اُدھیڑے گا۔۔ لیکن وِشال نے کُچھ بھی نہیں کیا۔ روز روز کی چخ چخ کا علمبردار آج بالکل چُپ سادھ گیا تھا۔

وہ اُٹھی اور پیٹیو (Patio) کا دروازہ کھول کر باہر گھاس پر چکر کاٹنے لگی۔ وِشال کی سُن پڑی آنکھیں، اُس کے ہاتھ میں تھمی ہُوئی کانپتی پیالی اُس کے ساتھ باہر چلی آئی تھی۔ وہ چاہتی تھی اِس وقت وہ اُس سے پوری طرح کٹ کر باہر کُھلی ہوا میں سانس لے سکے لیکن اُس کی سانس رُک رہی تھی۔ چائے کی پیالی ابھی بھی ڈگمگا رہی تھی۔

اسے خُود معلوم نہیں تھا کہ بِنا کِسی اِرادہ کے یہ الفاظ کیسے آج اچانک پِھسل کر باہر آ گئے تھے۔ پر وہ جانتی ہے کہ اُوپری تیّاری سے زیادہ کہیں اندُرونی تیّاری ہوتی ہے، جو اندر ہی اندر کہیں پکتی رہی تھی اور باہر خبر تک نہیں ہوتی۔۔ شاید یہ اسی کا نتیجہ تھا۔۔۔ اب اُسے اندر کی تیّاری کے ساتھ ساتھ باہر کی تیّاری بھی کرنی تھی۔

کچھ سال پہلے کے چھوٹُو کے الفاظ، ”آپ کو طلّاق لے لینا چاہیے ممّی“ پر ”ہٹ!“ کہہ کر کیسے اُس نے چھوٹُو کو جھنجھوڑدیا تھا ”خبردار! جو یہ لفظ کبھی بھول کر بھی زبان پر لایا۔“

شاید اُس دن سے کہیں اندر کی تیّاری کا بیج پڑ گیا تھا۔۔

آج کی صُبح پُوری طرح سے جاگ چُکی تھی۔ وہ پِچھواڑے کے جھٹپٹوں سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھی اور السائی السائی دِھیرے دِھیرے آگے بڑھ رہی تھی۔

ریکھا نے بیتی رات کو بہت پہلے ہی اپنے اُوپر سے اتار کر الگ کر دِیا تھا۔ وہ اکثر اُٹھتے ہی سب سے پہلے نائٹ سُوٹ اُتار کر رات کو اپنے سے پرے دھکیل دیتی تھی۔ آج بھی چائے بنانے سے پہلے، اُس نے یہی کیا تھا۔ پر لگا کہ رات تو وِشال کی پیالی سے ابھی تک چِپکی پڑی ہے اور سارے گھر کو بھی گھیرے ہوئے ہے۔

معلوم نہیں وِشال کیا کر رہا ہے۔۔ وہیں بیٹھا ہے یا اُٹھ گیا ہے۔۔۔ اُسے نہیں لگا کہ اُسے یہ جاننے کی کوئی ضرورت ہونی چاہیے کہ وہ کیا کر رہا ہے۔۔ جب ساتھ نہیں رہنا تو یہ جاننے کی خواہش بھی چھوڑنی پڑے گی۔۔ دو کٹے ہوئے حِصّوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ جانے کہ دوسرا حِصّہ کیا کر رہا ہے۔۔

جب سے وہ اِس گھر میں آئے ہیں، تبھی سے وہ وِشال سے کہتی رہی ہے کہ لان کے چاروں طرف لوہے کی ریلنگ لگوا دے، پرائیوسی رہتی ہے۔بچّے کھیلتے ہیں تو فِکر نہیں رہتی۔ اور خُود کو بھی کبھی کبھی پُرسکون لمحوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ آج اِس ریلنگ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔۔ پر وہ وہاں نہیں ہے۔۔ سامنے والا بے روک ٹوک آج اُس کے اندر تک جھانک سکتا ہے۔

بہت سی چیزیں ایسی ہیں، جنہیں زِندگی بھر کرنے یا پانے کا وہ سوچتی رہی ہے پر کبھی حاصل نہیں کر پائی۔ بِنا پائے بھی زِندگی تو کٹ جاتی ہے۔۔ بلکہ کٹ گئی ہے۔ جیسے دُوسروں کی اسکیموں پر بنے گھروں میں عُمر کٹ جاتی ہے۔ اپنی من پسند چوکھٹ کبھی ملِ ہی نہیں پاتی۔ اِس لئے دوسروں کے بنائے ہوئے سانچوں میں ڈھلے چلے جاتے ہیں اور اپنا ناپ تول بھی بُھول جاتے ہیں۔ اِس گھر میں کئی چیزیں ایسی تھیں، جو ریکھا کو شروع سے ہی پسند نہیں تھیں۔ جیسے گھر میں گُھستے ہی ڈرائنگ روم بالکل کُھلا مکمل طور پر بے نقاب، ننگا۔۔ آج ایسا کیوں لگتا ہے جیسے یہ سب کچھ منصوبہ بند تھا۔

وہ کہتی ”تم جانتے ہو کتنے آمریکن ہو گئے ہو؟“

”امریکہ میں رہنا ہے تو آمریکن ہونے میں کیا بُرائی ہے؟“

”امریکہ میں سب کُچھ اچھا نہیں ہے۔۔“

”ایسا بُرا بھی کچھ نہیں ہے۔“

دونوں میں اس موضُوع پر اکثر بحث ہوتی رہتی۔خُصوصاً وِشال بچوں پر اسکول سے پہلے اور اسکول کے بعد باہر کام کرنے پر زور دیتا۔ جب وہ کہیں ریسٹورینٹ میں دونوں جاتے اور وِشال ایک کی بجائے دو الگ الگ بِل منگواتا۔ وہ کہیں اندر سے ٹُوٹ جاتی اور اُس کے مُنہ کا مزہ کسیلا ہو جاتا۔ اُس کا من کرتا اُسی وقت وہاں سے اُٹھ کر چلی جائے۔ کبھی کبھی ریکھا میں احساسِ کمتری کا جذبہ ِان باتوں سے اِتنا گاڑھا ہو جاتا کہ وہ اپنے آپ کو کوستی کہ وہی احمق ہے، ابھی تک اپنے رِوایتوں کی جکڑ میں جکڑی ہے۔ زمانہ کے ساتھ بڑھ نہیں پا رہی ہے۔ اس کے اندر یہ نوچ کھسوٹ چلتی رہتی۔

پر اُسے لگتا ہے دِھیرے دِھیرے تار ٹوٹتے ہیں۔۔ دِھیرے دِھیرے ہی ٹوٹتے ہیں رِشتے۔۔۔ یہ لوہار کی ٹھوک سے نہیں سُنار کی ٹھک ٹھک سے ہی بنتے اور بگڑتے ہیں۔ بھان متی کا کنبہ، نہ ایک دِن میں بنتا ہے اور نہ ایک دِن میں ٹُوٹتا ہے۔

آج یہ فیصلہ جو اچانک ایک ٹھوس عزم بن کر نِکلا، کہیں اندر پل رہے اُسی جوالا مُکھی کا دھماکہ تھا۔ آج کسی ٹھوس زمین، بُنیاد یا سہارے کے بِنا بھی یہ عزم خُود ڈٹ کر اُس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔

اپنے لیے یا بچوں کی کبھی کبھار مدد کرنے کے لیے اُس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ اور وِشال سے کسی طرح کی کوئی اُمید رکھنا دِیوار سے سر پھوڑنے والی بات ہے۔ وہ تو اِتنا خُودغرض اور مطلبی ہو گیا ہے کہ گھر میں بنے چِکن کی بوٹیاں بھی پہلے اپنی پلیٹ میں بٹور لیتا ہے اور بچّے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ پر اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ سڑاپ سڑاپ بے شرمی سے کھاتا رہتا ہے۔

اُس کی اکلوتی میگزین، جو اُس نے یہاں آکر، اپنی تہذیب کو قائم رکھنے کے لیے چلا رکھی ہے، بِالکُل لنگڑی ہے۔ اُس کے زیادہ تر اِشتہارات بھی وِشال ہی لاتا ہے اور اُس کے پیسے باہر ہی باہر وصُول کر کے خرچ کر دیتا ہے۔ میگزین کی کمپیوٹر سیٹنگ، چھاپاخانہ، بائنڈنگ وغیرہ کے بِل، وہیں کے وہیں کھڑے رہتے ہیں۔ ہر بار جب نئے شُمارے کی تیاری ہوتی تو سبھی بِلوں کے لئے اُسے تنگ کرتے اور حِقارت اور شرمِندہ کرنے والی نظروں سے دیکھتے۔ وہ اپنے میں دِن بدِن اِتنی چھوٹی ہوتی جاتی۔ کافی جَھک جَھک کے بعد وِشال کچھ دیتا اور قِسطوں میں بِل دے کر گاڑی آگے بڑھتی۔ کئی کئی دِن وہ ایسی تکلیفیں اُٹھاتی اور راتوں کو سو نہیں پاتی۔

وِشال پر، اس سب کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اُس نے اب اپنے آپ میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ الگ ہو کر وہ اِس میگزین کو بند کر دے گی۔ اپنے آپ کو قرض میں اور نہیں ڈُبو سکتی۔۔۔۔ وہ پڑھی لِکھی ہے کہیں بھی چھوٹی موٹی نوکری کر کے اپنا پیٹ پال لے گی اور اُسے معلوم ہے، بچے بڑے چُست اور محنتی ہیں، اپنے بُوتے پر کھڑے ہو جائیں گے اور ہو رہے ہیں۔

یُوں تو میگزین کے ذریعہ سے وہ رِیاست کے گورنر اور دُوسرے بڑے عہدے والے لوگوں کو جانتی ہے۔ بڑے بڑے اخباروں کے رائٹروں اور اڈیٹروں کو پہچانتی ہے، پر ان سے نوکری نہیں مانگ سکتی۔۔۔۔ میگزین بند ہو گئی تو اپنے آپ شخصیت کا وہ ذاتی پہلُو ختم ہو جائے گا۔۔ اِس پہلُو نے آخر دیا بھی کیا ہے….!

گُھومتے گُھومتے وہ گھر کے پچھواڑے سے سامنے والے لان میں آ گئی ہے۔ آسمان جیسے رات بھر رویا ہے۔ سڑک دُھلی ہوئی گِیلی سی چُپ چاپ بِچھی ہے پِھر سے لتھڑنے کے لئے۔۔۔ کامیابی کے اپنے اُصول ہوتے ہیں، جنہیں کبھی تم ایک ساتھ چُھو کر کامیاب ہوتے ہو تو کبھی تنہا رہ کر۔۔ دودھار کی تلوار کی طرح کاٹتی ہے کامیابی۔۔

آنکھ میں کِرچیوں کی طرح چُبھتے ہیں وہ لمحے، وہ بیتے ہوئے دِن۔۔ سال۔۔ مہینے۔۔۔ جِن سالوں، مہینوں پر امریکہ آنے سے پہلے ریکھا نے ڈھیروں اُمنگوں کے محل بنائے تھے۔ اُن سب پر جیسے بجلی گِر گئی تھی۔ اُن سب ارمانوں کی جیسے کسی نے کھٹیا کھڑی کر دی تھی۔

سامنے والے گھر کی چِمنی کا دُھواں تھکا تھکا اُوپر اُٹھ رہا تھا۔ بیچ کی بُرجیوں سے آنکھ مچولی کھیلتی دُھوپ دُھوئیں کی اُڑان کو چک مک کر رہی تھی، پر چِمنی کی بُرجی کا دُھواں روشنی کو نِگلنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اُس کا من نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اندر جائے اور وِشال کا سامنا کرے۔ ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر مارنے کی اُس کو کوئی خواہِش نہیں تھی۔۔۔ اچھا تھا بچّے گھر پر نہیں تھے۔ وہ دِھیرے دِھیرے اپنا مُستقبِل طے کر رہے تھے کوئی کہیں، کوئی کہیں۔۔۔ ریکھا کو اِسی گھڑی کا اِنتظار تھا۔ پر دُہرا اِنتظار وِشال کے بدلنے اور نہ بدلنے کی اُمید کا تھا۔۔۔
ان چاہے سوالوں کی بے ترتیِبیاں اُس کے چاروں طرف پھیل گئی تھیں۔۔۔ ہاتھ کی لکیریں راستوں کے بدل جانے سے بدل جاتی ہونگی؟ سِتاروں کے کھیل کو نہ ماننے سے وہ اپنی تاثیر نہیں چھوڑ دیتے۔۔ پُورب سے پچھم میں آ گئے۔۔ اس پچھم کا اپنا پُورب اور اپنا پچھم۔ جنم پتریاں ہی الٹی ہو گئی تھیں۔۔۔

پھر بھی اندر تو جانا ہی تھا۔ وِشال کا ردِّعمل بھی جاننا ضروری تھا۔۔ وہ اس اِنتظار میں نہیں تھی کہ ِوِشال اُس کے سامنے گِڑگِڑائے گا یا معافی مانگے گا۔ ایسی کوئی خواہِش اُس کے من میں نہیں تھی۔ اِس وقت اُس کا فیصلہ اٹل تھا، مگر اس پر وِشال کی مُہر چاہیئے تھی۔۔۔ وہ اپنے وجُود کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھنا چاہتی تھی۔۔۔ اِتنے بڑے فیصلے کو کاغذی ناؤ کی طرح ڈولتے نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔

اندر آئی تو وِشال اُوپر غُسل خانے میں جا چُکا تھا۔ غُسل خانے کے باہر، اُس کے کپڑے تولیہ وغیرہ رکھے تھے، جو شاید پہلی بار اُس نے خُود رکھے تھے۔۔ وہ مُطمئن ہو کر نیچے اُتر آئی اور کارکی چابی لے کر لائبریری کے لیے نکل گئی۔ اُسے اُس کا جواب مِل گیا تھا۔۔۔ دُھوپ کُھل کر چھجھے کی طرح اُس کے ماتھے کو چُھو رہی تھی۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close