سیالکوٹ : سری لنکن منیجر کی بہیمانہ تشدد سے ہلاکت کے واقعے کی تفصیلات

نیوز ڈیسک

سیالکوٹ – پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں فیکٹری ملازمین کے بہیمانہ تشدد سے سری لنکن منیجر کی ہلاکت کے واقعے میں ملوث مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے پولیس کے چھاپے اور آپریشن رات بھر جاری رہا

پنجاب پولیس کے ترجمان کے بیان کے مطابق آر پی او گوجرانولہ کی سربراہی میں پولیس ٹیمیں ملزمان کی گرفتاری کے لیے پوری رات چھاپے مارتی رہیں اور آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان رات بھر آپریشن کی خود نگرانی کرتے رہے

ترجمان کا کہنا تھا کہ زیر حراست ملزمان سے تفتیش جاری ہے اور واقعے ملوث دیگر ملزمان کی نشاندہی میں مدد مل رہی ہیں

ان کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور وڈیوز کی مدد سے ملزمان کی شناخت اور تلاش کا عمل جاری ہے

ہوا کیا تھا؟

گزشتہ روز سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے مقامی فیکٹری کے منیجر پریانتھا کمارا پر ”توہین مذہب“ کا الزام عائد کرتے ہوئے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کیا اور ان کی لاش نذرِ آتش کردی تھی

سیالکوٹ پولیس کے سربراہ ارمغان گوندل نے غیرملکی خبر ایجنسی ’اے پی‘ کو بتایا کہ فیکٹری کے ملازمین نے مقتول پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے ”پوسٹر کی بے حرمتی“ کی جس پر پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا نام درج تھا

ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کیا ہے؟

پنجاب حکومت کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیکٹری مینیجر کے ڈسپلن اور کام لینے کی وجہ سے کچھ ملازمین فیکٹری مینیجر سے نالاں تھے۔ رپورٹ کے مطابق مشتعل ہجوم کی جانب سے سری لنکن شہری پر تشدد کا واقعہ صبح 11 بجے کے قریب شروع ہوا۔ واقعے کے وقت فیکٹری مالکان غائب ہو گئے تھے

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ غیر ملکی کمپنیوں کے وفد نے فیکٹری کا دورہ کرنا تھا۔ سری لنکن فیکٹری مینجر نے مشینوں کی مکمل صفائی کا حکم دیتے ہوئے مشینوں سے مذہبی اسٹیکرز اتارنے کا کہا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مبینہ طور پر جب فیکٹری ملازمین نے اسٹیکر نہیں ہٹایا تو مینیجر نے خود ہٹا دیا

اس رپورٹ کے مطابق مرکزی ملزمان سمیت اب تک 112ملزمان گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ جبکہ ایسے افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جنھوں نے ہجوم کو اشتعال دلایا تھا۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے مرکزی ملزمان ملزمان کو گرفتاری کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تاکہ مزید تحقیقات کی جا سکیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیکٹری مینیجرز کی معاونت سے واقعہ میں ملوث افراد کی شناخت کی گئی ہے

ملزمان کے خلاف دہشت گردی کے دفعات کے تحت مقدمہ درج
پولیس کی مدعیت میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت ملزم کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ پنجاب پولیس کے ترجمان نے دعویٰ کیا تھا کہ مرکزی ملزم کو مبینہ طور پر ویڈیو میں تشدد کرتے اور اشتعال دلاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ کہ انھوں نے 100 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے، ‘جن کے کردار کا تعین سی سی ٹی وی فوٹیج سے کیا جا رہا ہے۔‘

پولیس کا کہنا تھا کہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں

واقعے کی وڈیوز میں کیا ہے؟

سیالکوٹ واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر کئی وڈیوز شیئر کی گئی تھیں، جن کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ سیالکوٹ وزیر آباد روڈ کی ہیں۔ ان وڈیوز میں ایک شخص کی جلی ہوئی لاش کو دیکھا جاسکتا ہے اور کچھ وڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک شخص کو جلایا جا رہا ہے

واقعے کے عینی شاید محمد بشیر کے مطابق صبح ہی سے فیکٹری کے اندر یہ افواہیں گرم تھیں کہ پریا نتھا کمارا نے توہین مذہب کی ہے۔ ’یہ افواہ بہت تیزی سے پوری فیکٹری کے اندر پھیل گئی تھی، جس کے بعد فیکٹری ملازمین کی بڑی تعداد نے پہلے باہر نکل کر احتجاج کیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ احتجاج کے دوران ہی لوگ بڑی تعداد میں دوبارہ فیکٹری کے اندر داخل ہوئے اور پریا نتھا کمارا پر نہ صرف تشدد کیا بلکہ انھیں آگ بھی لگا دی

سامنے آنے والی سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق سری لنکن فیکٹری منیجر اپنی جان بچانے کے لیے چار منزلہ عمارت کی چھت پر بھاگا تھا

سری لنکن منیجر نے چھت کے اوپر لگے سولر پینلز کے پیچھے چھپنے کی کوشش بھی کی، مگر بیس سے پچیس مشتعل افراد نے اوپر آ کر اسے ڈھونڈ لیا

مشتعل افراد نے سری لنکن فیکٹری منیجر کو مارا، پیٹا، تیز دھار آلوں سے وار کر کے اس کا چہرہ مسخ کر دیا اور مارتے ہوئے نیچے لے گئے

سری لنکن فیکٹری منیجر کو عمارت کے اندر ہی قتل کردیا گیا، جس کے بعد مشتعل افراد اس کی لاش فیکٹری سے باہر لے آئے اور اسے جلا دیا

پوسٹ مارٹم رپورٹ

ذرائع کے مطابق پوسٹ مارٹم میں سری لنکن شہری پریانتھا کی لاش کا زیادہ تر حصہ جلا ہوا پایا گیا، آگ لگنے سے بچ جانے والے حصے کی ہڈیاں ٹوٹی پائی گئیں

ادھر وزارتِ داخلہ پنجاب نے اس واقعے کے حوالے سے سری لنکن سفارت خانے سے رابطہ کیا ہے۔ ہلاک ہونے والے سری لنکن شہری کی میت آج خصوصی پرواز کے ذریعے اسلام آباد بھجوائی جائے گی

نو سو افراد پر دہشتگردی کا مقدمہ درج

سیالکوٹ میں فیکٹری ملازمین کے تشدد سے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کی ہلاکت پر تھانہ اگوکی پولیس نے دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا جبکہ مرکزی ملزم فرحان ادریس کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔

نو سو افراد کے خلاف سب انسپکٹر کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق راجکو فیکٹری کے اندر 900 کے قریب افراد ڈنڈے سوٹے لئے موجود تھے ، تمام افراد سری لنکن شخص کی لاش کو سڑک پر گھسیٹ رہے تھے، نفری ناکافی ہونے کے باعث ہجوم کو نہ روکا جا سکا

ایف آئی آر کے مطابق ہجوم نے لاش سڑک پر رکھ کر آگ لگا دی ، ابتدائی تفتیش میں معلوم ہوا کہ ہجوم نے مذہبی توہین کے الزام میں سری لنکن شہری کو قتل کیا، ملزمان نے سری لنکن شہری کو قتل کر کے اس کی لاش کی بے حرمتی کی۔ پولیس نے مقدمہ درج کر کے مزید کارروائی شروع کر دی ہے

ترجمان پنجاب حکومت کیا کہتے ہیں؟

پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور کا سیالکوٹ میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے سے متعلق کہنا ہے کہ واقعے کی پولیس کو جب پہلی اطلاع ملی تو ہلاکت ہوچکی تھی

ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور نے کہا کہ جھگڑے کا آغاز 10 بج کر 2 منٹ پر ہوا، غیرملکی شہری کی ہلاکت 11 بج کر 5 منٹ پر ہوئی، مقامی پولیس نے فوری طور پر حکام کوآگاہ کیا تھا، راستے بلاک تھے پولیس کی کوتاہی ثابت نہیں ہوئی، ڈی پی او اور ایس اپی پیدل چل کر وہاں پہنچے، سیالکوٹ واقعے میں اگر کوئی کوتاہی ہوئی تو اس کا جائزہ لیں گے

حسان خاور نے کہا ہے کہ آر پی او اور ڈی پی او 24 گھنٹےچھاپوں کی نگرانی کر رہے ہیں، سیالکوٹ واقعے میں ملوث 118 گرفتار ملزمان میں 13 مرکزی ملزم شامل ہیں، واقعے سے متعلق 160 کیمروں کی فوٹیج لی گئی ہیں، گرفتاریوں کے لیے 10 ٹیمیں بنائی گئی ہیں، سیالکوٹ واقعے کے مقدمہ میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں

انہوں نے مزید کہا کہ سیالکوٹ واقعے سے متعلق مزید معلومات بھی فراہم کی جائیں گی، تفتیش میں طے کریں گے کس ملزم کا کیا رول تھا، سارے ملزم تو قاتل نہیں ہر ملزم کا کردار طےکیا جائے گا

حسان خاور کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات ہمارے لیے اور ہمارے ملک کے لیے شرمندگی ہے، ہلاک ہونے والے سری لنکن شہری کی فیملی یہاں نہیں تھی، وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب خود کیس کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں، پوسٹ مارٹم ہوچکا ہے، وزارت داخلہ سری لنکن ایمبیسی کو میت دے گی، کسی شخص سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی

انہوں نے مزید کہا کہ موبائل فونز کا ڈیٹا حاصل کیا جا،رہا ہے، سرکاری اہلکاروں کی غفلت ثابت ہوئی تو باقاعدہ کارروائی ہوگی

ترجمان پنجاب حکومت نے کہا کہ ابھی تک جتنی تحقیقات ہوئیں سب بتائی جا چکی، سیالکوٹ واقعے سے متعلق مزید معلومات بھی فراہم کی جائیں گی، اب تک جو کچھ کیا ہے اس کی تفصیلات شیئر کر رہے ہیں

پنجاب کے وزیر قانون واقعے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

صوبہ پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کا کہنا ہے کہ سیالکوٹ واقعے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیش کر دی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سیالکوٹ واقعہ کی تحقیقات کے لیے فوج کے خفیہ اداروں کے اہلکار پہلے ہی سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت کر رہے ہیں

انھوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے علاوہ ملٹری انٹیلیجنس اور سویلین خفیہ ادارے انٹیلیجنس بیورو کے اہلکار بھی تفتیشی ٹیم کا حصہ ہیں

انھوں نے کہا کہ اس واقعے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اب تک ایک سو سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو احتجاج میں شامل تھے جبکہ کچھ ایسے افراد بھی حراست میں لیے گیے ہیں جو کہ موقع پر موجود تھے

سیالکوٹ پولیس کے ایک اہلکار کے مطابق جن افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان میں سے ایک درجن کے قریب وہ افراد بھی شامل ہیں، جنھیں کچھ عرصہ قبل تحریک لبیک کے احتجاجی دھرنے سے پہلے خدشہ نقص امن کے تحت حراست میں لیا گیا تھا

صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ زیر حراست افراد کے ابتدائی بیانات کی روشنی میں ان افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں، جنہوں نے ہجوم کو سری لنکا کے شہری کو تشدد کرنے پر آمادہ کیا

انھوں نے کہا کہ حراست میں لیے جانے والے افراد کے بیانات قلمبند کیے جا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے بیانات کی روشنی میں ان سے پوچھ گچھ بھی کی جا رہی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں مقامی پولیس کی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں برتی گئی اور اطلاع ملنے کے بیس منٹ کے بعد پولیس حکام جائے حادثہ پر پہنچ گئے تھے۔

ایک سوال کے جواب میں راجہ بشارت کا کہنا تھا کہ تشدد سے ہلاک ہونے والے سری لنکا کے شہری کی لاش ان کے وطن بھجوانے کے لیے وفاقی وزارت داخلہ سے رابطہ کیا گیا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق وزارت داخلہ کے حکام نے وزارت خارجہ سے رابطہ کیا ہے اور انھیں اس ضمن میں سری لنکا کے ہائی کمیشن سے رابطہ رکھنے اور ان سے مقتول کی لاش کو سری لنکا بھیجنے کے بارے میں بات چیت کرنے کے بارے میں کہا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعہ کے محرکات میں توہین مذہب کے ساتھ انتظامی پہلوؤں کا جائزہ بھی لیا جا رہا ہے۔

صوبائی وزیر قانون کے مطابق سیالکوٹ اور گردونواح میں گرجا گھروں اور غیر ملکی فیکٹری ورکرز کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔

دوسری جانب لاہور میں آئی جی پنجاب کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان پنجاب حکومت نے بتایا کہ سیالکوٹ واقعے میں ملوث 118 گرفتار ملزمان میں 13 مرکزی ملزم شامل ہیں۔ ان تمام مرکزی ملزمان کی شناخت ہو چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعے سے متعلق 160 کیمروں کی فوٹیج لی گئی ہے اور گرفتاریوں کے لیے 10 ٹییمیں تشکیل دی گئی ہیں جبکہ واقعے کے مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات شامل ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ متعلقہ آر پی او اور ڈی پی او 24 گھنٹے چھاپوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔

پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور نے کہا کہ سیالکوٹ واقعے میں ملوث تمام مرکزی ملزمان گرفتار ہیں اور ان کی شناخت بھی ہو چکی ہے جب کہ آئی پنجاب نے پولیس کی کوتاہی کا امکان خارج کر دیا ہے

ریسکیو اہلکار مقتول کو بچانے میں ناکام کیوں ہوئے؟

ریسیکو 1122 کے ایک اہلکار نے بتایا کہ انھیں تقریباً 11:35 منٹ پر وزیر روڈ پر ہنگامہ آرائی کی کال موصول ہوئی تھی، جس کے چند ہی منٹ بعد ٹیم موقع پر پہنچ چکی تھی

وہ کہتے ہیں کہ جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت تک پولیس کی نفری کم تھی، جبکہ مقتول کو فیکٹری کے اندر تشدد کا نشانہ بنایا گیا

امدادی اہلکار کے مطابق ‘ہم لوگ وردی میں تھے۔ لوگ مشتعل تھے۔ ہمارے لیے ممکن نہیں تھا کہ ہم متاثرہ شخص کو کسی بھی طرح کوئی مدد فراہم کرسکیں اور نہ ہی یہ ممکن تھا کہ کوئی مداخلت کریں

اس دوران وہ لوگ متاثرہ شخص کو تشدد کرتے ہوئے روڈ پر لے آئے تھے

امدادی کارکن کے مطابق جب متاثرہ شخص کو روڈ پر لایا گیا تو اس وقت تک وہ ہلاک ہوچکا تھا

مشتعل لوگوں نے اس شخص کو روڈ پر لا کر نذر آتش کیا اور نعرے بازی کرتے رہے۔ اس دوران پولیس نے مداخلت کرنے کی کوشش کی، مگر پولیس کی نفری بہت کم تھی جبکہ مشتعل عوام بہت بڑی تعداد میں تھے

امدادی کارکن کے مطابق تقریباً ساڑھے بارہ بجے کے قریب ہم لوگ جلی ہوئی لاش کو ہسپتال پہنچانے میں کامیاب ہوئے

موقعے کے ایک اور عینی گواہ کے مطابق فیکٹری ملازمین کا احتجاج بہت دیر تک جاری رہا تھا اور اس احتجاج میں اردگرد کے علاقوں کے لوگ بھی بڑی تعداد میں شامل ہو گئے

عینی گواہ کے مطابق احتجاج میں کئی لوگوں نے اشتعال انگیز تقاریر کیں تھیں۔ اس دوران مظاہرین میں سے کسی نے کہا کہ چلو خود قصہ صاف کرتے ہیں تو اس کے بعد ڈنڈوں، لاٹھیوں اور اسلحہ سے لیس لوگ فیکٹری کے اندر داخل ہو گئے تھے

سیالکوٹ سے مقامی صحافی یاسر رضا کے مطابق فیکٹری کے اندر صبح ہی سے یہ افواہیں گرم تھیں کہ توہین مذہب کی گئی ہے، جس کے بعد نہ صرف فیکٹری کے اندر سے حالات کشیدہ ہونے کی اطلاعات آرہی تھیں بلکہ ارد گرد کے علاقے کے لوگ بھی مشتعل تھے

یاسر رضا کے مطابق جمعے کی دوپہر گیارہ، بارہ بجے کے قریب وزیر آباد روڈ پر بڑے احتجاج کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں. اس کے ساتھ ہی ایسی اطلاعات ملنا شروع ہوئیں کہ فیکٹری کے غیر ملکی مینیجر کو جلا دیا گیا ہے۔ اس واقعے کی تصدیق ہمیں وہاں کے مقامی لوگوں کے علاوہ فیکٹری ملازمین نے بھی کی

یاسر رضا کے مطابق ہنگامہ آرائی اور کشیدہ حالات کی اطلاعات صبح سے تھیں مگر موقع پر مناسب حفاظتی اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ اسی طرح جوں جوں وقت گزرا مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔ مگر اس وقت بھی صورتحال کو سنبھالا نہیں گیا

سری لنکن منیجر نے غلط فہمی کا اظہار کر کے معذرت بھی کی

سیالکوٹ واقعے کی پولیس کی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مشتعل افراد کے ہاتھوں مارے جانے والے سری لنکن منیجر نے غلط فہمی کا اظہار کر کے معذرت بھی کی تھی

پولیس کی تحقیقات میں کہا گیا ہے کہ گارمنٹ فیکٹری میں 13 سیکیورٹی گارڈز تعینات تھے مگر جب فیکٹری ملازمین نے منیجر کو مارنا شروع کیا تو کوئی سامنے نہیں آیا

پولیس تحقیقات کے مطابق سری لنکن شہری نے صبح 10 بج کر 28 منٹ پر دیوار پر لگے پوسٹر اتارے، جس کے بعد سری لنکن منیجر اور ملازمین کے درمیان فیکٹری مالک نے تنازع طے کرایا

پولیس تحقیقات میں بتایا گیا ہے کہ سری لنکن منیجر نے غلط فہمی کا اظہار کرکے معذرت کی لیکن معاملہ ختم ہونے کے بعد فیکٹری ملازمین نے ایک بار پھر اسے ہوا دی

پولیس ذرائع کے مطابق سری لنکن منیجر کو فیکٹری کے اندر ہی قتل کیا گیا اور اس کی لاش کو گھسیٹ کر فیکٹری کے باہر لایا گیا

وزیر اعظم کا ردعمل

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے سیالکوٹ میں سری لنکن شہری کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ‘پاکستان کے لیے ایک شرمناک دن’ قرار دیا تھا۔

ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہا کہ ‘سیالکوٹ میں مشتعل گروہ کا ایک کارخانے پر گھناؤنا حملہ اور سری لنکن مینیجر کا زندہ جلایا جانا پاکستان کے لیے ایک شرمناک دن ہے۔ میں خود تحقیقات کی نگرانی کر رہا ہوں اور دوٹوک انداز میں واضح کر دوں کہ ذمہ داروں کو کڑی سزائیں دی جائیں گی۔ گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے

پنجاب حکومت کا ردعمل

وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر قتل کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اسے ’انتہائی افسوس ناک واقعہ‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ‘آئی جی پنجاب کو واقعے کی تفتیش کی ہدایت کی ہے، کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی، یقین دلاتا ہوں کہ واقعے میں جو بھی اس غیرانسانی واقعے میں ملوث ہیں وہ نہیں بچیں گے

سیالکوٹ میں واقعے کے چند گھنٹے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کے معاون خصوصی حسان اور آئی جی پنجاب راؤ سردار علی خان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی امور حافظ طاہر محمود اشرفی نے علما کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کی

انہوں نے کہا کہ اس وحشت پر پاکستانی قوم، پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے علما، مشائخ اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کی طرف سے مذمت کرتا ہوں

بعد ازاں پنجاب پولیس نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ ‘سیالکوٹ واقعے میں پولیس نے تشدد کرنے اور اشتعال انگیزی میں ملوث ملزمان میں سے ایک مرکزی ملزم فرحان ادریس کو گرفتار کر لیا ہے’۔

پولیس نے کہا کہ ‘100 سے زائد افراد کو حراست میں لےلیا گیا ہے، آئی جی پنجاب سارے معاملہ کی خود نگرانی کر رہے ہیں، دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں

سری لنکن وزیر اعظم کا ردعمل

سری لنکا کے وزیر اعظم مہندا راجا پکشے نے پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں ایک سری لنکن شہری کو توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کی جانب سے تشدد کے بعد قتل کیے جانے کے واقعے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’انھیں یقین ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے اس واقعے میں ملوث تمام ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔‘

سری لنکا کے وزیر اعظم نے ٹوئٹر پر اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’پاکستان میں شدت پسند مشتعل ہجوم کی جانب سے پریا نتھا دیاودھنہ پر بہیمانہ اور جان لیوا حملے پر صدمہ پہنچا۔ متاثرہ شخص کی اہلیہ اور خاندان کے غم میں شریک ہوں۔ سری لنکا اور اس کی عوام کو یقین ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے واقعے میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔‘

سری لنکن وزارت خارجہ کا بیان

دوسری جانب سری لنکا کی وزارت خارجہ نے بیان میں کہا کہ انہیں پاکستانی حکام سے توقع ہے کہ وہ تفتیش اور انصاف کو یقینی بنانے کے لیے مطلوبہ کارروائی کریں گے

سری لنکا کے میڈیا کے ادارے نیوز فرسٹ نے وزارت خارجہ کے ترجمان سوگیشوارا گونارتنا کے حوالے سے کہا کہ اسلام آباد میں سری لنکا کے ہائی کمیشن واقعے کی تفصیلات کی تصدیق کے لیے پاکستانی حکام سے رابطے میں ہے

چیف آف آرمی سٹاف کا ردعمل

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ سیالکوٹ میں ہجوم کی جانب سے بےگناہ قتل قابل مذمت اور شرم ناک ہے، اس طرح کا ماورائے قانون قتل کسی قیمت معاف نہیں کیا جاسکتا ہے۔

آئی ایس پی آر کےمطابق آرمی چیف نے اس وحشت ناک واقعے کے ملزمان کی گرفتاری کے لیے سول انتظامیہ کی ہر ممکن مدد کرنے کی ہدایت کردی

ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کا رد عمل

ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان (ایچ آرسی پی) کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ سیالکوٹ واقعے کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

گزشتہ روز سیالکوٹ میں پیش آنے والے واقعے کی ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کی جانب سے جاری کیئے گئے بیان میں شدید مذمت کی گئی ہے۔

اعلامیئے میں ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان نے کہا ہے کہ سیالکوٹ میں ہجوم نے بے بنیاد الزامات پر ناقابلِ تصور بربریت کا مظاہرہ کیا

ایچ آرسی پی کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں بنیاد پرستی انتہائی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، سیالکوٹ واقعے کی فوری اور شفاف تحقیقات کی جائیں

ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ افسوس کےساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ریاست کا ردِ عمل بزدلانہ رہا ہے، ریاست کو انتہائی دائیں بازو کے ساتھ ساز باز کا سلسلہ بند کرنا ہو گا

واضح رہے کہ گزشتہ روز سیالکوٹ میں توہینِ مذہب کے الزام میں سیکڑوں افراد نے ایک فیکٹری کے سری لنکن منیجر کو تشدد کر کے قتل کر دیا تھا اور لاش جلا دی تھی

مولانا تقی عثمانی کا رد عمل

واقعے پر مولانا تقی عثمانی نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ توہين رسالت انتہائی سنگین جرم ہے لیکن ملزم سے اس کے ارتکاب کے ثبوت بھی اتنے ہی مضبوط ہونے ضروری ہیں، کسی پر یہ سنگین الزام لگا کر خود ہی اسے وحشیانہ اور حرام طریقے سے سزا دینے کا کوئی جواز نہیں، سیالکوٹ کے واقعے نے مسلمانوں کی بھونڈی تصویر دکھا کر ملک وملت کو بدنام کیا ہے

مولانا تقی عثمانی کا کہنا ہے کہ ملک میں بدامنی کی فضا بہت تشویشناک ہے، حکومت طاقت کے استعمال کے بجائے تدبر سے کام لیتے ہوئے معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کرے، احتجاج کرنے والے تشدد اور قومی املاک کو نقصان پہنچانے کے بجائے پرامن راستے اختیار کریں، فریقین پر لازم ہے کہ گستاخوں کے بجائے اپنا گھر تباہ کرنے سے پرہیز کریں

مفتی منیب الرحمان کا ردعمل

مفتی منیب الرحمان نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایک آئینی و قانونی نظام موجود ہے، اگرچہ اس کی شفافیت اور غیر جانبداری پر سوالات اٹھتے رہتے ہیں، لیکن اس
کے ہوتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لینے کا کوئی جواز نہیں، کیونکہ اس سے معاشرے میں انارکی اور لاقانونیت پھیلتی ہے جو ملکی مفاد میں نہیں

انہوں نے کہا کہ سیالکوٹ واقعہ ملک وملت کے مفاد میں نہیں اور اس سےعالمی سطح پر پاکستان کا تاثر منفی گیا، جبکہ پاکستان پر پہلے ہی ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹک رہی ہے

مفتی منیب الرحمان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس سانحے کے حقائق اور واقعات کا علم نہیں ہے، تاہم سانحہ سیالکوٹ پر تاسف کا اظہار اور شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا پر بھی ذمہ داری ہے تحقیقی کے بغیر کسی گروہ یا فرد کو ذمہ دار قرار نہ دیں

سوشل میڈیا پر ردعمل

سیالکوٹ میں پیش آنے والے وحشت ناک اور بے رحم واقعے نے سوشل میڈیا صارفین کو عبدالولی خان یونیورسٹی مردان کے طالب علم مشال خان کے قتل کی یاد دلا دی

گزشتہ روز صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں ایک نجی فیکٹری کے ورکرز کی طرف سے توہینِ مذہب کے نام پر اپنی ہی فیکٹری کے سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا کو بے رحمی سے قتل کر کے لاش کو جلا دینے کے افسوس ناک واقعے کے بعد سے سوشل میڈیا پر سفاک مجرمان کے خلاف شدید ردِ عمل دیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی پاکستانی عوام 2017ء میں قتل ہونے والے طالب علم مشال خان کے واقعے کو بھی یاد کر رہے ہیں

مائیکرو بلاگنگ سائٹ ٹوئٹر پر اس وقت ہیش ٹیگ ’مشال خان‘ ٹاپ ٹرینڈ ہے جہاں صارفین اس ہیش ٹیگ کو استعمال کرتے ہوئے اپنا ردِ عمل دے رہے ہیں

ایک صارف نے کہا کہ ’انتہا پسندی کی پرورش نے آپ کا سماجی ڈھانچہ تباہ کر دیا ہے، سری لنکا کے منیجر کا قتل کوئی چونکا دینے والا واقعہ نہیں ہے کیونکہ یہ اس سے پہلے بھی کئی بار ہوا ہے۔‘

صارف نے طالب علم مشال خان کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’مشال خان کے قاتل ابھی تک آزاد ہیں۔‘

ایک صارف نے کہا کہ ’ہم مذہب، فرقہ واریت، غیرت کے نام پر قتل، طبقاتی شعور کے قتل کے بارے میں بات کرتے ہیں، ہم انسانیت کی بات کب کریں گے؟‘

صارف نے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’براہِ کرم پہلے انسان بنو پھر جو چاہو، یہ معاشرہ کتنے مشال خان کو مارے گا؟‘

جعفر خان نامی صارف نے کہا کہ ’جب ریاست مذہبی جنونیوں کے سامنے بے بس ہو اور مذہب کو سیاسی اور ذاتی معاملات طے کرنے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا جائے تو ایسی بربریت آسانی سے ہو جاتی ہے۔‘

صارف نے کہا کہ ’کل مشال خان کا شکار ہوا، آج سری لنکن منیجر کا اور کل کوئی ہم میں سے بھی ہو سکتا ہے۔‘

کشف نامی صارف نے کہا کہ ’چار سال پہلے مشال خان تھا، آج سری لنکا کا آدمی تھا اور کل یہ ہم میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے، یہ ہجوم اور یہ ذہنیت کسی کو نہیں بخشے گی، یہ صرف آغاز ہے۔‘

واضح رہے کہ 2017ء میں 13 اپریل کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو طلباء کے مشتعل ہجوم نے توہین رسالت کا الزام لگا کر تشدد کر کے قتل کر دیا تھا۔

کیس کی تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا، جس میں یونیورسٹی ملازمین بھی ملوث تھے، مشال اور اس کے ساتھیوں کے خلاف توہین رسالت یا مذہب کے شواہد نہیں ملے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close