ماحولیاتی تبدیلیاں اور پاکستان میں غذائی بحران کے منڈلاتے سائے

ویب ڈیسک

پاکستان میں بڑھتی ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ نچلے اور متوسط طبقے کا ذریعہ معاش متاثر ہو رہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر مناسب اقدامات نہیں کیے گئے تو اگلے برسوں میں ماحولیاتی پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا

واضح رہے کہ پاکستان کا شمار جنوبی ایشیاء کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جو ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد پر ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیاء میں تقریبا اَسی کروڑ افراد ماحولیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ دیہی علاقوں میں زیادہ تر افراد کا ذریعہ روزگار، زراعت، گلا بانی، ماہی گیری، یا جنگلات کی کٹائی سے وابستہ ہے۔ یہ تمام پیشے ماحول اور ایکو سسٹم میں بڑی تبدیلیوں کی وجہ سے آخری سانسیں لے رہے ہیں

بڑے پیمانے پر متاثر ہونے والے علاقوں سے مقامی افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہیں اور خدشہ ہے کہ 2050ع تک جنوبی ایشیاء میں ماحولیاتی پناہ گزینوں کی تعداد چار کروڑ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ جبکہ اس دوران خطے کا سالانہ خسارہ ایک سو ساٹھ ارب ڈالر تک جا سکتا ہے

ماحولیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہونے والے پیشے کون سے ہیں؟

انور بلوچ ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان کا تعلق سندھ کی ساحلی پٹی پر واقع مبارک گوٹھ سے ہے

انور بلوچ کا کہنا ہے کہ ایک برس پہلے تک وہ اور ان کے ساتھی مچھیرے ہر روز اتنا شکار کر لیتے تھے، جسے مارکیٹ میں فروخت کر کے ایک دن کے اخراجات با آسانی پورے ہو جاتے تھے۔ لیکن اب وہ ایک ہفتے میں بھی اتنی مچھلیاں نہیں پکڑ پاتے

یہ بھی پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے متاثرہ کراچی کی ساحلی پٹی (شیما صدیقی)

ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے سمندری درجۂ حرارت، سمندری آلودگی اور مونگے کی چٹانوں کو سفیدی لگنے سے پاکستان کے ساحلوں پر مچھلیوں کی افزائش مناسب طور پر نہیں ہو پا رہی، جس سے ماہی گیروں کے ذریعۂ روزگار پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں

انور بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان کے کچھ پڑھے لکھے افراد ماہی گیری ترک کر کے ساحلی علاقوں میں آنے والے سیاحوں کی گائیڈنگ اور کیٹرنگ کا کام شروع کر چکے ہیں ۔مگر سیاحوں کی غیر ذمہ داری کے باعث بلوچستان اور سندھ کے ساحلوں پر آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ ساحلوں پر اسکوبا ڈائیونگ اور دیگر آبی کھیلوں کی سرگرمیاں بڑھنے سے مونگے کی چٹانوں کو سخت نقصان پہنچ رہا تھا

انور کا کہنا ہے ”اس کے بعد پاکستان نیوی نے چرنا، استولا اور کئی دیگر جزائر پر ایسی ٹورسٹ سرگرمیاں محدود کر دی ہیں، جن سے ہمارا روزگار جڑا ہوا تھا۔“

واضح رہے کہ سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں چار لاکھ سے زائد افراد ماہی گیری اور سیاحت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کو کل جی ڈی پی کا تقریباً 4 فیصد ان دو پیشوں سے حاصل ہوتا ہے

کیا ماحولیاتی تبدیلیاں خوراک کے بحران کو جنم دے رہی ہیں؟

کسی زمانے میں سندھ کے ڈیلٹائی علاقے میں سترہ نہریں بہتی تھیں، جن کے ذریعے تقریباً ڈیڑھ سو ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں جاتا تھا۔ ماہرین کے مطابق بارشوں کی کمی کے باعث کوٹری سے نیچے دریائے سندھ کا بہاؤ اب نہ ہونے کے برابر ہے، جس سے ہر برس لاکھوں ایکڑ زمین سمندر برد ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں سب سے زیادہ نقل مکانی اسی سمندری پٹی سے ہوئی ہے

اسی علاقے کے ایک رہائشی رحیم بخش بتاتے ہیں ”کسی دور میں یہ سارا علاقہ نہ صرف انتہائی زرخیز تھا بلکہ ساحلی علاقوں میں مچھلی کی اتنی فراوانی تھی کہ مقامی افراد کو کھیتی باڑی نہیں کرنی پڑتی تھی، لیکن 1999ع میں آنے والے سائیکلون اے ٹو نے اس پوری ساحلی پٹی کو برباد کر ڈالا۔ رہی سہی کسر سمندر کے آگے بڑھنے اور میٹھے پانی کی کمی نے پوری کر دی۔ یہاں سے ایسے زیادہ تر افراد جن کا ذریعۂ روزگار زراعت تھا، ہجرت کر چکے ہیں۔“

رحیم بخش کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کے جو افراد ابھی تک ڈیلٹائی علاقے میں مقیم ہیں، وہ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلیوں، بارشوں، غذائی قلت اور بے روزگاری کے باعث جلد ہی یہ علاقے چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے

اس حوالے سے انوائرمینٹل اکنامسٹ ڈاکٹر پرویز عامر کہتے ہیں ”پاکستان کی معیشت کا انحصار زراعت اور صنعت و حرفت پر ہے۔ مگر دیکھا جائے تو اکثر صنعتوں کو خام مال بھی زراعت سے ہی ملتا ہے۔ لہٰذا ماحولیاتی تبدیلیوں سے صنعتیں بھی متاثر ہو رہی ہیں‘‘

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے بحران سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہئے؟

کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی معاشی پالیسی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ کسی بھی طرح ملک کے جی ڈی پی میں اضافہ کیا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں ایسی پالیسیاں بناتے وقت ماحولیات اور دیگر ضروری عوامل کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے.


یہ بھی پڑھیں: 

موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں پاکستان کا پانچواں نمبر، خوراک کے بحران کا خدشہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close