گوادر، ٹرالر، ماہی گیر
امام بلوچ گذشتہ گیارہ بارہ سالوں سے ماہی گیری کا کام کر رہے ہیں۔ اس عرصے میں کام تو وہی ہے لیکن ان کا شکار تبدیل ہو گیا ہے اور اب وہ مچھلی کے بجائے کیکڑے پکڑتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مچھلی تو ٹرالر والوں نے ختم کر دی ہے اس لیے اب وہ کیکڑے پکڑ رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ فی دانہ 70 روپے میں فروخت کرتے ہیں اور دن میں چار سے پانچ سو روپے کما لیتے ہیں۔
مچھلی میں کمی کی یہ شکایت صرف بلوچستان کے علاقے پسنی کے اس نوجوان کی نہیں بلکہ سندھ اور بلوچستان کے ہزاروں چھوٹے ماہی گیروں کی ہے۔
70 سالہ رسول بخش کا تعلق گودار سے ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دس پندرہ سال قبل تک چار پانچ گھنٹے کے سفر میں با آسانی 100 کلو تک مچھلی مل جاتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔
ان کی دو چھوٹی کشتیاں ہیں جن پر ان کے بیٹے شکار پر جاتے ہیں لیکن ڈیزل کا خرچہ بھی مشکل سے نکل رہا ہے۔ وہ بھی مچھلی کی اس کمی کا ذمہ دار اُن ٹرالرز کو قرار دیتے ہیں جو ’گجو نیٹ استعمال کر رہے ہیں جس سے سمندر میں قحط پید ہو گیا ہے۔‘
’ہمارے گھر کے دو لڑکے ماہی گیری سے وابستہ ہیں۔ وہ پڑھے لکھے ہیں لیکن اور کوئی روزگار نہیں ہے، ہم اسی لیے تو روتے ہیں کہ سمندر ہوگا تو ہمارا روزگار رہے گا۔‘
ٹرالنگ کیا ہے؟
فشنگ ٹرالر مچھلی کا شکار کرنے والے بحری جہاز ہوتے ہیں جن میں جال پھینکنے اور کھینچنے کے لیے مشینری کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک مخصوص قسم کا بڑا جال ہوتا ہے اور یہ جہاز طاقتور انجن کی وجہ سے دور تک سفر کر سکتے ہیں۔
ان جہازوں میں مچھلی رکھنے کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے اور اس کو کئی روز کے لیے فریز بھی کر سکتے ہیں۔ یہ جہاز سمندر میں 15 سے 20 روز تک رہ سکتے ہیں۔
ماحول کے بقا کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے معاون معظم خان کا کہنا ہے کہ ٹرالنگ کے آلات سمندر کی تہہ کو تباہ کر دیتے ہیں۔ ’جب یہ چلتے ہیں تو سمندر میں جھاڑو پھیر دیتے ہیں اور سطح کو ہل کی طرح کھود دیتے ہیں جس سے آبی حیات کو نقصان پہنچتا ہے۔‘
’سمندر کی زیر سطح جو کچھ بھی ہوتا ہے اس میں چاہے چھوٹی مچھلیاں ہوں، کیڑے مکوڑے ہوں، آبی پودے اور کورال ہوں سب اس جال میں آ جاتے ہیں۔‘
پاکستان فشر فوک فورم کے رہنما سعید بلوچ کہتے ہیں ان ٹرالروں میں گجا جال استعمال کیا جاتا ہے جو پونچھ کی طرح ہوتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ٹرالر چلتا رہتا ہے اور عملہ جال پھینکتا اور اس کو کھینچتا رہتا ہے۔ اس جال کے سوراخ بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور وزن پڑ جانے سے مزید چھوٹے بن جاتے ہیں۔ اس جال میں مچھلی اور جھینگے کے ساتھ وہ چھوٹی مچھلیوں، مچھلیوں کے انڈوں اور ان کی آماجگاہوں تک سب کو کھینچ لیتے ہیں جو مچھلی کی نسل کشی کا باعث بن سکتی ہے۔
چھوٹے ماہی گیر بمقابلہ ٹرالر
اقوام متحدہ کے ادارے خوراک و زراعت کے مطابق پاکستان میں جو کشتیاں استعمال ہوتی ہیں ان میں زیادہ تر لکڑی سے بنی ہوئی ہیں جن کی رجسٹرڈ تعداد 19 ہزار ہے۔
ان میں سے 1400 کشتیاں سندھ میں رجسٹرڈ ہیں جبکہ 5000 بلوچستان میں ہیں۔ ایکسکلوزیو اکنامک زون کہلانے والے سمندر کے زون تھری میں 30 ٹرالرز کو وفاقی حکومت نے اجازت دی ہوئی ہے۔ یہ ٹرالرز 35 کلومیٹر دور ماہی گیری کرتے ہیں۔
پاکستان میں ماہی گیروں کی تنظیم فشر فوک فورم کے رہنما سعید بلوچ کا کہنا ہے کہ سندھ کا سمندر تباہ ہو چکا ہے اور اب ان ٹرالرز کی یلغار بلوچستان کی طرف ہے کیونکہ وہاں زیادہ تر ماہی گیر چھوٹے پیمانے پر شکار کرتے ہیں۔
کئی مچھلیاں نایاب ہوگئیں
سندھ کے ماہی گیر کئی ایسی مچھلیوں کے اقسام کا ذکر کرتے ہیں جو نایاب ہو چکی ہیں جبکہ اب بلوچستان سے بھی یہ شکایات آ رہی ہیں جس کی وجہ وہ ٹرالنگ اور بے جا مچھلی کے شکار کو قرار دیتے ہیں۔
گوادر کے ماہی گیر رسول بخش کے مطابق کئی ایسی مچھلیاں ہیں جو اب نایاب ہوتی جا رہی ہیں یا وہ مقامی پانیوں میں سے ایران کے پانیوں کی طرف چلی گئی ہیں جیسے شیر مچھلی، پشک، بلی اور کگھا مچھلی اب نظر ہی نہیں آتی۔
ماہی گیر اکبر کا کہنا ہے کہ پاپلیٹ اور جھینگے کی نسل تقریباً ختم کر دی گئی ہے۔
پاکستان کی سمندری حدود کیا ہیں؟
پاکستان کی سمندری حدود 200 ناٹیکل میل تک پھیلی ہوئی تھیں تاہم گذشتہ چند برسوں میں اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے کانٹینینٹل شیلف حدود نے پاکستان کی بیرونی حدود بڑھانے کا مطالبہ قبول کرتے ہوئے انھیں 350 ناٹیکل میل کر دیا تھا۔
پاکستان کی وزارت بحری اُمور نے سمندر میں تین فشنگ زونز قائم کیے ہیں جس کے تحت ساحل سے لے کر 12 ناٹیکل میل تک صوبائی حکومتوں کی سمندری حدود ہیں جہاں سندھ اور بلوچستان حکومتوں کی اجازت سے ماہی گیری کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ 12 سے 20 ناٹیکل میل وفاقی حکومت کی حدود ہیں جہاں وفاقی حکومت ماہی گیری کے لیے معاونت فراہم کرتی ہے جبکہ 20 سے 200 ناٹیکل بھی وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہیں۔
بلوچستان میں سمندر کی حدود حب سے لے کر ایرانی سرحد تک پھیلی ہوئی ہے جس کا رقبہ 770 کلومیٹر بنتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے مطابق بلوچستان میں زیر سمندر زیادہ تر پہاڑی علاقے ہے جہاں سونمیانی، اورماڑہ، کلمت، پسنی اور گوادر خلیج ہیں۔
سندھ کا ساحل حب ریور سے لے کر انڈین سرحد تک پھیلا ہوا ہے جو 348 کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ یہاں 80 میل کے فاصلے پر انڈس ڈیلٹا اور کریک واقع ہیں۔ یہاں تمر کے جنگلات پائے جاتے ہیں جہاں جھینگے کی افزائش ہوتی ہیں۔
غیر ملکی ٹرالر
پاکستان ادارہ برائے شماریات کے مطابق 2018 میں پاکستان نے دو لاکھ ٹن کے قریب سی فوڈ برآمد کیا اور اس کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ مچھلی اور جھینگے کا کاروبار پرکشش سمجھا جاتا ہے جس میں نفع زیادہ ہے۔
دو ماہ قبل گوادر میں دو چینی ٹرالرز کی آمد پر ماہی گیروں کا سخت ردعمل میں آیا تاہم وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ اور میری ٹائم علی حیدر زیدی کا دعویٰ ہے کہ جہاز میں خرابی کی وجہ سے مرمت کے لیے یہ گوادر پورٹ آ گیا تھا۔
کراچی کی بندرگاہ پر بھی چینی ٹرالرز کی آمد کی خبریں سامنے آئیں تاہم وفاقی اور سندھ حکومت ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتی رہی ہیں۔
پاکستان فشر فوک کے رہنما سعید بلوچ کا کہنا ہے کہ چین سے 10 ٹرالر آگئے جن پر سوال اٹھائے گئے کہ انھیں کس نے اجازت دی اور کون اس کا ذمہ دار ہے؟
انھوں نے کہا کہ تمام مقامی چھوٹے بڑے ماہی گیروں نے احتجاج کیا جس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمارا کوئی تعلق نہیں لیکن سوال کیا کہ اگر ان کا تعلق نہیں ہے تو وہ پاکستان کے پانیوں میں کیسے آئے۔
’یہاں پہلے چین، تھائی لینڈ، کوریا کے ٹرالر چلتے تھے جس کے خلاف ماہی گیر 1999 سے شدید احتجاج کرتے رہے۔ اس کے بعد یہ کام کم ہوا لیکن میرا خیال ہے کہ احتجاج کا حکمرانوں پر اتنا فرق نہیں پڑا لیکن جو تیل کی قیمتیں بڑھیں ہیں اس کی وجہ سے ان ٹرالرز کو چلانا مشکل ہو گیا تھا۔ دوسرا وہ بڑے پیمانے پر شکار کر کے سمندر خالی کر چکے تھے اس لیے اب ان کا خرچہ نہیں نکل رہا تھا۔‘
پاکستان کی ڈیپ سی پالیسی 2021 کے مطابق کسی غیر ملکی فرد یا کمپنی کو لائسنس نہیں دیا جائے گا جبکہ وفاقی وزیر علی زیدی کا دعویٰ ہے کہ اس وقت کوئی غیر ملکی ٹرالر موجود نہیں ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے معاون معظم خان بھی علی زیدی کے مؤقف سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ آخری جو غیر ملکی ٹرالر چل رہا تھا وہ نومبر 2005 تک تھا اور اس کے بعد کسی بھی غیر ملکی ٹرالر کو اجازت نہیں دی گئی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے بحری اُمور کے چیئرمین عامر علی خان مگسی کا کہنا ہے کہ غیر ملکی ٹرالرز پہلے تو بہت آتے تھے، اب وہ بند کروا دیے گئے ہیں اور اس وقت جو آ رہے ہیں وہ پاکستان کی حدود سے باہر ہیں۔
’ہم نے رپورٹ منگوائی ہے کہ وہ یہاں کیوں آتے ہیں، یہاں پر یقیناً ان کا کوئی مفاد ہے اس لیے آ کر رکتے ہیں۔‘
عامر علی خان مگسی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی نگرانی کا نظام کمزور ہے۔
’اگر کوئی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کو روکا جائے اور اس کو بندرگاہ پر لا کر کھڑا کر کے قانونی کارروائی کی جائے تاکہ کوئی نتیجہ تو نکلے لیکن یہاں سفارتی معاملات آڑے آ جاتے ہیں۔‘
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے معاون معظم خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی ایک طاقتور ادارہ ہے۔
’ایک مرے سے مرا جہاز بھی 20 لاکھ ڈالر کا ہوتا ہے اور اگر کوئی ایجنسی یہ جہاز پکڑ لیتی ہے تو سرمایہ کاری ڈوب جاتی ہے جبکہ نیا جہاز ایک کروڑ (ڈالر) سے اوپر ہوتا ہے، تو سوچیں کون اتنا بڑا رسک لے گا۔‘
مقامی ٹرالرز
گوادر میں جاری دھرنے کے شرکا کا ایک مطالبہ ٹرالرز کی روک تھام بھی ہے۔ دھرنے کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان کہہ چکے ہیں کہ سندھ سے غیر قانونی طور پر ٹرالر آ کر بلوچستان میں شکار کرتے ہیں۔
گوادر کے ماہی گیر اکبر رئیس کا کہنا ہے کہ گوادر، پسنی اور جیونی میں ایسی کوئی لانچ نہیں جس سے ٹرالنگ کی جائے۔
’ہم ایسا کوئی کام نہیں کر رہے جس سے سمندر خراب ہو جائے، یہاں پر جو بڑی سے بڑی کشتی بھی ہو تو اس میں دو ہزار کلو تک مچھلی جھینگا آ سکتا ہے۔‘
گوادر کے ایک اور ماہی گیر رسول بخش کہتے ہیں کہ سندھ کے ٹرالرز میں گجو نیٹ استعمال ہوتا ہے جس پر پابندی ہے اور یہ جال سمندر کو تباہ اور برباد کر دیتا ہے۔
’سندھ کا سمندر ہمارے بلوچستان کے سمندر سے زیادہ زرخیز تھا۔ وہاں مچھلیاں زیادہ تھیں لیکن اس گجو جال کی وجہ سے اب وہاں کچھ نہیں رہا ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اس پر پابندی نہیں لگی تو ہمارے سمندر کا حشر بھی سندھ جیسا ہی ہوگا۔‘
وفاقی وزیر علی زیدی کا کہنا ہے کہ صوبائی سمندری حدود میں ٹرالرز پر نظر داری میری ٹائم سکیورٹی ایجنسی کا کام تھا تاہم سندھ اور بلوچستان نے انھیں روک دیا اور کہا کہ ہم خود نگرانی کریں گے۔
’چونکہ بلوچستان میں پانی بہتر ہے تو سندھ کے ٹرالرز وہاں چلے جاتے ہیں اور بلوچستان والے انھیں غیر مقامی سمجھتے ہیں اور ان کی کئی لڑائیاں بھی ہو چکی ہیں۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو