ترقی اور تباہی کا سفر ساتھ ساتھ (قسط-2)

عاجز جمالی

سندھ کے ادارے کمپنی سرکار کے ملازم ؟

اٹھارہویں صدی میں بھارت پر ایک صدی تک ایسٹ انڈیا کمپنی نے راج کیا ایسٹ انڈیا کمپنی نے پورے برصغیر پر تجارت کے ذریعے حکمرانی کی اور اپنا لوہا منوایا. سنہ 1757ع سے 1858ع تک ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط رہا۔ اس زمانے میں بھارتی حکومت کو کمپنی سرکار یا کمپنی بہادر کی حکومت کہا جاتا تھا، کیونکہ حکومت پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہر حکم کو سر تسلیم خم کرکے ماننا لازم تھا۔ میں نے جب بحریہ ٹائون کے ترقیاتی منصوبے کے ساتھ سندھ حکومت کے سرکاری اداروں کی گٹھ جوڑ کے قصے دیکھے تو کمپنی سرکار جیسی کہانی معلوم ہونے لگی۔ کچھ ریٹائرڈ سرکاری افسران سے بات ہوئی تو میرے ہوش ٹھکانے آگئے۔

اس کے بعد میرے ذہن میں کئی سوالات تھے.. مثلاً زمین دیہاتی افراد کی اور زمین خریدنے والی ایک نجی تعمیراتی کمپنی بحریہ ٹائون پرائیویٹ لمیٹڈ تھی، تو زمین کے معاملات سے جس محکمے کا کوئی سیدھا تعلق بنتا تھا، وہ تھا محکمہ ریونیو سندھ.. لیکن یہ بات سمجھ سے بالا تر تھی کہ بحریہ ٹائون سے پوری لین دین پورا لینا دینا پوری دستاویزاتی کہانی آخر ملیر ڈولپمنٹ  اتھارٹی کے ساتھ کیوں جُڑی ہوئی تھی؟

°ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی آخر ہے کیا؟

پیپلز پارٹی کی 1993ع میں قائم ہونے والی حکومت نے کراچی میں ملیر ضلع بنانے کا فیصلہ کیا، تو نئے ضلع کے لئے نئے سرکاری ادارے بھی بنائے گئے. وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعلیٰ سندھ کو اکثر ملیر اور لیاری کی ترقی کے لیئے ہدایات دیتی تھیں. ملیر کی ترقی کو نظر میں رکھتے ہوئے  ادارۂ ترقیات ملیر (ایم ڈی اے) قائم کیا گیا. یہ ادارہ دراصل ادارۂ ترقیات کراچی (کے ڈی اے) کی طرز پر تشکیل دیا گیا، جس کو یہ ذمے داری دی گئی کہ عوام کو سستے نرخوں پر پلاٹ فراہم کرے اور اس مقصد کے لئے بڑے پیمانے پر رہائشی منصوبے شروع کرے، تاکہ عوام کو سہولت میسر ہو۔

ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی کو سندھ اسمبلی سے منظور شدہ ایکٹ کے تحت تشکیل دیا گیا۔ یہ ادارہ صرف سرکاری زمین رہائشی مقاصد یا محدود زمین تجارتی مقصد کے لئے الاٹ کرنے کا مجاز تھا۔ کسی بھی ایک فرد کو زیادہ سے زیادہ چھ سو مربع گز رہائشی، زیادہ سے زیادہ ایک ایکڑ تجارتی اور ایک ہزار مربع گز صنعتی مقاصد کے لئے زمین الاٹ کرنے کی مجاز اتھارٹی کو ہزاروں ایکڑ زمین الاٹ کرنے کا اختیار کس نے دیا؟ یہ ہی وہ اہم سوال ہے، جس نے تمام صورتحال کا رخ موڑ دیا۔ ہوا یوں تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی میں زمینوں کی الاٹمنٹ پر پابندی عائد کردی تھی. یہ حکم 28  نومبر سنہ 2012ع کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران جاری کیا۔ سپریم کورٹ نے زمین کی لیز، سرکاری زمین کی خرید و فروخت، کھاتوں کی تبدیلی، نئی الاٹمنٹ، نوے سالہ تیس سالہ نیز ہر قسم کی الاٹمنٹ پر پابندی لگادی. مذکورہ فیصلے کی وجہ سے بحریہ ٹائون کے لئے زمین کا حصول ایک مشکل مرحلہ تھا،  جبکہ بحریہ ٹائون کا منصوبہ شروع بھی ہو چکا تھا. جس کے لئے ابتدائی زمین نجی مالکان سے خرید کر لی گئی تھی۔ یہاں سے کمپنی سرکار کے لئے سہولت فراہم کرنے کے لئے سندھ سرکار نے ایک غیر آئینی فیصلہ کیا۔ سندھ حکومت نے دسمبر 2013ع میں ایم ڈی اے کے قانون میں ترمیم کر دی اور ایم ڈی اے کا پورا قانون تبدیل کر کے محکمۂ ریونیو کی زمینیں ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے سپرد کی گئیں، جس محکمہ ریونیو سندھ کی طرف سے باقاعدہ ایک نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا، جس کے تحت ضلع ملیر کی 43 دیہوں کا کنٹرول ایم ڈی اے کے سپرد کیا گیا. یہاں سے حکومتی اداروں کی کمپنی بہادر کے لئے غلامی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جو آج تک جاری ہے۔ ایم ڈی اے کے قانون میں ترمیم کا مقصد ہی صرف اور صرف بحریہ ٹائون کو نوازنا تھا، جس وجہ سے ایم ڈی اے کا قانون ہی تبدیل کر دیا گیا! جس کے تحت محکمہ ریونیو نے آگے چل کر چار ہزار ایکڑ اراضی ایم ڈی اے کے حوالے کردی، جو کہ بعد ازاں بحریہ ٹائون کے حوالے ہوئی. اس زمانے میں احمد بخش ناریجو اور رضوان میمن سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو تھے.  بعد میں جب بحریہ ٹائون کا مقدمہ سپریم کورٹ پہنچا تو محکمۂ ریونیو نے سپریم کورٹ میں بھی جھوٹ بولا اور عدالت کو گمراہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ مذکورہ چار ہزار ایکڑ اراضی کم آمدنی والے افراد کی ہائوسنگ اسکیم کے لئے مختص کی گئی ہے. مذکورہ زمین پر اب بحریہ ٹائون تعمیرات کر چکی ہے!

سال 2014.15  میں شرجیل انعام میمن وزیر بلدیات تھے اور ملیر ڈولپمٹ اتھارٹی ان کا ایک ماتحت ادارہ تھا اور تب ہی کمپنی سرکار کی سہولت کاری کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی، تاکہ مقامی دیہاتیوں کو زمینیں فروخت کرنے کے لئے آمادہ کیا جائے۔ اس کمیٹی میں سندھ اسمبلی ساجد جوکھیو، ڈپٹی کمشنر ملیر محمد علی شاہ، رونیو ڈپارٹمنٹ کے سہیل میمن اور ایم ڈی اے کے ڈی جی سہیل شامل تھے۔

ایم ڈی اے کا قانون تبدیل ہونے کے بعد ایم ڈی اے کو یہ بھی اختیار دیا گیا کہ وہ سروے زمین اور زرعی زمین کو کاروباری مقصد کے لئے استعمال کر سکتی ہے اور ایک جگہ کی زمین کے عوض الاٹی کو دوسری جگہ زمین فراہم کرنے کا اختیار بھی ایم ڈی اے کو دیا گیا. یہ ساری نعمتیں "کمپنی سرکار” یعنی بحریہ ٹاؤن کراچی کے لئے تھیں۔ ان قوانین کے تحت نجی افراد سے زمینیں خرید کر ان کو تھوڑی سی رقم دے کر پاور آف اٹارنی حاصل کرنے کے بعد بقیہ رقم دینے کا وعدہ ہوتا تھا اور دو چار لاکھ روپے کی ادائیگی اور پاور آف اٹارنی حاصل کرنے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا جاتا تھا کہ کمپنی سرکاری کی راتوں و رات دیوار کھڑی ہوجاتی تھی  اور یہ دیوار اسی طرح 2014ع سے آج تک طویل ہوتی جارہی ہے، جو کہ اب ضلع ملیر کی حدود کراس کرکے ضلع جامشورو تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن اس تھوڑی سی رقم کے علاوہ نہ کسی کو رقم ملی نہ وعدے پر عمل ہوا۔

یہ ہی وجہ تھی کہ مقامی زمینداروں اور دیہاتیوں نے اپنی زمینیں دینے سے انکار کر دیا، لیکن بحریہ ٹائون کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ملک زین مقامی زمینداروں اور انتظامیہ کے افراد سے ملاقاتیں کرتا تھا اور ملیر ڈوولپمنٹ اتھارٹی تب سے لے کر آج تک کمپنی سرکار کے رحم و کرم پر چل رہی ہے اور اتھارٹی کا ایم ڈی/ڈی جی بھی کمپنی کی آشیرباد سے مقرر ہوتا ہے. آج کل بڑے عرصے سے ایک ہی ایم ڈی  چل رہا ہے۔ ملیر ڈولپمنٹ اتھارٹی کی طرح کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے تانے بانے بھی کمپنی سرکار سے ملنے لگے۔ شہر میں پانی کی قلت کے باوجود واٹر بورڈ نے فنِ کمال سے بحریہ ٹائون تک پانی کی لائین پہنچا دی. پانی انہی دیہات کے نام پر جا رہا تھا جن کو بحریہ ٹائون مسمار کر رہا تھا۔ واٹر بورڈ، ایم ڈی اے، محکمہ ریونیو کے علاوہ ضلع ملیر کی انتظامیہ, پولیس, کچھ منتخب نمائندے بالواسطہ یا بلاواسطہ کمپنی سرکار کے سہولت کار تھے اور منصوبہ ان سب مددگاروں کی وجہ سے وسیع ہوتا گیا۔

ملیر کی چار دیہوں لنگھیجی، بولہاڑی، کاٹھوڑ اور کونکر میں ایم ڈی اے نے کمپنی سرکار کو مزید سات ہزار ایکڑ اراضی فراہم کردی، لیکن دراصل یہ زمینیں سرکاری نہیں بلکہ قدیمی گوٹھوں کی تھی۔ گوٹھوں کے علاوہ تاریخی مقامات، قبرستان اور ایک آثار قدیمہ بھی موجود تھا۔ یہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا تکیہ تھا جس کو بھی مسمار کیا گیا. کراچی ملیر سے تعلق رکھنے والے محقق گل حسن کلمتی کا کہنا ہے کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی اسی راستے سے ہنگلاج جاتے تھے اور اسی گوٹھ میں قیام کرتے تھے  یہاں شاہ لطیف نے اپنا آستانہ قائم کر رکھا تھا. ان کی رحلت کے بعد لوگ یہاں زیارت کے لئے آتے تھے۔ شاہ لطیف کے تکیہ کو مسمار کرنے کے بعد آج کل بحریہ ٹائون کی بڑی مسجد کا وہاں پر وضو خانہ اور ٹوائلٹ بنایا گیا ہے۔

اس تمام صورتحال میں خوف کا عالم تھا۔ میڈیا پر کوئی خبر نہیں تھی، کسی میں ہمت نہیں تھی کہ کمپنی سرکار کے خلاف ایک لفظ بول سکے.  بس ایک شخص تھا جس نے آواز بلند کی اور بحریہ ٹائون کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گیا۔ وہ شخص تھا ماما فیض محمد گبول، جسے عام طور پر ماما فیضو کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ ماما فیضو مقامی زمیندار تھا اور 56 ایکڑ اراضی کا مالک تھا لیکن اس نے اپنی زمین بحریہ ٹائون کو دینے سے صاف انکار کردیا۔ ماما فیضو کا گاؤں نورمحمد گبول بحریہ ٹائون کی دیوار کے ساتھ ہے. 2014ع میں سب سے پہلے ماما فیضو کے گوٹھ پر چڑھائی کی گئی بلڈوزر سے گوٹھ مسمار کرنے کی کوشش کی گئی، تو ماما فیضو بلڈوزرز کے سامنے کھڑا ہوگیا، بعد ازاں عدالت بھی گیا۔ یہ بحریہ ٹائون کے خلاف پہلی مزاحمت تھی. مقامی سیاسی افراد اور زمینداروں نے احتجاج کیا تو پیپلز پارٹی کے منتخب اراکین وفد کی صورت میں بڑے صاحب سے ملاقات کرنے بلاول ہائوس پہنچ گئے۔ اس وفد میں شریک ایک رہنما نے بتایا کہ ہم لوگ تو باہر بیٹھے تھے، اسمبلی ممبرز بڑے صاحب سے اندر ملنے گئے تو ان کو کھری کھری باتیں سننے کو ملیں۔ بڑے صاحب نے کہا کہ آپ لوگوں سے چند دیہاتی نہیں سنبھالے جاتے، جن کو زمین کی قیمت دے کر بھگا نہیں سکتے۔ یہ بات بتانے والے قادر بخش کلمتی رکن سندھ اسمبلی سلیم کلمتی کے چچا زاد بھائی ہیں اور یہ دیہات کا دورہ کرنے کے وقت ہمارے ساتھ تھے۔

صحافیوں اور انسانی حقوق کمیشن کے وفد نے اپنے دورے کی ابتدا ہی نور محمد گبول گوٹھ سے کی تھی. یہ وہ ہی گوٹھ ہے جہاں پر ماما فیضو سات برس تک بحریہ ٹائون سے لڑتے لڑتے انتقال کر گیا۔ وہ کہتا تھا کہ میں اپنی زمین نہیں بیچنا چاہتا تو زبردستی کیوں کی جا رہی ہے اور میں زمین کو ماں سمجھتا ہوں یہ ہمارے آبا و اجداد کی نشانی ہے ہم اپنے گوٹھ میں رہنا چاہتے ہیں۔ ماما فیضو کے انتقال کے بعد وہ ہی بات اس کا بیٹا مراد گبول کر رہا ہے۔

ﻣﺮﺍﺩ ﮔﺒﻮﻝ ﮐﻮ ﺍﭘﺮﯾﻞ 2021ع ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﮨﻔﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﯿﺎ، ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﻧﻘﺶ ﻗﺪﻡ ﭘﺮ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺤﺮﯾﮧ ﭨﺎﺋﻮﻥ ﮐﮯ ﺑﻠﮉﻭﺯﺭوں ﮐﺎ ﻣﻘﺎبلہ ﮐﯿﺎ، ﺗﻮ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﻧﮯ ﮔﻮﭨﮫ کی ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﭘﺮ ﺗﺸﺪﺩ ﮐﯿﺎ. ﻣﺮﺍﺩ ﮔﺒﻮﻝ ﺳﻤﯿﺖ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﯿﺎ۔ ﻣﺮﺍﺩ ﮔﺒﻮﻝ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ، ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻭﮌ ﭘﺘﯽ ﺑﻨﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ، ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺎﻝ ﭘﺮ ﭼﮭﻮﮌﺍ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﻣﺮﺍﺩ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﻟﺪ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﻭﯾﺲ ﻣﻈﻔﺮ ﭨﭙﯽ کے ساتھ ﻣﻠﮏ ﺭﯾﺎﺽ ﺧﻮﺩ ﭼﻞ ﮐﺮ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﮐﮧ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﻟﺪ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺯﻣﯿﻦ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺑﺤﺮﯾﮧ ﭨﺎﺋﻮﻥ، ﺍﯾﻢ ﮈﯼ ﺍﮮ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﻟﯿﺲ ﺳﺎﺕ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﻢ ﭘﺮ ﻇﻠﻢ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ انہی دنوں ﮐﺮﺍچی ﺍﻧﮉﺟﯿﻨﺌﺲ ﺭﺍﺋﯿﭩﺲ الائنس بھی بحریہ ٹاؤن کی بدمعاشی کے ان ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرنے کے لیے وجود میں آ چکی تھی اور مزاحمت کر رہی تھک، ﺟﻮ ﺗﺐ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺍﺣﺘﺠﺎﺝ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ. ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﯾﮧ ﺟﺪﻭﺟﮩﺪ ﻃﻮﻝ ﭘﮑﮍﺗﯽ ﺭﮨﯽ اور ﺁﺝ یہ اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﭽﮫ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ پر مجبور ہو گیا ﮨﮯ. ﺍﻭﺭ ﻧﮧ سہی، ﺗﻮ بھی ﺳﻮﺷﻞ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﺪﮬﯽ ﻣﯿﮉﯾﺎ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﮈﺍﻥ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮭﺎ۔

ﺣﮑﻮﻣﺘﯽ ﭘﺎﺭﭨﯽ ﭘﺮ ﺗﻨﻘﯿﺪ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﯿﺸﮏ ﺍﺳﮯ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﯽ ﺳﮩﻮﻟﺖ ﮐﺎﺭ ﮐﮩﯿﮟ، ﻣﮕﺮ ﺳﻮﺍﻝ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺩﯾﮕﺮ ﺳﯿﺎﺳﯽ، ﻣﺬﮨﺒﯽ، ﻗﻮﻡ ﭘﺮﺳﺖ ﺟﻤﺎﻋﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﺤﺮﯾﮧ ﭨﺎﺋﻮﻥ ﮐﮯ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﻣﻮﻗﻒ ﺭﮨﺎ؟ ﺳﮩﻮﻟﺖ ﮐﺎﺭ ﺻﺮﻑ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﺗﮭﯽ ﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﺳﮯ ﻓﯿﻀﯿﺎﺏ ﮨﻮﺋﮯ ﯾﺎ ﮐﭽﮫ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﯽ ﺁﺷﯿﺮ ﺑﺎﺩ ﺣﺎﺻﻞ ﺗﮭﯽ؟ ‏(ﺟﺎﺭی ہے)
بحریہ ٹائون کے متعلق یہ مضمون روزنامہ عوامی آواز میں قسط وار شایع ہوا، جس کا اردو ترجمہ قارئین کے لئے یہاں  مصنف کی اجازت اور مصنف اور عوامی آواز کے شکریے کے ساتھ شایع کیا جا رہا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close