لندن – رانا شمیم کی جانب سے بیان حلفی پر دستخط نواز شریف کے دفتر میں ان کے سامنے کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے
سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی کے معاملے میں بڑا انکشاف سامنے آگیا ہے، انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رانا شمیم نے بیان حلفی پر دستخط نواز شریف کے دفتر میں کیے
برطانوی سولیسٹر چارلس کے مطابق رانا شمیم، سابق وزیراعظم نواز شریف کے قریبی دوست ہیں اور جس بیان حلفی میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز ججز پر الزامات لگائے گئے ہیں، اس پر دستخط نواز شریف کے دفتر میں کیے گئے، نوازشریف رانا شمیم کو چیف جسٹس بنانا چاہتے تھے
اس نوٹری کے پاس موجود خصوصی شواہد میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے حلف اٹھایا اور حلف نامہ پر دستخط کر کے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ان کے سامنے میاں نواز شریف کو سزا دلوانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو فون کر کے دباؤ ڈالا
حلف نامہ، جس کے مندرجات میں تین سال پرانے مبینہ واقعے کا ذکر ہے، سابق چیف جسٹس پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے برطرف وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک موجودہ جج سے جبری فیصلہ سنانے کی کوشش کی
برطانیہ کے ایک سالیسٹر چارلس گتھری نے دستیاب شواہد میں تصدیق کی ہے کہ ‘
جج ‘ماربل آرک’ میں موجود تھے۔
ماربل آرک – اسٹین ہاپ ہاؤس، مسلم لیگ (ن) کا راؤنڈ ہاؤس؟
اسٹین ہوپ پلیس، ماربل آرک کو کمپنیز ہاؤس کے ریکارڈ پر فلیگ شپ ڈولپمنٹ لمیٹڈ کے دفاتر میں سے ایک کے طور پر درج کیا گیا تھا، جس میں حسن نواز شریف ڈائریکٹرز میں سے ایک ہیں اور یہ لندن میں مسلم لیگ (ن) کی بہت سی قیادت کی نواز شریف کے ساتھ مرکزی ملاقات کا مرکز رہا ہے
اسٹین ہاپ ہاؤس وہ جگہ ہے جہاں نواز شریف کی اہم ملاقاتیں ہوتی ہیں اور جہاں انہوں نے پاکستان روانہ ہونے اور خود کو حکام کے حوالے کرنے سے قبل اپنی آخری پریس کانفرنس بھی کی تھی۔ عدالت نے چار ہفتوں تک طبی بنیادوں پر رہائی دی تھی لیکن وہاں سے وہ تقریباً دو سال بعد بھی واپس نہیں آئے ہیں – وہ اسی دفتر سے اپنی پارٹی اور عوامی خطابات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سابق اسپیکر ایاز صادق، سابق افغان قومی سلامتی کے مشیر اور پاکستان کے معروف نقاد حمد اللہ محب، صحافیوں اور دیگر شخصیات سے ان کی ملاقاتیں اسی مقام پر ہوتی رہی ہیں
اب تک رانا شمیم نے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کے بارے میں سوال کا جواب نہیں دیا۔ عدالت سے باہر اس بابت سوال کرنے پر انہوں نے ”نو کمنٹس“ کے ساتھ جواب دیا
لیکن، دستیاب شواہد میں، چارلس گتھری نے خود تصدیق کی ہے کہ رانا شمیم ماربل آرک میں موجود تھے۔ یہ انکشافات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں، جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پاکستانی اخبار کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی جاری ہے جس میں بیان حلفی کے مندرجات کو زیر بحث لایا گیا تھا
ان انکشافات پر نوٹری گتھری کیا کہتے ہیں؟
شواہد میں چارلس گتھری تین بار تصدیق کر چکے ہیں کہ رانا شمیم ماربل آرک میں موجود تھے، اور انہوں نے نواز شریف کی موجودگی میں حلف نامے پر دستخط کیے
گتھری نے شواہد میں کہا کہ جج صاحب (رانا شمیم) نواز شریف کے دفتر میں تھے۔ جب ثبوت میں پوچھا گیا کہ وہ کون سا دفتر تھا؟ جیسا کہ یہاں لندن میں ہے؟”، گتھری نے جواب دیا "ماربل آرک۔”
شواہد میں گتھری سے مزید پوچھا گیا کہ ’’وہ نواز شریف کے دفتر میں تھے؟ جب وہ وہاں تھے تو وہ کافی آرام دہ تھے؟
اس پر، نوٹری نے جواب دیا "جی ہاں… بہت زیادہ…”
واضح رہے کہ ایک سنسنی خیز ٹی وی انٹرویو میں خود رانا شمیم کے بیٹے رانا احمد نے بتایا تھا کہ 2020 میں کووڈ 19 لاک ڈاؤن سے پہلے ان کے والد نے لندن میں نواز شریف سے ملاقات کی تھی۔ اور نومبر میں دوسرے موقع پر رانا شمیم نے حلف نامہ نوٹرائز کرنے کے لیے لندن کا دورہ کیا، لیکن انہوں نے نواز شریف سے ان کی ملاقات کے سوال کا جواب دینے سے گریز کیا
”یہ ان کا ایک ساتھی ہے، ان کا ایک دوست ہے“
ثبوت میں، چارلس گتھری نے یہ بھی کہا: "یہ ان کے ساتھیوں میں سے ایک ہے، جسے آپ جانتے ہیں کہ میرا کیا مطلب ہے۔ جب نواز شریف وزیر اعظم تھے، انہوں نے رانا شمیم سے کہا تھا ”میں آپ کو پاکستان میں چیف جسٹس بناؤں گا اور اس قسم کی بات“. اور اگر وہ چیف جسٹس رہے ہیں، 10 سے 15 سال تک حکومت کی ہے، تو وہ ان کے دوستوں میں سے ایک تھا۔“
گتھری نے کہا کہ رانا شمیم نواز شریف کے قریبی دوست ہیں۔ یہ محض شناسائی نہیں بلکہ کئی سالوں کی دوستی کی تاریخ ہے۔ جبکہ خود جسٹس رانا شمیم کے صاحبزادے کے مطابق سابق چیف جسٹس مسلم لیگ (ن) لائرز ونگ سندھ کے نائب صدر بھی رہ چکے ہیں
نوٹری کبھی بھی مواد نہیں پڑھتا
ایک اور چونکا دینے والا انکشاف جو نوٹری نے کیا وہ یہ تھا کہ اس نے کاغذات کبھی نہیں پڑھے۔ دستیاب شواہد میں چارلس گتھری نے کہا: ”میں نے ان رپورٹس کو کافی تفصیل سے نہیں پڑھا، لیکن میں جانتا تھا کہ نواز شریف کی مدد کرنا بہت بڑی چیز ہے کیونکہ میں آس پاس کے ہر فرد کے ردعمل سے ہی بتا سکتا تھا، مجھے جس کام کرنے کے لیے بلایا گیا ہے، وہ انتہائی اہم معاملہ ہے ۔ میں بہت زیادہ مصروفیت کی وجہ سے واقعی میں اسے پڑھ نہیں سکا اور میں نے اسے مختصر طور پر پڑھا، لیکن اسے ٹھیک سے نہیں پڑھا۔ میرے فون پر تمام کاپیاں موجود ہیں۔“
شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ چارلس گتھری نے کبھی بھی اس حلف نامے کو تفصیل سے نہیں پڑھا تھا اور وہ وہاں صرف اسے نوٹری کرنے کے لیے موجود تھے، جس کے لیے انہیں بلایا گیا تھا۔ چارلس گتھری نے اپنے کام کی نوعیت کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ”کیونکہ نوٹری ایک آزاد شخصیت ہے جو شناخت کی تصدیق کرتا ہے اور پھر دستاویزات کی تصدیق کرتا ہے۔ کسی بھی تحریری مواد کی اصلیت اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔“
شواہد سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب حلف نامہ پیش کیا گیا تو وہ اکیلا نہیں تھا اور لوگوں میں گھرا ہوا تھا
چارلس گتھری کے مطابق، ”ان کے ارد گرد لوگوں کے ردعمل نے واضح طور پر اشارہ کیا کہ حلف نامے کا مواد بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے جس سے نواز شریف کو مدد ملے گی“
روزنامہ ٹریبیون کے مطابق، واقعات کے بارے میں نواز شریف، اسحاق ڈار، حسن نواز اور حسین نواز سے رابطہ کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں، تاہم ان میں سے کسی کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔ اسلام آباد میں سابق چیف جسٹس کے خلاف عدالتی کارروائی کے دوران مزید پیشرفت سامنے آنے کی توقع ہے
حکومت کا ردعمل
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے حلف نامے کے حوالے سے سامنے آنے والے انکشافات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان انکشافات نے ایک بار پھر ’شریف خاندان کو سیسیلین مافیا ثابت کر دیا ہے‘
فواد چوہدری نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ان انکشافات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح شریف خاندان، مافیا کی طرح عدالتوں سمیت اداروں کو بلیک میل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے کہا کہ شریف خاندان ’صرف اثر و رسوخ خرید کر یا سپریم کورٹ پر حملہ کرکے انصاف کو ناکام بنانے کی کوشش سے آگے نہیں بڑھ سکتا‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ پر حملے سے لے کر جسٹس قیوم کو کال کرنے تک اور حلف نامے کی اس تازہ ترین کہانی تک، یہ تمام محاذوں پر بدعنوانی کی دہرائی جانے والی کہانی ہے‘۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ ’اس بات کا انکشاف ہونا کہ رانا شمیم نے اپنے بیان حلفی پر نواز شریف کے دفتر میں ان کے سامنے دستخط کیے تھے، اس بات کا ثبوت ہے کہ شریف خاندان نے اداروں پر حملہ آور ہونے اور نواز شریف کے خلاف مقدمات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی‘
شہزاد اکبر کا مزید کہنا تھا کہ ’اب بڑا سوال یہ ہے کہ صحافی کو یہ بیان حلفی کس نے دیا؟ رانا شمیم تو دعویٰ کرتے ہیں یہ بیان حلفی ایک تجوری میں رکھا تھا، کیا ان پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟ یا پھر ’کسی اور نے‘ یہ بیان حلفی فراہم کیا؟‘
معاملے کا پس منظر
خیال رہے کہ 15 نومبر2021 کو انگریزی روزنامے ’دی نیوز‘ میں شائع ہونے والی صحافی انصار عباسی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ”گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم نے ایک مصدقہ حلف نامے میں کہا تھا کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو ہدایت دی تھی کہ سال 2018 کے انتخابات سے قبل کسی قیمت پر نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہیں ہونی چاہیے۔“
مبینہ حلف نامے میں رانا شمیم نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان 2018 میں چھٹیاں گزار نے گلگت بلتستان آئے تھے اور ایک موقع پر وہ فون پر اپنے رجسٹرار سے بات کرتے ’بہت پریشان‘ دکھائی دیے اور رجسٹرار سے ہائی کورٹ کے جج سے رابطہ کرانے کا کہا
حلف نامے میں رانا شمیم نے کہا کہ ثاقب نثار کا بالآخر جج سے رابطہ ہوگیا اور انہوں نے جج کو بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز انتخابات کے انعقاد تک لازمی طور پر جیل میں رہنے چاہیئں، جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو ثاقب نثار پرسکون ہو گئے اور چائے کا ایک اور کپ طلب کیا
دستاویز کے مطابق اس موقع پر رانا شمیم نے ثاقب نثار کو بتایا نواز شریف کو جان بوجھ کر پھنسایا گیا ہے، جس پر سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ’رانا صاحب، پنجاب کی کیمسٹری گلگت بلتستان سے مختلف ہے‘
تاہم ثاقب نثار نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کی تھی اور رپورٹ کو ’خود ساختہ کہانی‘ قرار دیا تھا
ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ’اس وقت انہوں نے اپنی مدت میں توسیع کے متعلق شکوہ کیا جبکہ ان کی ان دعووں کے پیچھے کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے‘
اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات منظرِ عام پر آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے رپورٹ لکھنے والے صحافی انصار عباسی، ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور رانا شمیم کو توہینِ عدالت آرڈیننس کے تحت نوٹس جاری کر کے 16 نومبر کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا
30 نومبر کو رانا شمیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے اپنا ہی بیانِ حلفی نہیں دیکھا جس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف الزامات عائد کیے تھے، جس پر عدالت نے رانا شمیم کو 7 دسمبر تک اصل بیان حلفی پیش کرنے کا حکم دیا تھا
تاہم 7 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں رانا شمیم کے وکیل نے کہا تھا کہ بیانِ حلفی کا متن درست ہے لیکن اسے شائع کرنے کے لیے نہیں دیا گیا تھا
اس سماعت کے 10 دسمبر کو جاری ہونے والے حکم نامے میں ہائی کورٹ نے فریقین کی جانب سے جمع کروائے گئے جوابات کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے فرد جرم عائد کرنے کا عندیہ دیا تھا
دوسری جانب وفاقی وزارت داخلہ نے رانا شمیم کا نام پروونشل نیشنل آئیڈینٹی فکیشن لسٹ (پی این آئی ایل) مین شامل کردیا تھا جس کے تحت 30 روز کی سفری پابندی عائد ہوتی ہے
بعد ازاں 13 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں اٹارنی جنرل نے استدعا کی تھی کہ توہین عدالت کے نوٹسز ملنے والے اپنے بیان حلفی جمع کرا دیں، اس دوران رانا شمیم کا اصل بیان حلفی بھی آ جائے گا، اس کے بعد فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کی جائے
اٹارنی جنرل کی استدعا منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس نے رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس میں فرد جرم کا فیصلہ مؤخر کرتے ہوئے انہیں آئندہ سماعت پر اصل بیان حلفی جمع کروانے کا حکم دیا تھا
20 دسمبر کو گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کی پیروی کرنے والے وکیل لطیف آفریدی نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان کے مؤکل کی جانب سے سربمہر بیانِ حلفی عدالت میں جمع کرایا جاچکا ہے.