بھارتی نژاد برطانوی قصہ گو چترہ سندر کہتی ہیں ”قصے حقائق سے کہیں زیادہ معتبر ہوتے ہیں“

ویب ڈیسک

قصہ گوئی انسانی تہذیبی ارتقا میں بنیادی کردار کی حامل ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں چیٹ بوٹس سب کچھ کر سکتے ہیں مگر قصہ نہ گھڑ سکتے ہیں، نہ سنا سکتے ہیں

ہم سبھی کہانیاں سناتے ہیں۔ غاروں کے دور سے لے کر ڈجیٹل عکس کے عہد تک، ہر سُو انسان نثر، نظم، گیت، رقص ہر شے میں کہانیاں سناتا نظر آتا ہے۔ انتھروپولیجی تو یہاں تک کہتی ہے کہ یہ کہانیاں ہمارے وجود کا جزوِ لاینفک ہیں۔ یہی وہ ہی کہانیاں ہیں، جن سے رابطے، مکالمے اور ادب کی بنیاد پڑی

یہ کہانیاں ہی ہیں، جو سماجی تمدن، مثالی ترقی اور انتباہی معلومات کے ذریعے انسانی نسلوں کو ثقافت اور علم منتقل کرتی چلی آ رہی ہیں

دنیا کی کوئی تہذیب ادب کی اس ابتدائی اور اولین قسم سے خالی نہیں ہے۔ داستانوں اور طرح طرح کی افسانوی کہانیوں کے سننے اور سنانے کی روایت بہت قدیم ہے، جس کے ذریعے قدیم داستانیں نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہیں، لیکن اس جدید دور میں تیز رفتار گلوبلائزیشن اور میڈیا کی یلغار کے سبب قصہ گوئی کی قدیم اور خوبصورت روایت تیزی سے مٹ رہی ہے۔ اس کے باوجود اب بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں، جو اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں

انہی میں سے بھارتی نژاد برطانوی قصہ گو چترا سندر بھی ہیں، وہ کہتی ہیں ”میرے خیال میں کہانی ہر طرف ہر جگہ ہے۔ کیوں کہ اشتہار کہانی ہے۔ کمرہِ جماعت میں بچوں کو کچھ سمجھانا کہانی ہے یا میں آج اسکول تاخیر سے کیوں پہنچی، یہ بتانا سب قصہ گوئی ہے، کیونکہ جتنا بہتر قصہ آپ سنائیں گے، اتنا ہی بہتر نتیجہ آپ کو ملے گا۔ ہمارے سیاستدان قصہ گو ہیں۔ وہ اچھا قصہ نہ سناتے تو منتخب نہ ہوتے‘‘

متنوع زبانی، تحریری، ڈجیٹل اور تصویری میڈیا میں قصہ گوئی بنیادی طور پر آواز اور جسمانی حرکات و سکنات سے صدیوں سے جاری ہے۔ قصہ گوئی میں صرف تحت الفظ نہیں بلکہ نظمیں، آواز کا اتار چڑھاؤ، گیت حتیٰ کہ رقص تک شامل ہوتا ہے

زمانہِ طالب علمی میں پہلی بار قصہ گوئی پر انعام جیتنے والی چترا سندر، جو اب بچوں کی کہانیاں لکھتی ہیں، کا کہنا ہے ”مجھ پر قصہ گوئی کی صلاحیت بچپن ہی میں منکشف ہوئی۔ میں کوئی چار یا پانچ برس کی ہوئی، تب سے قصہ گوئی سے جڑی ہوں۔ میرا پورا گھرانہ قصہ گو ہے۔ میری والدہ ڈرامہ رائٹر ہیں، میری نانی ہمیں بہت سی کہانیاں سنایا کرتی تھیں‘‘

چترا کسی دور میں اپنے گھر ٹھہرنے والے کزنز کو قصے سنایا کرتی تھیں، مگر اب وہ عموماً اسکولوں، کتب خانوں اور ادبی تقاریب میں بچوں کو قصے سناتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یوں کہانیوں کے ذریعے بچوں کو قدرتی مظاہر یا موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں مختلف طریقوں سے باخبر بنایا جا سکتا ہے

چترا سندر سمجھتی ہیں کہ ڈجٹل دور کی دوڑ دھوپ اپنی جگہ، مگر قصہ گوئی اپنی جگہ موجود ہے۔ تاہم قصہ گوئی کے طریقہ ہائے کار اب بدلتے جا رہے ہیں

چترا کہتی ہیں ”اینیمیشن قصہ گوئی ہے، اب یہ ایک دوسری ٹیکنالوجی کے استعمال سے کی جاتی ہے۔ ٹک ٹاک ہو، فیسبک ہو یا ہم کوئی خط لکھیں، یہ سب کہانیاں ہیں۔ ہم اب مختلف ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں، مگر قصہ گوئی اپنی جگہ قائم ہے۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close