گاڑی میں دم گھٹنے یا زیادہ سردی سے ہلاکتیں: بچنا کیسے ممکن؟

نیوز ڈیسک

گزشتہ تین روز سے مری، گلیات اور نتھیا گلی میں شدید برف باری کا سلسلہ جاری ہے، اور درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کئی درجے نیچے ہے۔

مری سمیت ملحقہ علاقوں میں شدید برفباری اور رش کے باعث کم از کم 22 افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے

ان میں سے زیادہ ہلاکتیں گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے افراد کی ہوئیں

سرد موسم اور برف باری کی وجہ سے سیاحوں کی بڑی تعداد نے مری، گلیات، نتھیا گلی اور ایسے دوسرے علاقوں کا رخ کیا ہے، جس کے باعث سڑکوں اور دوسرے راستوں پر ٹریفک جام کے واقعات رونما ہو رہے ہیں

مری اور ملحقہ علاقوں سے موصول ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سڑک کنارے بڑی تعداد میں گاڑیاں کھڑی ہیں، جن پر برف کی تہیں جمی ہوئی ہیں، ایسی ہی ایک گاڑی میں ایک خاندان کے کئی افراد کے ہلاک ہونے کا واقع بھی پیش آیا ہے

سردی میں موت کیسے واقع ہوتی ہے؟

انسانی جسم کا ایک مخصوص درجہ حرارت ہے، جس میں تمام نظام بخوبی کام کرتے ہیں، اور زندگی رواں دواں رہتی ہے۔

اس حوالے سے سرجن ڈاکٹر طارق رشید کا کہنا ہے کہ انسانی جسم اپنے اس درجہ حرارت میں ایک دو ڈگری کی کمی بیشی کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، تاہم زیادہ کم ہونے کی صورت میں مسائل جنم لیتے ہیں

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’سمجھ لیجیے کہ انسانی دماغ میں ایک تھرموسٹیٹ موجود ہے، جو جسم کے درجہ حرارت میں کمی کی صورت میں ایسے سسٹمز کو متحرک کر دیتا ہے، جو انسانی بدن کو گرمی فراہم کرتے ہیں۔‘

سرجن ڈاکٹر طارق رشید نے مزید کہا کہ زیادہ سردی کی صورت میں یہ تھرموسٹیٹ بار بار استعمال ہونے سے تھک جاتا ہے، جب کہ جسم میں گرمی پیدا کرنے والے نظام کی کارکردگی بھی متاثر ہونے لگتی ہے۔

’انسانی جسم کے خاص حد سے زیادہ وقت کے لیے شدید سردی یا انتہائی کم درجہ حرارت میں ایکسپوژر کی صورت میں تھرموسٹیٹ اور گرمی پیدا کرنے والا نظام کام چھوڑ دیتے ہیں، اور یہ وہ مقام ہے جو موت کی طرف جا سکتا ہے۔‘

ہائپو تھرمیا

انسانی جسم کے درجہ حرارت کے حد سے زیادہ کم ہونے کی حالت کو طب کی زبان میں ہائپوتھرمیا (Hypothermia) کہا جاتا ہے، جو ایک طبی ایمرجنسی ہے، جس میں جسم گرمی پیدا کرنے کی بجائے زیادہ تیزی سے گرمی کھونا شروع کر دیتا ہے اور جسم کا درجہ حرارت خطرناک حد تک کم ہو جاتا ہے

انسانی جسم کا عمومی درجہ حرارت تقریباً 98.6 ڈگری فارن ہائٹ (یا 37 ڈگری سیلسیس) ہے، جب کہ اس کے 95 ڈگری فارن ہائٹ یا 35 ڈگری سیلسیس تک گرنے کو ہائپو تھرمیا کہا جاتا ہے

امریکی تحقیقی ادارے مایو کلینک کے مطابق انسانی جسم کا درجہ حرارت گر جانے کی صورت میں دل، اعصابی نظام اور دیگر اعضا عام طور پر کام نہیں کر سکتے، اور اگر علاج نہ کیا جائے تو ہائپوتھرمیا دل اور نظام تنفس کی مکمل ناکامی اور آخرکار موت کا باعث بن سکتا ہے

ڈاکٹر طارق رشید کے مطابق ہائپو تھرمیا سے بچنے کا واحد حل ’جسم کو گرم رکھنا ہے، جب کہ اس کے لیے کوئی دوا موجود نہیں ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’انسانی جسم میں موجود تمام نظام ایک مربوط انداز میں کام کرتے ہیں، اور ہائپو تھرمیا کی صورت میں یہ سب ایک ایک کر کے یا اکٹھے بھی کام چھوڑ سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بہت زیادہ سردی لگنے کی صورت میں ہلکی پھلکی ورزش یا جاگنگ سے بھی جسم کے درجہ حرارت کو کسی حد تک زیادہ کیا جا سکتا ہے، تاہم یہ مستقل علاج نہیں ہے، اور چھوٹے بچوں یا بہت ضعیف افراد کے لیے ایسا کرنا ممکن بھی نہیں ہوتا۔

ہائپو تھرمیا سے کون متاثر ہوتا ہے؟

ڈاکٹر طارق رشید نے کہا کہ شدید سردی یا ہائیپو تھرمیا کی کنڈیشن سے زیادہ عمر کے لوگ زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں، جب کہ مختلف امراض میں مبتلا لوگوں کے لیے بھی یہ صورت حال جان لیوا ہو سکتی ہے۔

’بچوں اور بوڑھے افراد کو انتہائی کم درجہ حرارت میں بہت زیادہ وقت گزارنے سے گریز کرنا چاہیے اور کسی ایسی جگہ پر موجودگی کی صورت میں احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے۔‘

علامات

مایو کلینک کی ویب سائٹ کے مطابق جسم کا درجہ حرارت گرنے کی صورت میں اس کا پہلا ردعمل کپکپی کی صورت میں سامنے آتا ہے، جو سردی کے خلاف جسم کا خود کار دفاع ہے۔

ہائپوتھرمیا کی علامات میں کانپنے کے علاوہ بڑبڑانا، غیر واضح طریقے سے بولنا، سانس کا آہستہ آنا، کمزور نبض، غنودگی، الجھن یا یادداشت کی کمی وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ بچوں کی جلد کا سرخ اور چمک دار ہو جانا بھی ایک اہم علامت ہے۔

گاڑی میں ہلاکت کی وجوہات

مری اور دوسرے تفریحی مقامات پر رش کے باعث ہوٹلوں میں جگہ کم پڑ گئی جس کی وجہ سے سیاحوں کی بڑی تعداد نے گاڑیوں میں رات گزارنے پر مجبور ہو گئی

مری کے ایک علاقے میں گاڑی میں رات گزارنے والے ایک ہی خاندان کے سات افراد ہلاک ہو گئے

انجنئیرنگ ورکشاپ چلانے والے اعجاز حسین گاڑی میں موت کی وجوہات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اکثر لوگ گاڑی اسٹارٹ رکھتے ہیں، جس کے باعث دو چار گھنٹوں بعد اس کی بیٹری ڈاؤن ہونے لگتی ہے اور نتیجتاً گاڑی بند ہو جاتی ہے

’کوئی بھی گاڑی پوری طرح اتنی سیل یا ائیر ٹائٹ نہیں ہوتی کہ باہر سے ٹھنڈک اندر داخل نہ ہوسکے اور ہیٹر کے بند ہونے کے بعد اندر کی گرمی آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ گاڑی زیادہ دیر تک اسٹارٹ رہنے کی صورت میں پٹرول، ڈیزل یا سی این جی بھی ختم ہو جاتے ہیں، اور نتیجتاً گاڑی بند ہو جاتی ہے۔

اعجاز حسین نے کہا کہ شدید برف باری میں مری یا گلیات کا رخ کرنے والوں کو گاڑیاں فور بائی فور استعمال کرنا چاہیے اور ٹائروں پر زنجیروں کا چڑھایا جانا بھی کارآمد ہوتا ہے

انہوں نے مزید کہا کہ بڑی گاڑیاں لے جانے والوں کو اپنے ساتھ اضافی پٹرول یا ڈیزل رکھنا چاہیے تاکہ فیول ختم ہونے کی صورت میں انہیں تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے

بعض ماہرین کے مطابق شدید برف باری کی صورت میں اکثر گاڑیوں کے ایگزاسٹ پائپ (سائلنسر) بند ہو جاتے ہیں اور اسٹارٹ گاڑی میں پیدا ہونے والی کاربن مونو آکسائیڈ باہر کے بجائے اندر آنا شروع ہو جاتی ہے، جس سے گاڑی میں موجود افراد اگر غنودگی میں ہوں تو دم گھٹنے سے ان کی موت بھی موت واقع ہو سکتی ہے

سرد علاقوں میں جانے کی احتیاطی تدابیر

سیاح عام طور پر مری یا دوسرے سرد علاقوں میں برف باری سے لطف انداز ہونے کے لیے عام جوتے اور گرم کپڑے لے کر جاتے ہیں، جو ماہرین کے مطابق انتہائی کم درجہ حرارت کی صورت میں خطرناک حتیٰ کہ جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ٹریکنگ انسٹرکٹر فرحان عباسی کا کہنا تھا کہ پہاڑوں پر اور برف باری میں جانے کے لیے سب سے اہم چیزیں جوتے اور جیکٹس ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’برف باری میں جانے کے لیے واٹر پروف ہائیکنگ شوز کا ہونا بہت ضروری ہے، جب کہ ہر سیاح کو اپنے ساتھ مائنس درجہ حرارت میں استعمال ہونے والی ’ڈاؤن جیکٹ‘ (انسولیشن والی جیکٹ) ضرور رکھنا چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ہر سیاح کو ایک برساتی بھی ساتھ لے جانا چاہیے جو انہیں بارش یا برف باری کی صورت میں گیلا ہونے سے بچائے گی کیونکہ عام جیکٹ یا کوٹ ایسا نہیں کر سکتے

’آنکھوں کو دھوپ سے بچانے کے لیے سیاحوں کو کالے چشمے بھی استعمال کرنا چاہئیں کیوں کہ برف پر دھوپ منعکس ہوتی ہے اور انسانی آنکھ کو متاثر کر سکتی ہے۔‘

کوہ پیمائی سے متعلق الپائن کلب کے سربراہ کرار حیدری کا کہنا تھا کہ انتہائی کم درجہ حرارت کے علاقوں میں جانے والے ’سیاحوں کے لیے گرم اونی جرابیں استعمال کرنا ضروری ہیں، جب کہ ان کے جوتے واٹر پروف ہونا چاہئیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ جینز یا دوسری عام پتلونوں کی بجائے گرم کپڑوں کا استعمال کیا جانا چاہیے اور سر کو ٹوپی سے ڈھانپنا بھی ضروری ہے

انہوں نے کہا کہ بہت زیادہ عمر کے یا بیمار افراد کو شدید برف باری کی صورت میں مری اور گلیات جیسے علاقوں کا رخ نہیں کرنا چاہیے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close