ایک تصویر، ایک کہانی – 25

گل حسن کلمتی

کراچی میں بنی پتھر کی منفرد چمنیاں

آج کہانی ہے کراچی شہر میں بنی ہوئے پتھر کی چمنیوں کی، اس کہانی کے ساتھ بہت سی تصویریں بھی جڑی ہوئی ہیں۔

ماحولیاتی تحفظ کے پیش نظر یہ چمنیاں انگریز دور میں مختلف ورکشاپس اور فیکٹریوں میں بنائی گئی تھیں، تاکہ ورکشاپس یا فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں آبادیوں کو متاثر نہ کرے۔ اپنی کتاب ”ڪراچي: انگريز دور جون مشھور عمارتون“ پر کام شروع کیا تو مجھے اس طرح کی 16 پتھر کی چمنیوں کا پتا چلا. ان میں سے اب بھی آٹھ چمنیاں موجود ہیں، باقی سب ہم نے ختم کر دیں۔

سیویج چمنی Sewage Chimney:

پتھر کی بنی ہوئی یہ منفرد پتھر کی چمنی اب بھی موجود ہے۔ کراچی میں جب سیوریج / نکاسی کے لیے جدید سسٹم شروع کیا گیا، تو زیر زمین لوہے کے پائپ لائنوں کے ذریعے گندے پانی کی نکاسی کے لیے لیاری ندی کے ساتھ میوا شاہ قبرستان کے پاس سیویج Sewage Farm بنایا گیا. دوسرا چھوٹا فارم چنیسر خاصخیلی گوٹھ کے قریب بنایا گیا۔ یہ کام میونسپلٹی کے مشہور انجینئر اور آرکیٹیکٹ جیمس اسٹریچن کی نگرانی میں شروع ہوا ، اس نے گندے پانی کو لیاری ندی میں چھوڑنے کے بجائے ، اس کے لیے علیحدہ زمین حاصل کی، جو سیویج فارم عرف عام میں گٹر باغیچہ کے نام سے مشہور ہے۔
اس اسکیم کے لیے گھاس منڈی کے سامنے جمیلہ (بارنیس) اسٹریٹ اور ھر چند راء وشنداس روڈ (اب صدیق وھاب) روڈ کے سنگم پر ایک کمپریسر اسٹیشن (Compressor Station) بنایا گیا. بہت بڑی چار دیواری میں پتھر کی بہت خوبصورت عمارتیں تعمیر کی گئیں. پہلے کوئلے سے بعد میں ڈیزل سے چلنی والے ڈیزل انجن لگائے گئے ۔ یہ پتھر کے بنے کمرے اب بھی موجود ہیں . ڈیزل انجنوں کی جگہ اب بجلی سے چلنی والی موٹریں نصب ہیں۔ان انجنوں کے دھوئیں سے آبادیوں کو بچانے کے لیے پتھر کی ایک 150 فٹ لمبی چمنی بنائی گئی۔ یہاں پر کوئلے کو جمع کرنے کے لیے جو کمرہ بنایا گیا، وہ اب بھی موجود ہے. ایک بہت بڑا پانی کا ٹینک بنایا گیا جو اب بھی موجود ہے۔اسٹاف کے رہنے کے لیے کمرے بھی بنائے گئے۔ اس چار دیواری میں اب بھی برگد اور نیم کے بڑے بڑے درخت، جو انگریز دور میں لگائے گئے تھے، موجود ہیں۔

یہ چمنی 1904 تک 1855 میں بننے والے ھولی ٹرینٹی چرچ کے کلاک ٹاور لمبائی میں برابر تھی. 1904 میں جب طوفان کے خطرے کے پیش نظر چرچ کے دو اوپر والے حصے ختم کیے گئے، کلاک ٹاور کو 115 فٹ پر رکھا گیا تو سیویج چمنی کراچی کی سب اونچی چمنی تھی، جو دور دور سے دیکھائی دیتی تھی۔اس خوبصورت عمارت، چمنی اور باقی پتھر کی عمارتوں کو بچانے کی اور ان کی مرمت کی ضرورت ہے۔ یہاں موجود درختوں کی حفاظت بھی ضروری ہے

سیوریج کا پانی اب بھی اس سسٹم کے ذریعے لیاری ندی میں چھوڑا جا رہا ہے. میٹروپولٹن کے پاور فل میئروں، ناظموں کے باوجود گٹر باغیچے کے بہت سے حصے پر لیڈ مافیا نے قبضہ کیا ہے، جس کو بچانے کے لیے نثار بلوچ نے اپنی جان دی اور طاھر سواتی نے اپنی جوانی دی (یہ کہانی الگ سے دی جائے گی)

کے۔ایم۔سی ورکشاپ چمنی

ہمارے اکثر لکھاری ان دونوں چمنیوں کو ایک چمنی لکھتے ہیں، لیکن دراصل یہ دو الگ الگ ایک جیسی پتھر کی بنی ہوئی چمنیاں ہیں ۔ نیپیئر روڈ سے نگار سنیما سے رنچھوڑ لائین یا گارڈن کی جانب نکلنے والے روڈ لارنس روڈ (اب عبدالرب نشتر روڈ) پر دائیں ہاتھ پر اسی راستے سے نکلنے والی پلگرام سڑک کے سامنے کے۔ایم۔سے ورکشاپ کی انگریز دور کی بنائی ہوئی عمارتیں ہیں۔

اس ورکشاپ کا کام 1870 میں جیمس اسٹریچن کی نگرانی میں شروع ہوا۔ ورکشاپ میں لیتھ مشینوں اور دوسری مشنری کو چلانے کے لیے ڈیزل انجن لگائے گئے، (جن میں ایک دو بری حالت میں کچھ سال پہلے موجود تھے۔) جن سے نکلنے والے دھویں سے آبادی کو بچانے کے لیے یہاں پر اس طرح کی ایک پتھر کی چمنی بنائی گئی، جیسی سیویج کمپریسر اسٹیشن کی چمنی ہے۔

کے ایم سی ورکشاپ چمنی کی لمبائی 105 فٹ ہے۔جو اب بھی موجود ہے. کم ہی لوگوں کو پتا ہے کہ ان چمنیوں کا مقصد کیا ہے؟ کیونکہ بجلی اور ڈیزل انجن ختم ہوئے، تو چمنی کا مقصد بھی فوت ہوگیا. اس کو پھر رمضان میں سحری اور افطاری کے اوقات میں سائرن بجانے کے لیے استعمال کیا گیا ۔ 65 اور 71 کے جنگوں میں بھی خطرے کے وقت سائرن بجتے تھے، تو لوگوں نے سمجھا کہ یہ شاید اسی کام کے لیے بنائی گئی ہیں۔

این۔ای۔ڈی یونیورسٹی اولڈ کیمپس چمنی:

این ای ڈی اولڈ کیمپس جیمس اسٹریچن روڈ اب مولانا دین محمد وفائی روڈ مکنیکل اور سول ڈپارٹمنٹ میں بھی ایسی پتھر کی چمنی موجود ہے ،اس عمارت اور چمنی کو بھی کےایم۔سی انجینئر جیمس اسٹریچن نے 22-1921 ڈیزائن کیا تھا. اس کا بھی مقصد یہ تھا کہ یہاں مشنری کو چلانے کے لیے ڈیزل انجن لگے ہوئے تھے ، ماحول کو اس دھویں سے بچانے کے لیے یہ چمنی بنائی گئی تھی ، جو اب بھی بہتر حالت میں موجود ہے ، جس کی مرمت ، تزئین و آرائش کی گئی ہے۔

کیاماڑی برتھ 8 اور برتھ 17 (گھاس بندر) کی پتھر کی چمنیاں:

برتھ آٹھ پر 1895 میں کرینوں کو چلانے کے لیے پاور ہاؤس بنایا گیا، جہاں تک ریلوے لائین بھی جاتی تھی پتھر کے بنے ہوئے اس پاور ہاؤس پر کلاک ٹاور بھی ہے، جو بال کلاک ٹاور کے نام سے مشہور ہے۔ اس پاور ہاؤس کے ساتھ پتھر کی ایسے ہی چمنی ہے، جن کا ذکر اوپر کر کے آیا ہوں ۔ کیاماڑی میں برتھ 17 میں بھی پاؤر ہاؤس ہے، جس کے ساتھ بھی پتھر کی بنی ہوئی چمنی ہے۔
یہ سب چمنیاں ایک ہی طرز کی ہیں، کیونکہ ان کو ایک ہی انجینئر جیمس اسٹریچن نے ڈیزائن کیا تھا۔ کیاماڑی میں بھی یہ چمنیاں اسی مقصد کے لیے بنائی گئی تھیں تاکہ کوئلے اور ڈیزل پر چلنے والے انجنوں کا دھواں ماحول کو متاثر نہ کرے۔

دیگر چمنیاں

ان چمنیوں کے علاوہ ماڑیپور میں خورشید ھومی سالٹ ورکس کے عمارت کی چمنی ، فیکٹری تو کب کی بند ہوچکی ہے، لیکن کچھ سال پہلے جب میں گیا تھا، تو پتھر کی بنی ہوئی چمنی اور ایک بڑا پتھر کا بنا ہوا کمرا موجود تھا۔

ڈملوٹی واٹر ورکس کے پانی کے کنوئیں کے ساتھ کنواں نمبر چھ اور سات میں پتھر کی چمنیاں ہیں، لیکن یہ چھوٹی ہیں۔

ان کے علاوہ جن فیکٹریوں میں ایسی چمنیاں لگی ہوئی تھیں ، جو اب موجود نہیں ہیں، اب ان چمنیوں کا درشن تصویروں میں ہوتا ہے، ان میں ڈالمیا سیمنٹ فیکٹری کی چمنی، گٹیش کوپرا مل فیکٹری کی چمنی، کراچی اسٹیم فلور مل لارنس روڈ کی چمنی، دی انڈیا فلور مل لارنس روڈ، سندھ فلور مل لارنس روڈ، گوا فلور مل گارڈن کی چمنیاں مشہور تھیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ جو چمنیاں موجود ہیں انہیں بچانے اور محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کیے جائیں، کیونکہ ،یہ ہماری تاریخ ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close