ایک لات نے مجھے منجی سے نیچے ہی نہیں گرایا بلکہ سوہنے خوابوں کی دنیا سے کریہہ حقیقتوں کی دنیا میں لا پھینکا. میں جلدی سے اپنی پیٹھ سہلاتا اور لنگڑاتا ہوا اپنی بوری اٹھا کر گھر سے بھاگ نکلا. روٹی تو ویسے بھی ملنی نہیں تھی، کیا فائدہ تھا خالی پیٹ گالی سننے کا… میں گھر سے تھوڑی دور جا کر نالی پر بیٹھ کر فارغ ہوا. کل دن سے خالی پیٹ عجیب عجیب آوازیں نکال رہا تھا.
کالی میا کی کوشش ہوتی تھی کہ ابا کے اٹھنے سے پہلے ہی مجھے گھر سے نکال دے. وہ تو مجھے لات بھی منہ ڈھک کر مارتی تھی تا کہ میری نیستی شکل دیکھ کر اس کا دن نہ
منحوس گزرے۔ ابا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ مجھے کھانا ملتا ہے یا نہیں، کیونکہ ابا نے تو اپنی دانست میں اماں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی دفنا دیا تھا.
اب اس بھری دنیا میں میری واحد ہمدرد اماں کی سہیلی ماسی تاجاں تھی، جو اگلی گلی کی چوتھی کھولی میں رہتی تھی۔ ماسی تاجاں کی کھولی پہ رک کر میں نے ٹاٹ کے بوسیدہ جھولتے پردے کے ادھر سے ڈرتے ڈرتے آواز لگائی ”سلام ماسی…“
دل میں دعا یہی تھی کہ چاچا کبڑا آنگن میں نہ ہو، ورنہ تو روٹی کے ساتھ گالی اور ٹھڈے بھی لازمی تھے. آواز سنتے ہی ماسی نے جلدی سے ایک روٹی پر چٹکی بھر کھانڈ چھڑک کر مجھے پکڑا دی اور ساتھ ہی ہشکارا بھی دیا. وہ بیچاری بھی کیا کرے، کبڑا چچا دیکھ لیتا تو اس کی بھی شامت آ جاتی.
اب سے چھ مہینے پہلے تک میرے یہ دن رات نہ تھے. میں اسکول بھی جاتا تھا اور جھوٹا موٹا ہی سہی، تین وقت کھانا بھی کھاتا تھا. لاڈ اٹھانے کو اماں بھی تھی…
ابا کو اللہ جانے مجھ سے اور اماں سے کاہے کی خنس تھی کہ گالی اور جوتے کے علاوہ بات ہی نہیں کرتا تھا. میری اماں دبلی پتلی، پیلے رنگ کی مدقوق سی عورت تھی، جس کے چہرے پر چیچک کے داغ بھی تھے. دنیا کے لیے اس کی شکل جیسی بھی ہو، میری تو ماں تھی، جنت تھی. اس نے اپنی ساری توانائی اور جوانی ابا کی خدمت اور اس کے گھر کو سنوارنے پر وار دی تھی. وقت سے پہلے ہی پرچھائی ہو گئی اور بدلے میں حقدار ٹھہری تھی گالی اور لات کی… کیا گھور اندھیرے جیسی قسمت پائی تھی اماں نے بھی..
ابا کباڑیا تھا اور اچھا کماتا تھا. گھر میں اس کا کھانا الگ پکتا تھا، وہ ہفتے میں دو دن گوشت کھاتا تھا. ایک دن مرغی اور ایک دن چھوٹے کا گوشت. اماں اور میں روکھی سوکھی کھاتے تھے. روٹی، کبھی تو سبزی یا کبھی اچار کے ساتھ ہوتی، پر کھاتے پیٹ بھر کر تھے. اماں سے میں نے کئی بار پوچھا کہ ابا آخر اتنا غصہ کیوں کرتا ہے ؟ مگر اماں بس آنکھیں پونچھ کے رہ جاتی، جواب کبھی نہ دیا.
ہمارے گھر کبھی کوئی نہیں آیا گیا. نہ کوئی ابا کا رشتہ دار اور نہ ہی کبھی کوئی اماں کا پرسانِ حال.. مجھے اماں کا پیار میسر تھا، دوست کے نام پر ماسی تاجاں کا بیٹا فیضو تھا اور کیا چاہیے ہوتا ہے زندگی کرنے کے لئے…
ابا کا غصہ، گالی گلوچ اور اس کا اماں کو مارنا میرے لئے ناقابل برداشت تھا. ابا کے خلاف میرے دل میں نفرت دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی. خاص کر جب وہ اماں کو مارتا تھا تو میرا دل چاہتا تھا کہ ایک بھاری پتھر اٹھا کر اس کا سر کچل دوں۔ کبھی کبھی تو میں باوجود اپنی ناتواں جان کے، اماں کو بچانے کی بھرپور کوشش بھی کرتا اور اماں کے لیے اس ہمدردی کی پاداش میں ابا سے چار چوٹ کی مار بھی کھاتا، بعد میں اماں روتی جاتی اور میری چوٹوں کی سکائی کرتی جاتی. ابا نشہ بھی کرتا تھا. میں دل ہی دل میں دعا کرتا تھا کہ ابا کام کے لئے نکلے، تو کسی ٹرک کے نیچے آ جائے.
ایک دن ابا، اماں کو مار پیٹ کر بَکتا جَھکتا گھر سے نکل گیا تو میں نے اماں کو سہارا دے کر پلنگ پر بٹھایا اور اس کو پانی کا گلاس پکڑاتے ہوئے یہی ٹرک والی بات دہرا دی. اماں کو تو مانو بچھو نے ڈنک مار دیا ہو. ان برے حالوں میں بھی اس نے مجھے تین چار مکے جڑ دیئے اور تین دن تک مجھ سے ناراض رہی. ابا تو خیر سمجھ میں آتا ہی نہ تھا، پر اماں کا بھی کیا بولوں، اسی سے پٹتی تھی اور اسی کے جینے کی دعا مانگتی تھی ۔ ماں بھی میری کوئی وکھری ٹئیپ تھی…
جاتی سردیوں کے دن تھے، میں اسکول سے آیا تو جی ماندہ تھا. کھانا بھی نہیں کھایا اور سو گیا. شام میں اٹھا تو اماں بےکل تھی. جب تک مجھے کھانا نہیں کھلا لیا، اس کو قرار نہ آیا. ابھی میں رکابی رکھ کر صحن میں لگے ہینڈ پمپ پہ منہ دھو ہی رہا تھا کہ ابا اندر داخل ہوا، تیور بہت ہی بگڑے ہوئے تھے. میں تو جلدی سے اندر کوٹھری میں دبک گیا. اماں نے دسترخوان بچھایا اور کھانا لگا دیا
آج کھانے میں چھوٹا گوشت تھا. ابا نے پہلا نوالہ ہی منہ رکھا اور لگا کہ اس کو جن چمٹ گئے ہیں۔ رکابی دیوار پر دے ماری اور اٹھ کر اماں کو پیٹنا شروع کر دیا، پھر اماں کو زور سے دھکا دیا اماں صحن میں لگے ہینڈ پمپ سے ٹکرائی اور وہیں ساکت ہو گئی… میں اماں اماں چیختا ہوا اماں کی طرف لپکا تو، مگر شاید راستے میں ہی چکرا کر گر گیا…
مجھے ہوش آیا تو ماسی تاجاں میرے سر پر گیلی پٹی رکھ رہی تھی. میں نے روتے ہوئے اماں کو پکارنا شروع کر دیا تو ماسی مجھے گلے لگا کر رو پڑی اور بولی ”جھلیا ماں اب بہت سکون سے ہے… تو اس کو رو رو کر پریشان نہ کر.“ میرے آنسو وہیں جم گئے…
مگر نہیں وہ جمے کہاں؟
وہ تو اندر گرنا شروع ہو گئے اور پھر کبھی رکے ہی نہیں… میرا اندروں اندر جھل تھل ہو گیا…
ماسی بتاتی ہے کہ میرے تین دن اسی ہوش و بے ہوشی میں گزر گئے. ابا سے کسی نے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی. نا کسی نے تھانے میں نالش لکھوائی اور نہ ہی پولیس آئی. اماں مرن جوگی، جیسے خاموشی سے جیتی تھی، ویسے ہی چپتے چپاتے حیاتی بھی ہار گئی. نہ کوئی رولا نہ واویلا..
ابا، اماں کو دفنا کے، ماسی کے ہاتھوں پر میرے لئے چند روپے رکھ کر گاؤں روانہ ہو گیا. ماسی نے مجھے بتایا کہ ابا صادق آباد سے آگے ایک گاؤں ہے شمیم آباد ، وہاں کا رہائشی تھا اور وہیں سے کراچی آیا تھا. اماں ابا کی ماموں زاد بہن تھی. ماموں نے مرتے وقت اپنی دِھی رانی کا ہاتھ بہن کے ہاتھوں میں دے دیا اور ساتھ ہی زمین کا ایک چھوٹا سا زرخیز ٹکڑا بھی. ابا اس قطعہ زمین سے تو خوب فیض یاب ہوا پر والیِ زمین کو مٹی ہی میں رول دیا. ماسی نے بتایا کہ ابا اماں سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا کہ اماں بہت دبلی پتلی تھی اور کم صورت تھی ابا گاؤں کی ایک مٹیارن پر دل ہارے بیٹھا تھا اور دونوں کے درمیان قول و قرار بھی ہو چکے تھے، پر دادی نے سیاپا ہی پا دیا. دادی کی زور زبردستی سے زیادہ زور آور اور پرکشش وہ زمین کا زرخیز ٹکڑا تھا، جس نے وقتی طور پر ہی سہی، مگر مٹیارن کو کنارے لگا دیا تھا. اس زر اور زن کے تول میں زر اپنا سنہرا پھریرا لہراتا ہوا جیت گیا تھا۔ وہ زرخیز زمین کا ٹکڑا اماں کی خوشیاں اور ساری شادابی نگل گیا. اماں کے جذبات کے لیے وہ ٹکڑا ہمشہ شور زدہ زمین ہی رہا. ناکارہ اور بےفیض…
ابا کی بےوفائی پر مٹیارن بھی طیش میں آ گئی اور اگلے ہی ہفتے اس نے چودھری کے منہ چڑھے ملازم شیرا سے بیاہ رچا لیا. ان حالات میں ابا کے لئے گاؤں میں رہنا دوبھر ہو گیا، سو اس نے سب کچھ بیچ باچ کر شہر کی شاہراہ پکڑی. شہر تو شہر صوبہ ہی چھوڑ کر کراچی پہنچ گیا. فیوچر کالونی میں کھولی کرائے پر لی اور ٹین ڈبوں کی ریڑھی لے کر نئے سرے سے زندگی شروع کی.
طبیعت کا غصہ تھا یا جانے کیا؟
نہ دن کو دن سمجھا اور نہ رات کو رات، بس محنت اور کام ہی اس کا دین اور ایمان بن گئے تھے. دو سال کے اندر اندر اپنی دکان پھر اگلے چند سالوں میں اپنی کھولی بھی بنا لی. پر مزاج کی کڑواہٹ کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی گئی. اماں کو دیکھ کر اس کو غصہ چڑھتا تھا، جیسے جنون ہو جائے. میرا وجود بھی اس کے جہنم کی تپش کو سرد نہیں کر سکا. اس نے مجھے کبھی اپنایا ہی نہیں، مجھے بھی اماں کے کھاتے میں شامل کرکے اپنی نفرت کا حدف بنا لیا. اسی زہر آلود ماحول میں میں نو سال کا ہو گیا تھا.
اب میری بالکل سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اماں کے بغیر زندگی کا رنگ ڈھنگ کیا ہوگا؟
زندگی کیسے بسر ہوگی؟ میں ماسی اور فیضو کے ساتھ اماں کی قبر سے ہو آیا تھا. سچ تو یہ ہے کہ واپس آنے کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا. میرا جی کر رہا تھا کہ وہیں اماں کی پائینتی کوئی مجھے بھی مٹی میں دبا دے اور میں سکون کی میٹھی نیند سو جاؤں. زندگی کا بوجھ میری بساط اور برداشت سے بہت زیادہ تھا.
ابا کو گئے آج چھٹا دن تھا. اب کبڑے چچا نے بھی اپنی ناراضگی کا اظہار شروع کر دیا تھا. سہ پہر کا وقت تھا، ابھی عصر کی اذانیں شروع نہیں ہوئیں تھیں. ماسی تاجاں منجی پر سوکھنے کے لئے ڈالے ہوئے پاپڑ سمیٹ رہی تھی کہ فیضو آندھی کا بگولا بنا گھر میں داخل ہوا اور چیخ کر بولا ”تیرا ابا ابھی ابھی پہنچا ہے اور اس کے ساتھ تیری کالی میا بھی ہے.“
میرا رنگ پیلا پڑ گیا اور میں پورے جسم سے کانپنے لگا. مجھے ماسی نے بتایا تھا کہ مٹیارن کا خصم چوہدری کے مخالفین کے ہاتھوں پچھلے برس بسنت میلے میں مارا گیا ہے. تب سے ابا کا گاؤں کا پھیرا بہت بڑھ گیا تھا. اور اب ابا اس کالی ماتا کو لے آیا تھا، گویا میری قربانی پکی تھی. اس رات تو نہیں، پر اگلے دن صبح سویرے ماسی تاجاں مجھے میرے گھر پہنچا گئی . ابا نے مجھے سر سے پیر تک گھورا اور کہا کہ ”بندے دا پتر بن کر رہئں.“
کالی میا صرف گھورتی رہی. دوپہر اور رات کو اس نے روٹی بھی دی. ابا آج کام پر نہیں گیا تھا. دوسری صبح سویرے سویرے کالی میا نے منجی کو لات مار کر مجھے جگایا اور بورا پکڑاتے ہوئے کہا ”یہاں مفت کی روٹی نہیں ملتی. بھوسی ٹکڑ چن کر لا، پھر روٹی حلال کر.“
پھر میری زندگی اسی مشقت بھری ڈگر پر چل پڑی، اماں کا لاڈلا، جس کو اماں لال صابن سے مل مل کے نہلاتی تھی، سر پر خوشبو دار تیل چپڑتی تھی اور وہ بچہ جس کا یونی فارم ہر دوسرے دن دھلتا تھا، وہ بچہ اب پہچان میں نہ آتا تھا. موٹا تو میں کبھی نہ تھا، پر اب پوری 206 ہڈیاں گن لو. پچھلے ہفتے جب چاچا کبڑا گھر پر نہیں تھا، تو ماسی تاجاں نے مجھے اپنی کھولی میں بلا کر نہانے کا کہا اور میرے غلیظ کپڑے دھوئے.
ابا کسی کام سے دوسرے شہر گیا ہوا تھا، میری آنکھ سویرے ہی کھل گئی تھی. میں گھر سے بوری لے کر نکل ہی رہا تھا کہ میری شامت نے مجھے آواز دی اور میں دبے پاؤں باورچی خانے میں گھس گیا. چنگیر سے روٹی اٹھا کر پلٹا ہی تھا کے کالی میا کو دروازے پر کمر پر ہاتھ رکھے کھڑا پایا. اس کی آنکھوں میں فاتحانہ چمک تھی، جیسے اسے اسی موقعے کا انتظار ہو، بس پھر کیا تھا اس نے بے تحاشا اپنے ہاتھوں اور ٹھڈوں کا استعمال کیا، پر میری دلخراش چیخوں کے جواب میں کوئی نہ آیا. کون آتا، محلے والے اب اس شور شرابے کے عادی ہو چکے تھے. یوں بھی ایک لاوارث بچے سے کس کو ہمدردی ہونی
تھی۔ اس نے میرے دونوں ہاتھوں کو صحن میں پڑی منجی کے پائے سے باندھ دیا اور کہا ”آنے دے اپنے باپ کو… تیری ہڈیوں کا سرمہ نہ بنوایا تو میرا نام نہیں… پھر میں تیرا کلیجہ بھون کے کھا جاؤں گی.“
کالی میا بڑی سچی تھی جو کہتی تھی وہ کرتی بھی تھی. اماں کی طرح جھوٹی نہیں کہ میری شرارت پر مجھے دھمکائے، مگر میرے ایک ہی آنسو پر ساری ڈانٹ بھول کر میرے واری صدقے جانے لگے.. اماں اب اتنی بےمروت ہو گئی تھی کہ میری ہزار آہوں اور سسکیوں پر بھی نہیں آتی تھی، میرے بھوکے پیٹ کی گڑگڑاہٹ بھی اس کو بلانے میں ناکام رہتی تھی. بس کبھی کبھار راتوں میں خالی پیٹ سوتے ہوئے ایک سایہ سا سرسراتا محسوس ہوتا تھا.
مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا، مجھے یقین تھا کہ ابا مجھے نہیں چھوڑے گا. روتے روتے میرا گلہ بیٹھ چکا تھا. گرمی کی شدت سے میری چندیا پگھل رہی تھی اور پیاس سے دم حلق میں تھا. گرمی کی شدت سے گھبرا کر کالی میا کوٹھری کے اندر پڑی تھی. دیوار سے فیضو نے جھانکا، پھر وہ دبے پاؤں صحن میں کودا اور میرے ہاتھوں کو آزاد کر دیا. وہ تیزی سے بیرونی دروازے کی طرف لپکا اور میں بھی اپنے مضروب جسم کو گھسیٹتا اپنی پوری جان لگا کر صحن پار کر گیا. تھوڑی دور بھاگ کر میں بے دم ہو کر گر گیا. فیضو مجھے دیوار کی آڑ میں بٹھا کر گھر سے کچھ کھانے پینے کو لانے دوڑ گیا.
فیضو نے مجھے پانی پلایا اور روٹی کو بھی پانی میں بھگو بھگو کر میرے منہ میں ڈالتا چلا گیا. تھوڑی دیر کے بعد ماسی تاجاں گرم ہلدی والا دودھ لے کر آئی اور دودھ پی کر میری جان میں جان آئی. ماسی کے پاس ایک جھولا تھا. ماسی نے وہ جھولا مجھے پکڑا یا اور کہا ”پتر تو بھاگ جا، تو عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حاضری دے اور وہیں رہ جائیں.. اب لوٹ کر نہ آئیں، یہ ڈائن تجھے نہیں چھوڑے گی.
جا شاباش ہے پترا بھاگ…“
ماسی نے مجھے کچھ مڑے تڑے نوٹ بھی پکڑائے، میں فیضو کے گلے لگا، ماسی نے سر پر پیار کیا اور میں لنگڑاتا ہوا اسٹاپ کی طرف چل پڑا. بس اسٹاپ تک مجھ پر ابا کی دہشت سوار تھی کہ کہیں وہ نہ آ جائے اور میں پکڑا جاؤں.
مغرب کے قریب میں درگاہ پر پہنچا، وہاں کھوا سے کھوا چھل رہا تھا. بے پناہ رش، میں نے اتنی روشنی اور اتنے لوگ اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھے تھے. میں سیڑھیوں کے پاس ایک کنارے سکڑ سمٹ کر بیٹھ گیا. رات گہری ہوئی تو مزار سے رش چھٹنے لگا اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب میں کیا کروں؟ اتنے میں لڑکوں کا ایک غول میری طرف بڑھا اور ایک لڑکے نے میرا تھیلا اچک لیا. میں بےساختہ اپنے سر کو بچاتے ہوئے زمین پر گر کر چیخ چیخ کر رونے لگا اور کبھی اماں کو کبھی اللہ کو پکارنے لگا.
وہ سب ہنسنے لگے اور ایک لڑکا مجھے پیر سے ٹھوکر مارتے ہوئے ”سالا پَھٹُو“ کہتا ہوا چلا گیا.
جب میں رو رو کر تھک گیا تو خود ہی اٹھ کر بیٹھ گیا. اب میں بالکل قلاش تھا، ماسی تاجاں کا دیا ہوا تھیلا اور تھوڑے سے پیسے سب کچھ گنوا چکا تھا. میرا جسم بری طرح دکھ رہا تھا اور پنڈا بھی گرم تھا. میں لڑکھڑاتے ہوئے اٹھا کہ پانی پی لوں مگر شاید میں چکرا کر گر گیا تھا. جب میری آنکھیں کھلیں تو صبح کی روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور سمندر کی نمکین ہوا آہستگی سے چل رہی تھی اور اس کی نرم روی بالکل اماں کی تھپکی کی طرح جسم کو تھپکتی محسوس ہوئی اور میں کروٹ بدل کر پھر سو گیا. کسی نے مجھے جھنجھوڑ کر اٹھایا، سورج خوب اوپر آ چکا تھا اور دن گرم تھا. وہ رات والا لمبا لڑکا میرے سامنے کھڑا تھا، اس کے ہاتھوں میں ایک مٹی کی کلے میں چائے اور بن تھا. میں مربھکوں کی طرح وہ سب چٹ کر گیا.
اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا لفڑا ہے؟ تو گھر سے کیوں بھاگا ہے رے؟
میں نے مختصراً اس کو اپنی کہانی سنا دی.
کہنے لگا ”فکرچ نئی کر.. اب تو ہمارا آدمی ہے.“
اس طرح میں سلو استاد کے گروپ میں شامل ہو گیا. یہ دس بارہ سال سے لے کر سترہ اٹھارہ سال تک کے چار لڑکوں کا گروپ تھا، جس کا میں پانچواں ممبر تھا. سب مزار کے ہی احاطے میں رہتے تھے اور مختلف کام کرتے تھے. سلو استاد نے مجھے جوتوں کے ٹوکن والے چاچا کرمو کے ساتھ نتھی کر دیا. کھانا دونوں وقت کا لنگر سے تھا، پر صبح کا ناشتہ اپنی جیب سے..
میرا ڈر اب خاصہ کم ہو چکا تھا اور زندگی ایک ڈھرے پر آ چکی تھی. یاد کرنے کے لیے کوئی تھا ہی نہیں۔ کبھی کبھی ماسی تاجاں اور فیضو یاد آ جاتے. جس رات میں بہت بےچین ہوتا، تو وہ سرسراتا ہوا سایہ بھی کچھ دیر کے لئے آ جاتا.
یہاں سب کی اپنی اپنی کہانی تھی. شقو، اکبر اور شنکر کی کہانیاں بھی مجھ جیسی ہی تھیں. شقو کا باپ مر گیا تھا، ماں نے دوسری شادی کی تو سوتیلا باپ شقو کے حق میں قصائی ثابت ہوا۔ اکبر کا باپ نشئی تھا، سو اکبر جب بھوکا رہ رہ کر عاجز آ گیا تو وہ خود ہی گھر سے بھاگ کر مزار پر آ گیا. سب سے عجیب کہانی تو شنکر کی تھی. شنکر کا باپ میونسپلٹی میں جمعدار تھا. ماں بھی لوگوں کے گھروں میں جھاڑو پونچھا کرتی تھی. ماں باپ شنکر سے پیار بھی کرتے تھے، مگر شنکر کو ”چُوڑا“ کہلوانا پسند نہیں تھا. اس لیے وہ گھر چھوڑ کر یہاں آ گیا. سب ایک دوسرے کے ماضی سے آگاہ تھے، بلکہ سب کے خواب بھی ایک دوسرے کو ازبر تھے. شقو کو پڑھنے کا شوق تھا اور وہ افسری کے خواب دیکھتا تھا. اکبرا ہیرو بننے کی آرزو میں مبتلا تھا. ہم سب میں شنکر سب سے زیادہ پڑھا لکھا تھا، آٹھویں پاس..
اس کو استاد بننے کا بہت شوق تھا.
بس ایک سلو استاد تھا ، جس کے نہ ماضی سے کوئی آگاہ تھا اور نہ ہی کوئی اس کے خوابوں کا رازداں. سلو استاد منہ سے کم اور ہاتھوں سے زیادہ بات کرتا تھا، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس کی وجہ سے ہم چاروں جسم فروشی، نشے اور نشئیوں سب سے محفوظ تھے. سلو استاد ہم سب پر کڑی نظر رکھتا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ہماری ڈھال بھی تھا.
میرا کوئی خواب نہیں تھا، مگر میرا دل چاہتا تھا کہ میں ابا سے اماں کے خون کا بدلہ لوں. شاید اسی انتقام کے جذبے نے میرے مزاج میں غصہ اور میرے دبلے پتلے جسم میں بہت طاقت بھر دی تھی. میں اپنی عمر سے بھی بڑے لڑکوں سے بھڑ جاتا تھا، اسی لیے دو سال کے اندر اندر میں سلو استاد کا دست راست بن گیا.
جوتوں کی ٹوکن والی نوکری سے میرا جی اوب گیا تھا. سلو استاد نے مجھے مزار کے قریب والے گیراج میں لگوا دیا. یہ نوکری میرے جی کو خوب لگی اور میں موٹر کے کل پرزوں سے خوب کھیلنے لگا. یہاں مزار پر مجھے تقریباً پانچ سال ہو چلے تھے. اب ہم پانچوں ہی ایک دوسرے کا خاندان اور دکھ سکھ کے شریک تھے. شنکر نے میڑک پاس کر لیا تھا اور وہ مزار اور مزار کے اطراف کے سارے بچوں کا استاد بن گیا تھا. شنکر سادھو سنت آدمی تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں سب کے لیے درد رکھ دیا تھا. شقو ، شنکر کا سب سے ذہین شاگرد تھا. اکبر کو کہاں کوئی ایکٹنگ کا چانس ملنا تھا! سو وہ رات میں اپنی نوٹنکی دکھا کر ہم لوگوں کا دل خوش کر دیا کرتا تھا.
آج کل گیراج کے پاس پرانے پیپل والے کھوہ میں ایک سفید کتیا اپنے چار بچوں کے ساتھ پناہ گزین تھی. جانے میرے دل میں کیا سمائی کہ میں اس کو روٹی ڈالنے لگا. پہلے پہل تو اس نے مجھے شک کی نظروں سے دیکھا. میرے قریب
آنے پر غرائی پر شاید جانورں میں باطن کو پرکھنے کی صلاحیت ہم انسانوں سے زیادہ ہوتی ہے. اس نے مجھ پر اعتبار کر لیا اور آرام سے میرا ڈالا ہوا کھانا کھانے لگی، بلکہ اب تو یہ عالم تھا کہ بچوں کو میری نگرانی میں چھوڑ کر گھنٹے ڈیڑھ کے لیے کہیں غائب بھی ہو جاتی تھی. جب میں ڈانٹتا کہ اتنی دیر کیوں کی؟
تو چپکے سے اپنی تھوتھنی میرے پیروں پر رکھ کر میرے پیر چاٹتی. شقو لنگر سے ہم سب کا کھانا لانے کی ڈیوٹی پر مامور تھا، جب اس نے موتی (میں نے کتیا کا نام موتی رکھ دیا تھا) کو دیکھا تو اس کے لئے بچی کھچی ہڈیاں بھی لانے لگا. بلکہ اب موتی اور اس کے بچے ہم سب کی مشترکہ دلچسپی اور ذمہ داری بن گئے تھے. جب وہ اپنے بچوں کو باری باری الٹ پلٹ کر چاٹتی تو مجھے بے اختیار اماں کا، مجھے لال صابن سے نہلانا یاد آ جاتا. میں گیراج میں کام ختم کرنے کے بعد بھی دیر تک موتی کے ساتھ بیٹھتا اور اس سے اور اس کے بچوں سے کھیلتا رہتا. میرے کھانے میں اگر کبھی کوئی بوٹی آ جاتی تو وہ موتی کے لئے بچا کے رکھ لیتا اور اب ناشتے میں، میں نے ملباری سے ایک گلاس دودھ بھی لینا شروع کر دیا تھا موتی کے لیے. موتی کے میری زندگی میں شامل ہونے کے بعد سے، خدا سے میرے گلے شکوے بہت کم ہو گئے تھے اور میں پھر سے جینے لگا تھا. موتی واحد تھی جو اس بھری دنیا میں صرف میری تھی. موتی بھی میرے واری صدقے جاتی اور اس کی دم مجھے دیکھ کر پھرکی کی طرح ہلتی. میں اس سے اماں کی باتیں کرتا اور وہ میری ساری باتیں سمجھ جاتی. مجھے اداس دیکھ کر اپنا منہ میری گود میں رکھ دیتی، جیسے مجھے دلاسا دے رہی ہو. اس کی بے زبان ہمدردی میرے دل کا مرہم بن گئی تھی اور موتی نے میری دنیا مکمل کر دی تھی.
جب بارش ہوتی تو میں پلاسٹک کی شیٹ لے کر ان سب کو سمیٹ کر بیٹھ جاتا. استاد کا خیال تھا کہ میں چریا ہو گیا ہوں مگر میں سب سے بےنیاز موتی کی محبت میں گم تھا. پیسے بچا کر میں نے موتی کے لیے ایک خوبصورت چمڑے کا پٹہ خریدا تھا۔ سلو استاد نے مجھے بہت ڈانٹا کہ میں نے اپنے لئے کپڑوں کا جوڑا کیوں نہیں لیا؟
واقعی میرے کپڑے بوسیدہ ہو گئے تھے مگر مجھے جو خوشی موتی کو پٹہ پہنا کر حاصل ہوئی تھی، وہ مجھے نیا جوڑا پہن کر کبھی بھی حاصل نہ ہوتی. اب سردیاں شروع ہو گئی تھیں، اس لیے میں اپنا لحاف لے کر موتی اور اس کے بچوں کے پاس آ جاتا اور ہم سب گرما کر سکون سے سو جاتے. موتی کے بچے بڑے ہو گئے اور چاروں ادھر ادھر چلے گئے. موتی کچھ دن تو اداس رہی پھر بہل گئی. اس کا مجھ سے پیار اور بڑھ گیا تھا. مجھے موتی کے قرب سے ویسا ہی سکون ملتا، جیسا اماں کے ساتھ میں تھا کہ اس کی قربت میں تحفظ اور پناہ تھی.
مجھے یاد ہے، وہ عرس کا دن تھا اور اس وجہ سے گیراج بند تھا ۔ سلو استاد نے مجھے مزار پر رش کی زیادتی کی بنا پر جوتوں کے ٹوکن پر کرمو چاچا کے ساتھ بٹھا دیا تھا. اس دن اس قدر بھیڑ تھی کہ مجھے کھانا کھانے کا موقع بھی نہیں ملا تھا. مجھے اپنی بھوک کی تو پروا نہیں تھی پر مجھے موتی کی بھوک تڑپا رہی تھی. سارا دن گزر گیا، عرس کی وجہ سے رات میں دن سے بھی زیادہ ہجوم تھا. مغرب کے بعد شقو میرے لئے کھانا لے کر آیا. میں نے اس سے بےتابی سے موتی کا پوچھا. شقو نے کہا کہ وہ کوشش کرتا ہے کہ موتی کو کچھ دے آئے. رات دو بجے میرا تھکن سے برا حال تھا، پھر میں نے چاچا کرمو سے کہا کہ بس، اب میں اور نہیں بیٹھ سکتا. اس نے کہا کہ ہاں اب تو جا، میں اکیلا سنبھال لوں گا.
ابھی میں مزار کے بڑے دروازے کے قریب ہی پہنچا تھا کہ میں نے شقو اور شنکر کو گیراج کی طرف بھاگتے دیکھا. میرے ذہن میں پہلا خیال موتی کا آیا اور میں بےجان ہوتی ٹانگوں سے جتنا تیز بھاگ سکتا تھا بھاگا. میں درخت کے قریب پہنچا ہی تھا کہ مجھے سلو استاد اور اکبر نے اپنی بانہوں میں جکڑ لیا اور کہا کہ
”نہ تو آگے نہ جا… نہ تو آگے نہ جا..“
میں بےقراری سے موتی کو پکار رہا تھا. میں نے ایک کمزور سی ”کوں“ سنی اور ایک جھٹکے سے خود کو ان دونوں کی گرفت سے چھڑا لیا. سامنے موتی تڑپ رہی تھی اور اس کی باچھوں سے خون رس کر مٹی میں جذب ہو رہا تھا. مجھے دیکھ کر اس نے ہلکی سی دم ہلائی اور سر کو اٹھانے کی کوشش کی مگر سر اٹھا نہ سکی. اس کی آنکھوں کی جوت ماند پڑ رہی تھی اور اس پر جانکنی طاری تھی. میں بےاختیار موتی سے لپٹ گیا اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر چومنے لگا.
اس نے بڑے جتنوں سے اپنا سر اٹھایا اور آخری بار میرے گال کو چاٹا پھر وہ بے دم ہوگئی.
مجھے نہیں پتہ میں کتنی دیر تک اس کو گلے لگا کر چیخ چیخ کر روتا رہا. ”نہیں موتی نہیں، خدا کے لئے نہیں…“
مجھے لگا آج ایک دفعہ پھر اماں مر گئی ہے.
اسی پیپل کے درخت کے نیچے اکبر اور شقو نے اس کی قبر کھودی اور اس کو دفنا دیا. میں کئی دن بےحواس رہا، بخار میں پھنکتا ہوا ہذیان بکتا رہا. جب ذرا ہوش میں آیا تو موتی کی قبر کا مجاور بن گیا. میرا تو دل ہی خالی ہو گیا تھا. زندگی پہلے بھی میرے لیے بے معنی تھی اور اب تو دنیا کا وجود ہی سمجھ سے بالاتر تھا.
اللہ تعالیٰ سے میرے شکوے از سر نو تازہ ہو گئے تھے، بلکہ اب تو میں باقاعدہ اللہ سے خفا ہو گیا تھا.
ان دنوں مجھے شنکر نے سنبھالا، بہت سہارا دیا. وہ گھنٹوں میرے ساتھ لگا رہتا. مجھے اپنے ہاتھوں سے نوالہ بنا کر کھلا تا، مجھ سے باتیں کرتا، مجھے حتیٰ الامکان بہلانے کی کوشش کرتا.
بہت دن کے بعد اکبر نے مجھے بتایا کہ اس رات اس علاقے میں چار کتے زہر خورانی سے مرے تھے. پتہ نہیں کس شقی القلب نے گوشت میں زہر ملا کر ان کتوں کے آگے ڈال دیا تھا. میری بھوکی موتی بھی انسان کے جھانسے میں آگئی.
میری آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ زہر بھی تو مول ملتا ہے… مفت تو نہیں ملتا نا! پھر انسان زہر ہی کیوں خریدتا ہے؟ روٹی کیوں نہیں خریدتا؟ زہر سے سستی تو روٹی ہوتی ہے…. بھوکے کو زہر سے مارنے کے بجائے روٹی سے بھوک کو کیوں نہیں مارتا…؟ انسان زندگی کیوں نہیں دیتا…؟
موت ہی کیوں بانٹتا ہے؟ آخر کیوں…؟