کسی بھی صوبے کی زمین اور وسائل ایک صدارتی آرڈیننس کی مار ہونگے، کیا پاکستان کا قیام اسی نعرے کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا؟
مقتدر حلقوں سے گذارش ہے کہ صرف پون صدی پیچھے جائیے، اس سوال کا جواب آپ وہیں چھوڑ آئیں ہیں. ہوش کے ناخن کا محاورہ بھی اور اس پر عمل بھی ساتھ لیتے آئیے گا.
بادشاہو! زمانہ بدل چکا ہے، خدارا آپ بھی بدل جائیے اب.. اس سے پہلے کہ آپ کو بدلا جائے!
مجھے پاکستانی سیاست، طرزِ حکومت اور اصلی تے وڈی سرکار کے طرزِ عمل پر ہمیشہ سندھی کی ایک لوک کہاوت یاد آتی ہے، جسے میں ہر دور کی کہانی کہتا ہوں..
اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں، پہلے وہ کہانی پڑھ لیجیے
ایک تھا لُول وڈیرا، جسے اپنے علاقے میں سب سے زیادہ عقلمند سمجھا جاتا تھا.
ایک دن اس کے گاؤں کے پاس کوئی شخص کجھور کے درخت پر لگی پکی ہوئی کجھوریں دیکھ کر، درخت پر چڑھ گیا..
خوب سیر ہو کر کجھوریں کھائیں، جب پیٹ میں جگہ باقی نہ بچی، تو جیبیں بھی بھر لیں.. لیکن جب اترنے لگا تو بدقسمتی سے، لاکھ کوششوں کے باوجود ناکام رہا..
مجبوراً اس نے لوگوں کو مدد کے لیے پکارا، تھوڑی ہی دیر میں ایک بڑا مجمع کٹھا ہو کر اسے درخت سے نیچے اتارنے کے لیے آپس میں صلاح مشورے کرنے لگا، کوئی تدبیر نہ سوجھی تو کسی نے مشورہ دیا کہ اب لُول وڈیرا ہی اسے درخت سے اتارنے کی کوئی تدبیر کر سکتا ہے..
لوگ دوڑائے گئے کہ جاؤ اور لُول وڈیرے کو بلا کر لے آؤ.. تھوڑی ہی دیر میں لُول وڈیرا صاحب شانِ شاہانہ سے اِترا کر چلتے ہوئے آن پہنچے
پریشان کھڑے لوگوں نے امید بھری نظروں سے انہیں دیکھا اور التجا کی کہ حضورِ باتدبیر! کوئی تدبیر کیجیے..
لُول صاحب نے حکم دیا کہ جاؤ اور ایک بڑی رسی لے آؤ
دو چار آدمی دوڑے دوڑے گئے اور ایک رسی لے آئے
پوچھا گیا "اب کیا کریں حضور!”
لُول صاحب گویا ہوئے "رسی اوپر موجود شخص کی طرف پھینکو”
رسی پھینکی گئی..
"اب کیا کریں جناب؟”
"اب اس شخص سے کہو، کہ اس رسی کا ایک سرا مضبوطی سے اپنی کمر کے گرد باندھ لے، اور دوسرا سرا تم لوگ مظبوطی سے پکڑ لو”
رسی کمر کے گرد مضبوطی سے باندھی گئی
"اب کیا کریں جنابِ والا….”
"اب سب مل کر زور سے رسی کو نیچے کھینچو”
رسی کھینچی گئی
اور دوسرے ہی لمحے درخت پر موجود شخص دھڑام سے زمین پر آ گرا
اس نے ایک زور کی چیخ ماری، اور اس کی گردن ایک طرف لڑھک گئی
لوگوں نے کہا "لگتا ہے یہ مر گیا ہے لُول صاحب”
لُول صاحب کمال بے اعتنائی سے کہنے لگے، ”اس کی تو قسمت ہی خراب تھی، ورنہ پرانے زمانے میں ہم لوگوں کو کنویں سے اسی طرح نکالا کرتے تھے…..“
تو جنابِ من! خدارا لوگوں کو کنویں سے نکالنے اور درخت سے اتارنے کے فرق کو سمجھیں، اندھا دھند طاقت کا استعمال، اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھنا اور بزورِ طاقت اپنے استحصالی احکام کا نفاذ کسی طور بھی لُول وڈیرے کی عقلمندانہ بے وقوفی سے مختلف نہیں ہے اور نہ ہی اس کا نتیجہ مذکورہ بالا لوک کہانی سے مختلف ہوگا!
گزشتہ دنوں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے آئی لینڈ ڈولپمنٹ اتھارٹی کا قیام اور سندھ کے دو جزائر بھنڈار اور ڈنگی پر قانونی طور پر غیرقانونی قبضہ… یہ کیا "لُول پن” ہے!
اسے سیدھے بھاؤ قبضہ کہتے ہیں، غاصبانہ قبضہ!!
سندھ حکومت بھی معاملات کو اسی "لول پن” سے ہینڈل کر رہی ہے، زبان پر "مرویسوں مرویسوں” اور دل میں "کھپا چھوڑیسوں”… ایک طرف صدارتی آرڈیننس کی مذمتیں اور دوسری جانب وفاق کو لکھے گئے پرانا پریم پتر.. کہ تمہارے لیے تو میں ماں کے گہنے بھی بیچ دوں گا، میری جان!
اب دور بدل گیا ہے، لوگ بے وقوف اور اندھے ہیں اور نہ ہی گونگے اور غلام…. بدل دیجیے اپنی روش…
سندھ حکومت جسے غاصبانہ آرڈیننس کہہ رہی ہے وہ واقعتاً غاصبانہ ہی ہے لیکن گھر کی باڑ میں چھپ کر چوروں کو راہ بھی تو تم ہی لوگوں نے دکھائی تھی… لیکن چوروں اور انہیں راہ دکھانے والوں کو اپنے بھیجے میں یہ بات بٹھا دینی چاہیے کہ گھر کے مالک نہ صرف بیدار ہیں بلکہ ڈنڈا ہاتھ میں لیے تیار بھی بیٹھے ہیں…
غاصبانہ آرڈیننس کے مطابق بھنڈار اور ڈنگی سمیت بلوچستان اور سندھ کے ساحلوں پر موجود تمام جزائر اب وفاق کی ملکیت ہیں، ساحل سے سمندر کے اندر 12 ناٹیکل میل تک کا حصہ اب اتھارٹی کی ملکیت تصور کیا جائے گا۔
اتھارٹی کو دیے گئے اختیارات کے مطابق یہ اتھارٹی ان جزائر کی زمین کو منتقل، استعمال، ٹیکس کی وصولی اوران زمینوں کی فروخت کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ آرڈیننس کی شق نمبر49 کے مطابق اسے کسی عدالت میں چیلینج نہیں کیا جاسکے گا۔
واہ ری جمہوریت! تیرے رنگ…
یہ معاملہ کوئی نیا نہیں ہے، ان جزیروں کا تذکرہ سب سے پہلے 2006ع میں میڈیا کے ذریعے سامنے آیا، جب اُس وقت کی مشرف حکومت نے ان غریب ماہیگیروں سے ان کی دو وقت کی روٹی چھین کر جزیروں پر سرمایہ داروں کے لیے جدید شہر بسانے کے مقصد کی خاطر متحدہ عرب امارات کے ایک تعمیراتی گروپ کو آمادہ کر لیا تھا۔ وہی مشرف جو اب اپنے ہی ملک سے مفرور اور پاکستانی عدالتوں سے غدار کا لقب پا چکے ہیں…
اُس وقت کے وفاقی وزیر برائے جہاز رانی اور بندرگاہ، بابر غوری (جو اب بیرونِ ملک بیٹھے بانی متحدہ کے ساتھ پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں) کے اخباری بیان کے مطابق ‘سمندر میں موجود جزائر پر شہر آباد کرنے کے لیے وفاقی حکومت بنیادی سروے کا کام مکمل کرچکی ہے، نئے شہر کا ماسٹر پلان بن چکا ہے اور اس نئے شہر کی آبادی کاری کے لیے ایک درجن سے زائد اعلیٰ سطحی اجلاس کیے جا چکے ہیں’
پھر ملک کے بدلتے سیاسی حالات میں یہ غاصبانہ منصوبہ کاغذوں میں دب کر رہ گیا۔
اس کے بعد دوبارہ اس تنازع نے 2013ع کے بعد میاں نواز شریف کی حکومت میں سر اٹھایا۔ جی ہاں! وہی نواز شریف، جو بیرون ملک بیٹھا ہے، پاکستان کی عدالتیں اسے اشتہاری قرار دے چکی ہیں اور جس پر تھانے میں غداری کا پرچہ بھی کٹ چکا ہے.. اُس وقت یہ معاہدہ ریئل اسٹیٹ مافیا کے ڈان ملک ریاض سے ہوا تھا، جو عرب امارات کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر یہاں جدید عمارات کی تعمیر کرنا چاہ رہے تھے۔
لیکن بعد ازاں شدید عوامی ردعمل نے ایک بار پھر ان جزیروں کو بچا لیا..
اپنی دھرتی اور اپنے سمندر سے محبت کرنے والے عوام وہیں ہیں
اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں،
لیکن یہ غاصبانہ منصوبے بنانے والے کیا ہوئے!!؟
سو اے آج کے لول وڈیرو!
کیا پاکستان کا قیام اسی نعرے کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا، کہ کسی بھی صوبے کی زمین، سمندر، جزیرے اور وسائل ایک صدارتی آرڈیننس کی مار ہونگے؟
صرف پون صدی پیچھے جائیے، اس سوال کا جواب آپ وہیں چھوڑ آئیں ہیں. ہوش کے ناخن کا محاورہ بھی اور اس پر عمل بھی ساتھ لیتے آئیے گا!