کراچی – ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کے ذرات’سمندر کے تمام حصوں تک پہنچ چکے ہیں۔ وائلڈ لائف گروپ نے پلاسٹک کے حوالے سے ایک عالمی معاہدہ کرنے کی اپیل کی ہے
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی شائع کردہ ایک تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سمندر میں پلاسٹک کی شدید آلودگی سے 88 فیصد سمندری انواع متاثر ہو چکی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پلاسٹک کھانے والوں میں وہ مچھلیاں بھی شامل ہیں، جو عام طور پر انسان کی غذا ہیں
سمندر میں پلاسٹک اور مائیکرو پلاسٹک کے اثرات کا احاطہ کرتی یہ رپورٹ جرمنی کے آلفریڈ ویگنر انسٹیٹیوٹ کے تعاون سے مرتب کی گئی ہے اور اس موضوع پر 2590 سائنسی مطالعات کا ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے نتائج اخذ کیے گئے ہیں
رپورٹ کے مطابق بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل میں ‘پلاسٹک کے جزیرے‘ بن چکے ہیں، جو پلاسٹک کے تیرتے ہوئے ٹکڑوں سے تشکیل پائے ہیں
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سطح سمندر سے لے کر اس کی گہرائی تک، قطبین سے لے کر دور دراز کے ساحلوں اور جزائر تک تقریباً ہر سمندری حصے میں پلاسٹک پایا جاتا ہے، چھوٹے چھوٹے جانداروں سے لے کر وہیل مچھلیوں کے پیٹ تک میں سے پلاسٹک ملا ہے
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق دو ہزار ایک سو چوالیس سمندری اقسام کی آماجگاہوں کو پلاسٹک کی آلودگی سے شدید خطرات کا سامنا ہے، جبکہ ان میں سے درجنوں اقسام پلاسٹک کھانے پر مجبور ہیں
رپورٹ کے مطابق 90 فیصد سمندری پرندوں اور 50 فیصد کچھوؤں کو بھی ایسے ہی حالات کا سامنا ہے
ڈبلیو ڈبلیو ایف نے خبردار کیا ہے کہ گھونگھوں، شیل فش اور سیپیوں تک میں بھی پلاسٹک کا مواد پایا گیا ہے
رپورٹ میں پیشن گوئی کی گئی ہے کہ پلاسٹک کی پیداوار 2040ء تک دوگنی ہو جائے گی اور اس سے سمندروں میں پلاسٹک کے فضلے میں چار گنا اضافہ ہوگا
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پلاسٹک آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے بحیرہء زرد، مشرقی بحیرہ چین اور بحیرہ روم ہیں۔ یہ علاقے ابھی سے اُس حد تک پہنچ چکے ہیں، جتنے پلاسٹک ذرات ایک سمندری علاقہ جذب کر سکتا ہے
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ماہر ایریک لینڈے برگ کے مطابق اگرچہ ماہی گیری بھی سمندری آلودگی کی ایک اہم وجہ ہے، لیکن بنیادی مسئلہ ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک کے پھیلاؤ کا ہے۔ پلاسٹک روز بروز سستا ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے اس سے بنی اشیاء کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے
ایریک لینڈے برگ کے مطابق اگر صورتحال میں تبدیلی نہ لائی گئی تو ‘ایکو سسٹم تباہ‘ ہو سکتا ہے، جس سے سمندری خوراک کا نظام مکمل طور پر متاثر ہوگا
ڈبلیو ڈبلیو ایف نے اپیل کی ہے کہ اٹھائیس فروری سے شروع ہونے والے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی اجلاس میں پلاسٹک کے حوالے سے ایک عالمی معاہدے کی راہ ہموار کی جائے
واضح رہے کہ سن 1950ع سے 1970ع تک کی دہائیوں میں پلاسٹک کم مقدار میں بنتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ نہ ہونے کے برابر تھا اور یہ دنیا کے لیے بڑا مسئلہ نہیں تھا، جتنا پلاسٹک کوڑے تک پہنچتا تھا، اسے ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا
لیکن سنہ 1990ع کی دہائی تک پلاسٹک کی پیداوار تین گنا سے بھی زیادہ بڑھ چکی تھی، اسی طرح پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ بڑھا اور آہستہ آہستہ یہ ایک مسئلہ بنتا گیا
سنہ 2000ع کے اوائل میں پلاسٹک کی پیداوار بے تحاشہ بڑھ چکی تھی۔ ایک دہائی میں پلاسٹک کی پیداوار اتنی بڑھی، جتنی گزشتہ چار دہائیوں میں ملا کر بھی نہیں بڑھی تھی
اعداد و شمار کے مطابق آج دنیا بھر میں سالانہ بنیادوں پر تین سو ملین ٹن پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ جمع ہوتا ہے۔ اگر دنیا کی مجموعی آبادی کا وزن کیا جائے، تو وہ پلاسٹک کے اس وزن سے کم ہوگا
سنہ 1950ع سے لے کر اب تک قریب 8.3 بلین ٹن پلاسٹک تیار کیا گیا ہے۔ اس کے 60 فیصد کو درست اور ماحول دوست طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا جا سکا، جس کی وجہ سے یہ پلاسٹک آج یا تو کوڑے کرکٹ کے پہاڑوں کی صورت میں موجود ہے یا ہمارے پھر سمندروں، جنگلات اور ماحول کا حصہ بن کر انہیں تباہ کر رہا ہے
ایک تازہ سروے کے مطابق پلاسٹک کے کوڑے میں سب سے نمایاں سگریٹ کے فلٹر بھی ہیں۔ پانی اور مشروبات کی بوتلیں، بوتلوں کے ڈھکنے، کھانے پینے کی اشیاء کی پیکنگ، شاپنگ بیگز، اسٹرا اور دیگر اشیاء پلاسٹک کے کوڑے کرکٹ کا نمایاں حصہ ہیں
ہر سال آٹھ ملین ٹن پلاسٹک کا کوڑا ہمارے سمندروں کا حصہ بنتا ہے۔ سمندروں میں یہ پلاسٹک دریاؤں سے پہنچتا ہے۔ دنیا کے دس دریا، نوے فیصد پلاسٹک کا کوڑا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کا دریائے سندھ بھی ان میں شامل ہے، جس سے سالانہ 164,332 ٹن پلاسٹک سمندر میں پھیلتا ہے
اگر پلاسٹک کی پیداوار اور اس سے بننے والے کچرے پر کنٹرول نہیں کیا گیا اور معاملات اسی طرح جاری رہے، تو اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2050ع تک ہمارے سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک پایا جائے گا.