نایاب ہوتے ہوئے بزرگ… ‘زندگی’ جن کا ‘طواف’ کرتی ہے!

رضوان طاہر مبین

ہمیں کم سنی میں اتنی سمجھ تو نہ تھی کہ بڑے ہونے کے بعد زندگی کتنی مشکل تر ہوتی جائے گی، لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ ہم نے عام بچوں کی طرح کبھی اپنے بڑے ہونے کی خواہش نہیں کی، جیسا کہ ہمارے ایک تایا زاد بھائی بچپن میں کبھی بہت زیادہ غصے میں آجاتے، تو کہا کرتے تھے کہ ‘کسی دن بڑا ہوجاؤں گا ناں، پھر بتاؤں گا!’

جبکہ ہمارا حال تو یہ رہا کہ ہمیں تو یہ کلینڈر کے بدلتے ہوئے ہندسے ہمیشہ ہی ناگوار لگے۔ اپنے ہوش و حواس میں جب پہلی بار پرانے گھر کی مغرب کی جانب کھلنے والی کھڑکی سے پچھلے برآمدے کے پار، نئے سال کی ‘دھمک’ سنی تھی، تو تب بھی ہمیں یاد ہے کہ ہمیں اس نئے سال کی ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی تھی۔ 31 دسمبر کی اس یکم جنوری میں بدلتی ہوئی ساعت کو کھڑکی کے نوک دار ٹھنڈے جال کو اپنے ہونٹ میں چبھوتے ہوئے، ہم نے سوچا تھا کہ کاش کہ یہ برس نہ جائے! لیکن وقت رکنا تو کجا، الٹا ہوا کے گھوڑے پر سبک رفتار ہوتا ہی چلا گیا

1990ع کی دہائی کیا ختم ہوئی، اکیسویں صدی میں اس کی رفتار کسی گولی کی سی ہوگئی، جو اب ہر گزرتے برس کے بعد پہلے سے زیادہ بڑھتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ اور اب نوبت یہ ہے کہ وقت کی برق رفتاری کے ساتھ ساتھ ہمارے اردگرد کے بڑے بزرگ بہت تیزی سے کمتی ہوتے جا رہے ہیں۔ اب غور کرتے ہیں، تو بس گنے چنے ہی رہ گئے ہیں۔ اب ہم سوچتے ہیں، تو اور احساس ہوتا ہے کہ جب وقت آگے بڑھتا ہے، تو اپنے ‘خراج’ کے طور پر ہمارے ایسے ‘گھنے پیڑ’ بھی اپنے ساتھ لیے چلا جاتا ہے

ہمارے ہوش و حواس میں ہمارے ‘ابّا’ (نانا جان) کا انتقال سب سے پہلا ایسا سانحہ تھا، جو ہمارے دل و دماغ پر نقش ہوا، پھر یہ فہرست طویل تر ہوتی چلی گئی، اور آج تک ہو رہی ہے

زندگی کی افراتفری اور دنیا کی نفسا نفسی میں گزشتہ دنوں ہمارے خاندان کا ایک اور شجرِ سایہ دار باقی نہ رہا۔ یہ برگزیدہ ہستی ہماری اور ہم سب کی ‘بڑی تائی’ تھیں، جنہیں پورا ددھیال ‘بڑی بھابھی’ کے نام سے جانتا تھا اور بڑے بزرگوں کی طرح ددھیال بھر میں ان کی کیا بڑائی اور کیا بلند مرتبہ تھا کہ اس پر الگ سے پورا ایک مضمون باندھا جاسکتا ہے۔ ہمارے اور آپ کے خاندانوں میں بھی یقیناً ایسے بے شمار بزرگ رہے ہوں گے، اور آج بھی ہوں گے، جو اپنے آپ میں یکتا ہوں گے

دادا، دادی اور نانا، نانی کا تو خیر ذکر ہی کیا، باقی خاندان میں بھی کوئی نہ کوئی امّاں، ابّا، امّاں جی، نانی امّاں، بڑی امّی، باؤ جی، بڑے بابو، بھائی بابو، بھائی میاں، بھائی صاحب، بھائی جان، خالہ جان، چھوٹی خالہ، عینک والی خالہ، دلّی والی خالہ، پھوپھی امّاں، بیری والی پھوپھی، پھوپھی جان، بڑی آپا، چھوٹی بھابھی، چچا میاں، چچی جان اور نہ جانے کتنی ایسی ہی شیریں ‘عرفیت’ لیے ہوئے بزرگ رہے ہوں گے، جن میں سے اکثر نایاب ہوچکے ہوں گے۔ شاید اسی لیے معاملہ فہمی، دنیا داری کے طور، وضع داری اور سارے ڈھنگ اور چلن اب کچھ بدنما سے اور بہت سی جگہوں پر بھونڈے پن کا شکار ہوچکے ہیں

اس فانی دنیا سے کوچ کرتا ہوا ہر بزرگ ایک طرف دنیا کی بے ثباتی کی خبر دے رہا ہے، تو وہیں دوسری طرف ہمیں بھی خبردار کر رہا ہے کہ وقت کی چرخی میں اب ہم بھی کوئی چھوٹے نہیں رہے، بلکہ عمر کے مدارج میں بتدریج آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں… بڑا ہونا اور پھر اس بڑائی کا پاس ہونا کوئی آسان امر تو نہیں ہے۔ یہ تو یکسر ذمہ داری ہی ذمہ داری ہے، لیکن کچھ لوگ صرف بڑے کی مسند کو ‘حاکمیت’ کی گدی ہی سمجھتے ہیں، ایسے لوگ یقیناً ‘بڑائی’ کے اصل مفہوم سے ناآشنا ہوتے ہیں، بڑے ہونے کا سب سے پہلا مطلب آپ کا دل بڑا ہونا ہوتا ہے، یعنی بہت زیادہ گنجائش والا دل ہونا

پھر یہ ‘بڑائی’ آپ کو یہ بتاتی ہے کہ اب آپ صرف اپنے لیے نہیں جیئیں گے، بلکہ اکثر دوسروں کے لیے ہی زندگی کریں گے، آپ کے چھوٹے آپ کے آگے کبھی خود سر بھی ہوسکتے ہیں، حکم عدولی بھی کریں گے اور ممکن ہے کہ کبھی حد سے تجاوز بھی کر جائیں، لیکن آپ کو شکایت بھی کرنی ہے، تو موقعے کی پوری نزاکت اور مصلحت کو دیکھتے ہوئے… اپنے دلوں کو چھوٹوں کی غلطیوں کے باوجود ان کے لیے بہت صاف رکھنا ہے

ہمیں یہ ساری باتیں آج اس لیے یاد آرہی ہیں کہ اکثر لوگ اب یہ شکایت بھی کرتے ہیں کہ اب تو لوگوں کی عمریں ہیں کہ بڑھی جاتی ہیں، اور بزرگی ہے کہ ذرا نام کو بھی نہیں آتی۔ ‘بزرگی’ سے مراد خمیدہ کمر، چہرے کی جُھرّیاں اور سفید بال نہیں، بلکہ یہی بُردباری، وقار اور بڑائی ہے، جو شاید آج کل کے ‘نئے بزرگوں’ میں ذرا کم ہی دکھائی دیتی ہے

ذرا غور کیجیے، تو بچپن میں ہماری ‘آزادی’ کا اصل تصور یہی ہے، کہ ہم پر ہمارے بڑے اور پھر ہمارے بزرگوں کی ایک گھنی چھایا موجود ہوتی ہے۔ ہم اپنے والدین اور بڑوں کی وجہ سے زندگی کی ساری ذمہ داریوں اور فکروں سے ہی آزاد نہیں ہیں، بلکہ ہمیں محبتوں میں تول دینے کے لیے ہمارے خاندان میں بڑے بزرگ بھی جلوہ افروز ہیں، جن کے دم سے زندگی میں، بلکہ سارے جہاں میں ایک رونق سی لگی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ دادی، نانی سے لے کر بڑے تایا، بڑی پھوپھی، بڑے ماموں اور بڑی خالہ وغیرہ سے لے کر اپنے والدین کے بڑے بزرگوں کا لَمس پانا بھی اپنے میں ایک ناقابلِ بیان تجربہ ہوتا ہے

اپنے بزرگوں کی شفقت، محبت اور قربت ہماری زندگیوں میں ایک عجیب سی مسرت بھر دیتی ہے۔ ان کی بول چال میں گئے وقتوں کی ایک واضح بازگشت ہوتی ہے، بلکہ ہر ہر فقرے میں ایک تہذیب اور تمدن جھلکتا ہے۔ تاریخ سے لے کر زبان و بیان تک، وہ ہم تک پچھلے وقتوں کی ایک ایسی کڑی بن رہے ہوتے ہیں، جو پھر ہمیں اپنے اگلوں تک پہنچانی ہوتی ہے

پھر جب کبھی وہ اپنے بڑوں کا ذکر چھیڑ دیتے ہیں، تو بس اگر آپ ہماری طرح اپنے ماضی سے ایک خصوصی تعلق رکھنے والے ہیں، تو بہت دیر تلک اسی میں کھو جائیے۔ ان کی آنکھوں میں تیرتی ہوئی نمی میں جھانکیے، تو عہدِ گزشتہ کے ہجر کی ‘شدت’ کا نطارہ، ان کی جُھرّیوں کی تہ ٹٹولیے، تو عہد رفتہ کی دھول کا تبرک محسوس کیجیے، اور جان لیجیے کہ یہ زمانے میں تیزی سے نایاب ہوتے ہوئے لوگ ہیں، یہ انمول ہیں اور فقط نصیب سے کچھ ہی سمے کے لیے آپ کو دستیاب ہیں

جب تلک یہ موجود ہیں، تب تلک ان کے پلنگ اور ‘تخت’ کے گرد ہی گویا زندگی کے سارے میلے سجتے ہیں، وہ سارے تیوہاروں کی دھنک کا جیسے آٹھواں لازمی رنگ ہوں، جس کے بغیر کوئی رنگ، رنگ نہیں رہتا۔ ان کے قدموں میں جو پورا کا پورا ‘کُٹم’ آکر ٹھیرا جاتا ہے، یہ پورے خاندان میں ان کی ایک غیر اعلانیہ ‘بادشاہت’ کے سوا کیا ہے۔ دنیا کے مسئلے ان کے سامنے آکر اپنے آپ ہی تحلیل ہوئے جاتے ہیں، صرف ان کے چہرے پر نظر پڑتے ہی پریشانیوں کی شدت رفع ہوئی جاتی ہے

محسوس کیجیے، تو ان کے مشوروں میں کیسی حکمت ہوتی ہے اور ان کے بے ضرر ٹوٹکوں میں کیسی راحت۔ ان کے دستِ شفقت میں کسی جنت کی سی سائبانی محسوس ہوتی ہے، ہر چاند رات ‘چاند رات’ رہی، تو انہی کے صدقے۔ ہمارے سحر و افطار کے دسترخوانوں سے لے کر رمضان کی ساری برکتیں انہی کے وجود ہی سے گویا سِوا ہوئیں۔ عید، اگر ‘عید’ بنی ہے، تو نمازِ عید کے بعد ان کے ‘مبارک سلامت’ اور ‘جیتے رہو’ کی صدا ہی سے…!

پھر خوشی ملتی ہے، تو ان کے سرہانے دھری رہنے والی کسی زنبیل جیسی پوٹلی میں سے برآمد ہوتے برسوں کے سینت سینت کے رکھے ہوئے کچھ روپوں کے ستھرے ستھرے نوٹوں سے۔ زندگی کے کسی موڑ پر کامیاب ہوئے تو ‘دودھوں نہائو، پوتوں پھلو’ رشتوں کے نئے بندھن بنے ہیں، تو ‘سدا سہاگن رہو’ اور ‘شادو آباد رہو’ جیسے کلمات کا گویا ‘تعویز’ بچوں اور بچوں کے بچوں کے نوبیاہتا جوڑوں کے حصار کردیا

ہم سب اپنے بچپنے میں اور جوانی کی ‘ترنگ’ میں کئی بار یا کبھی نہ کبھی تو کوئی ایسی بھول اور غلطی کر ہی بیٹھتے ہیں، جو عام ریتی رواج کے مطابق ٹھیک اور مناسب نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے آپس میں شکوے دلوں میں جما لیتے ہیں، لیکن یہ ہستیاں سب سے گویا ماورا ہوچکی ہوتی ہیں، بس جب چاہے آگے بڑھیے اور انہیں پالیجیے، کسی دلدر دُور کرنے میں کبھی رکاوٹ ہوتی ہی نہیں۔ یہی نہیں بلکہ انہی کے در پر تو اپنوں کے دل اجلے ہوجاتے ہیں، گِلے شکوے باقی نہیں رہتے

مگر وقت انہیں بہت جلد ہم سے دُور لے جاتا ہے۔ جانے والوں کا خلا تو ہمیشہ کے لیے باقی رہ ہی جاتا ہے۔ اس موقع پر ایک خیال ہمیں اور آتا ہے کہ ہم عموماً اپنے خونی رشتوں پر ہی کوئی مضمون باندھتے ہیں اور فخر سے ان کا تذکرہ کرتے ہیں، لیکن کبھی خاندان کی بہوؤں، بالخصوص اپنی کسی چچی، تائی اور مامی وغیرہ کو کُھل کر خراج پیش نہیں کرتے، جب کہ کئی بار ہمارے لیے ان کی قربانی اور ایثار اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم زندگی میں بھی ان کے اس کردار کا اعتراف کریں اور ان کے بعد ان کے خلوص اور محبت کو بساط بھر خراج عقیدت پیش کریں کہ یہ بزرگ خواتین بھی بعضے وقت گھرانوں کو جوڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں

بشکریہ : ڈان نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close