کیا پب جی گیم پاکستان میں قتل کی وجہ بن رہی ہے؟

نیوز ڈیسک

لاہور – گزشتہ دنوں پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں قتل کا ایک لرزہ واقعہ پیش آیا، جس میں خاتون ڈاکٹر اور ان کے تین بچوں کو قتل کر دیا گیا

اس قتل کا معمہ پولیس کے مطابق حل کرلیا گیا ہے۔ پورے خاندان کا قاتل کوئی اور نہیں اسی گھر کا ایک لڑکا بتایا جا رہا ہے، جب کہ قتل کے پیچھے چھپی وجہ نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے

پولیس کے مطابق قتل کرنے والے علی زین کی عمر محض سولہ سے اٹھارہ سال کے لگ بھگ ہوسکتی ہے

اب تک کی تفتیش میں یہ سامنے آیا ہے کہ کاہنہ کے علاقے میں 18 اور 19 جنوری کی درمیانی شب علی زین جو کہ پب جی گیم کھیل رہا تھا، اسے گیم کے دوران شکست ہوگئی

اس شکست کا بدلہ لینے اور اپنی قتل کرنے کی صلاحیت کو چیک کرنے کے لیے اس نے اپنے گھر والوں پر ہی پریکٹس کرنے کا خطرناک فیصلہ کیا

اس مقدمے کی تفتیش کرنے والے لاہور پولیس کے ایس ایس پی انویسٹیگیشن عمران کشور کا کہنا ہے ”اس لڑکے نے ہمیشہ اس گیم کو بہت سنجیدگی سے لیا اور یہ باتیں ہمیں دوران تفتیشں پتا چلیں۔“

ایس ایس پی انویسٹیگیشن عمران کشور بتاتے ہیں ”جب بھی یہ گیم ہارتا تھا تو یہ اچانک خاموش ہوجاتا اور کھانا پینا چھوڑ دیتا اور حقیقت سے بھی زیادہ یہ پب جی گیم کو سنجیدگی سے لیتا تھا۔“

انہوں نے بتایا ”اس رات بھی یہ گیم ہارا تھا اور اس نے کھانا نہیں کھایا۔ رات کے اڑھائی بجے یہ اٹھا اور اس نے اپنی ماں کا پستول، جو کہ اس کو پتا تھا کہ کہاں رکھا ہے، اٹھایا اور سب سے پہلے اپنی ماں کو قتل کر دیا۔“

ایس ایس پی عمران کشور بتاتے ہیں ”قتل کرنے کا انداز انتہائی پروفیشنل تھا۔ اس کو پتا تھا کہ پستول کی آواز آئے گی اور لوگ آجائیں گے۔ اس نے تکیے کے اندر سے پستول کا فائر کیا، جس سے کافی حد تک آواز کم نکلی۔ گھر کے اندر کے لیے تو پھر بھی یہ کافی تھی، لیکن محلے والوں کو جگانے کے لیے ناکافی تھی۔“

عمران کشور نے بتایا ”علی زین نے ماں کو قتل کرنے کے بعد اپنی دو بہنوں کو بھی اسی طریقے سے قتل کیا اور اس کا بھائی جو کہ دوسرے کمرے میں تھا وہ آواز سن کر آیا تو اس نے اسے بھی اسی طریقے سے قتل کردیا۔“

”پورے خاندان کو قتل کرنے کے بعد یہ گھر کے نیچے کی منزل، جو کہ اس کی والدہ کا کلینک ہے، وہاں جا کر سو گیا، اور صبح جب کام والی آئی تو اس نے 15 پر کال کی اور پولیس موقع پر پہنچی۔ پولیس نے ہی اس کو کلینک سے نکالا۔“

پولیس نے اس مقدمے کی ایف آئی آر بھی علی زین کی مدعیت میں درج کی، کیونکہ پولیس کے نزدیک یہ اس گھر کا واحد بچ جانے والا فرد تھا

پولیس کو علی زین پر شک کیسے ہوا؟

اس حوالے سے ایس ایس پی انویسٹیگیشن عمران کشور نے بتایا ”ابتدا میں تو کسی بھی قسم کا شک اس پر نہیں تھا. پولیس تین پہلوؤں پر کام کررہی تھی۔ ایک یہ تھا کہ شاید پراپرٹی کا کوئی مسئلہ نہ ہو، کیونکہ یہ گھر اور کلینک ناہید مبارک کا ہی تھا، جو علی زین کی والدہ تھیں۔ دوسرا پہلو ذاتی دشمنی اور تیسرا غیرت کے نام پر قتل کا ہو سکتا تھا، کیونکہ خاتون کا شوہر ان کے ساتھ نہیں رہتا تھا۔“

انہوں نے بتایا ”پولیس اور فرانزک ٹیموں نے جتنے بھی شواہد اکٹھے کیے، ان میں قاتل کا باہر سے آنا کسی بھی صورت ثابت نہیں ہو رہا تھا۔ حتیٰ کہ دروازے پر فنگر پرنٹس کے نشان یا گھر میں باہر سے داخل ہونے کے جوتوں کے نشانات تک نہیں تھے۔ تو پھر بالآخر اسی بچے سے پوچھ گچھ کا فیصلہ کیا گیا۔“

جب پولیس نے سنجیدگی کے ساتھ علی زین سے سوال جواب کیے، تو ان کے اپنے ہی بیانات میں کئی طرح کے تضادات نے پولیس کو چوکنا کردیا

ایس ایس پی انویسٹیگیشن عمران کشور کے مطابق ”ان تضادات کے بعد اس کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا کہ وہ اصل بات نہ بتائے۔ اس کے بعد اس نے پستول کے بارے میں بتایا، جہاں اس کی انگلیوں کے نشانات موجود تھے، تو اس طرح اس بھیانک قتل کی واردات کا اصل سرا ہاتھ آیا۔“

کیا قتل کی وجہ پب جی گیم ہے؟

لاہور پولیس نے اس واقعے کے بعد آئی جی پنجاب کو ایک خط لکھا ہے، جس میں سفارش کی گئی ہے کہ پی ٹی اے کے ذریعے پب جی گیم پر پاکستان میں مکمل پابندی عائد کی جائے

ایس ایس پی انویسٹیگیشن عمران کشور کہتے ہیں ”ہمارے پاس ایسا کرنے کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ یہ پہلا کیس نہیں ہے گذشتہ دو برسوں میں پورے پنجاب میں لگ بھگ ایک درجن اس سے ملتے جلتے واقعات سامنے آئے ہیں۔“

واضح رہے کہ آن لائن گیمز سے متعلق یہ اس طرح کا کم از کم چوتھا واقعہ ہے

جب اس طرح کا پہلا واقعہ 2020ع میں سامنے آیا تھا، تو اس وقت کے کیپیٹل سٹی پولیس چیف ذوالفقار حمید نے لوگوں کی زندگیاں، وقت اور لاکھوں نوجوانوں کا مستقبل بچانے کے لیے اس طرح کی گیمز پر پابندی کی سفارش کی تھی

گزشتہ دو سالوں کے دوران ’پب جی‘ گیم کھیلنے والے تین نوجوان خودکشیاں کر چکے ہیں اور پولیس نے اپنی رپورٹ میں اموات کی وجہ پب جی گیم کو قرار دیا تھا

اس سے قبل بھی پب جی گیم کے باعث کئی زندگیوں کے چراغ گل ہوگئے،اچھرہ میں فرسٹ ایئر کے طالب علم نے پب جی گیم کھیلنےسے منع کرنے پر خودکشی کی۔ پنجاب سوسائٹی میں 28 سالہ نوجوان شہر یاربھی پب جی کے باعث موت کے منہ میں چلا گیا۔ شہر یار نے پب جی گیم میں شکست کے بعد زندگی کا خاتمہ کیا۔ تھانہ شمالی چھاؤنی کے علاقے میں پب جی گیم پرشرط ہارنے پر 16سالہ غلام عباس نے خودکشی کی

عمران کشور مزید کہتے ہیں ”ہمیں شک ہے کہ یہ بچہ آئس کا نشہ بھی کرتا ہے۔ ہم نے ان ایک درجن واقعات کو کھنگالا ہے۔ بہت سی چیزیں مشترکہ ہیں۔ سال 2021ع میں تین بچوں نے صرف لاہور میں ایک ماہ کے دوران خود کشیاں کی تھیں۔ ان کی لاشوں کے ساتھ موبائل پر پب جی کھلی ہوئی تھی۔ ان میں ایک بچہ تھا، جس نے صرف اس وجہ سے خود کشی کی کہ گھر والوں نے اس سے موبائل چھین لیا تھا۔“

عمران کشور کے مطابق ”ایک واقعہ تو ہو بہو اس سے ملتا جلتا تھا، جب ایک نوجوان نے آئس کے نشے میں اپنے ہمسائیوں کے گھر میں گھس کر سب کو قتل کردیا تھا اور وہ اپنی طرف سے پب جی کی ایک مشق کر رہا تھا۔“

تاہم پاکستان میں گیمز بنانے والی کمپنی گیمز اسٹارم اسٹوڈیوز کے سی ای او راحیل اقبال سمجھتے ہیں کہ ”کمپیوٹر گیمز کو تشدد کے ساتھ مکس کرنا درست نہیں ہے، اس حوالے سے دنیا بھر میں تحقیقات کی گئی ہیں۔ یہ ضرور ہو سکتا ہے کہ بچے کے اندر تشدد موجود ہو اور وہ کسی ذہنی کیفیت میں ایک انفرادی حرکت کرے، ہمارے ہاں مسئلے کی جڑ تک جانے کے بجائے فوری نتیجہ اخذ کر لیا جاتا ہے۔“

راحیل اقبال کہتے ہیں ”بھارت اور پاکستان کے علاوہ آپ کہیں ایسی خبر نہیں سنیں گے کہ گیم سے طیش میں آکر کسی نے حقیقی زندگی میں بھونچال برپا کر دیا۔“

راحیل اقبال کا کہنا ہے کہ پب جی میں پاکستان کے کھلاڑیوں نے بہت نام کمایا ہے اور بڑے بڑے سنجیدہ کھلاڑی بھی ہیں، بلکہ اب تو سنا جا رہا تھا کہ پاکستان میں پب جی کا باقاعدہ ٹورنامنٹ بھی کروایا جا رہا ہے

”میرا ذاتی خیال ہے کہ جب تک باقاعدہ سائنسی بنیادوں پر کوئی ایسا ثبوت موجود نہ ہو، گیم کو تشدد سے نہیں جوڑنا چاہیے۔“

دوسری جانب ماہر نفسیات اور ہیپنو تھراپسٹ ڈاکٹر ابراہیم سیاوش بھی سمجھتے ہیں کہ محرکات تک پہنچنا بہت ضروری ہے

وہ کہتے ہیں ”میرے خیال میں پاکستان میں والدین بچوں کی کمپیوٹر گیمز کو اچھا نہیں سمجھتے اور بچوں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی وجہ ہو سکتی ہے کہ بچوں کے اندر غصے اور تشدد کا عنصر آجائے۔ یہ درست ہے کہ گیمز ایڈیکٹ کرتی ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ حقیقی اور غیر حقیقی مناظر کو دماغ کے اندر مدغم کر دیں۔“

جبکہ ماہر نفسیات ڈاکٹر بسمہ اعجاز کا کہناہے کہ پب جی کے خطرناک نفسیاتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس خونی کھیل کی روک تھام بہت ضروری ہے، تاکہ نوجوان نسل معاشرتی طور پر اچھا کردار ادا کر سکیں

پب جی گیم کے نقصانات میں وقت کی بربادی کے ساتھ ذہنی و نفسیاتی امراض میں مبتلا ہونا بھی ہے. عالمی ادارہ صحت نے وڈیو گیمز کی لت کو باقاعدہ ذہنی بیماری تسلیم کیا ہے، چنانچہ ملک بھر میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے ہیں جن میں پب جی کھیلنے والے شخص کی دل کا دورہ پڑنے سے موت ہوگئی یا پب جی گیم کی لت میں مبتلا شخص نے خود کو یا دوسروں کو گولیاں مار کر قتل کیا ہے

پب جی گیم کے نقصانات کے بارے میں نفسیات کے ایک ڈاکٹر سفیان کا کہنا ہے کہ موبائل یا کمپیوٹر کی روشنی سے نکلنے والی شعاعیں کثرت سے گیم کھیلنے والوں میں مرگی کا عارضہ پیدا کر دیتی ہے اور اس کے علاوہ اس طرح کی وڈیو گیم کھیلنے سے ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہو جاتا ہے، مزید گیم میں برق رفتاری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے ہڈیوں میں تکلیف لاحق ہو جاتی ہے ۔ مزید کھیلتے وقت آنکھوں کی حرکت تیز ہوجانے کی وجہ سے آنکھوں پر برا اثر پڑتا ہے۔ اتنا ہی نہیں گیم کھیلنے والوں میں خود اعتمادی کی کمی کے ساتھ نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتے ہیں
پب جی گیم میں گروپ کی شکل میں دوسروں کو قتل کرکے ان کی املاک تباہ کرکے، انہیں زدوکوب اور قتل کرکے لطف اٹھایا جاتا ہے، لیکن یہ سلسلہ گیم تک ہی محدود نہیں رہتا ان گیمز کے نوجوان اور بچے نشے کی طرح عادی ہو جاتے ہیں اور اور جرائم کے نئے طریقے اور ترکیبیں سیکھ لیتے ہیں

ان گیمز سے نوجوان ذہنوں میں تشدد مار دھاڑ اور لڑنے کے نئے ہنر سیکھ لیتے ہیں جس کی ہمارے سامنے کہیں مثالیں موجود ہیں

گزشتہ سال بھارت میں اس ہنر کو ایک انیس سالہ لڑکے نے اپنے ہی گھر والوں پر آزمایا اور اپنے ماں باپ اور بہن کو موت کے گھاٹ اتار دیا. پولیس کے مطابق یہ لڑکا وڈیو گیم پب جی کا عادی ہو گیا تھا سورج نام کے لڑکے نے مہرولی میں ایک روم کرائے پر لیا تھا اور اسکول کم اور روم میں بیٹھ کر وڈیو گیمز کیساتھ وقت گزارتا تھا

پب جی گیم کیسے کھیلتے ہیں؟

دنیا بھر میں کمپیوٹر گیمز جدت کی آخری حدوں کو چھو رہی ہیں اور یہ اربوں ڈالر کی صنعت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اب زیادہ تر گیمز آن لائن اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ کے ذریعے کھیلی جاتی ہیں

انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے اس دور جدید میں آئے دن نئے سے وڈیو گیم اور تشدد پر مبنی ایپلیکیشن لانچ ہوتی رہتی ہیں، جن کے ذریعہ نوجوان اور بچے اپنے وقت کو ضائع کرکے اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے بجائے تاریک کرتے ہوئے نظر آر ہے ہیں

پب جی بھی ایسی ہی ایک گیم ہے، جو اس وقت دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر کھیلی جارہی ہے. بچے ہوں کہ بڑے سبھی اس کے جنون میں مبتلا نظر آتے ہیں، جس کو اس کی لت لگ جاتی ہے وہ دن ہو کہ رات شام ہو کہ سحر سفر ہو کہ گھر ہو یا باہر بس بپ جی ہی کی دنیا میں مست و مگن رہتا ہے اور اسی کو اپنی دنیا سمجھتا ہے

دسمبر 2017 میں آئرلینڈ کے گیم ڈیزائنر برینڈن گرین نے یہ گیم متعارف کرائی. 2018 میں کمائی کے معاملے میں یہ گیم پہلے نمبر پر رہی

راحیل اقبال کے مطابق ”پب جی ایک آن لائن گیم ہے جس میں ایک ہی وقت میں پچاس سے زائد کھلاڑی گیم میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ گیم ایک ہی سرور پر ہوسٹ ہورہی ہوتی ہے۔ تمام کھلاڑیوں کو مختلف ٹاسک دیے جاتے ہیں اور سب کا کام ایک دوسرے کو مارنا ہوتا ہے۔ فاتح وہ ہوتا ہے جو سب کو مار دیتا ہے۔“

انہوں نے بتایا ”آج کل تقریباً ہر بڑی گیم ہی آن لائن آرہی ہے۔ آپ لڈو کو دیکھ لیں یا کسی بھی گیم کی مثال لے لیں، سب میں آن لائن جیتنے کے لیے سب ہی پرجوش ہوتے ہیں یہ گیم کا اب مستقبل ہے۔“

اس گیم میں پچاس سے زائد کھلاڑی ہوتے ہیں، جو اپنے مشن کو مکمل کرنے کے لئے لوٹ مار کر کے اسلحہ اور دیگر اشیاء حاصل کرتے ہیں اور پھر اپنے ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لئے ایک جزیرے میں یہ ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، آخر میں جو ٹیم بچ جاتی ہے وہ اس گیم کی فاتح کہلاتی ہے مکمل گیم آخر تک کھیلنے والے کو فرضی چکن ڈنر کا انعام بھی ملتا ہے، اس سے پہلے سپر ماریو اور بلیو وہیل جیسے گیمز بھی اپنے جادو کا اثر دکھا چکے ہیں

اس گیم کو شروع کرتے ہوئے آپ اپنی مرضی کا تصوراتی کردار منتخب کرتے ہیں جو گیم کے اندر آپ کی پہچان بن جاتا ہے

پاکستان میں پب جی نے ارطغرل نامی ایک ترک کردار کو بھی متعارف کروا رکھا ہے۔ ماہرین کے مطابق پب جی پاکستان کو ان ملکوں کی فہرست میں رکھتا ہے جہاں اس کے سب سے سنجیدہ اور زیادہ کھلاڑی ہیں

پنجاب پولیس، لاہور واقعے کے بعد خطرناک وڈیو گیمز پر پابندی کی خواہاں

محکمہ پنجاب پولیس نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو ایسی خطرناک وڈیو گیمز پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو نوجوانوں میں تشدد کے رجحانات کو فروغ رہی ہیں اور ان پر پابندی سے نوجوان نسل کو ان کے نقصان دہ اثرات سے محفوظ رہا جاسکے گا

محکمہ پولیس کے ترجمان نے کہا کہ حالیہ دنوں میں ’پب جی‘ جیسی گیموں کی وجہ سے فائرنگ کے کئی واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں، اسی لیے محکمہ پولیس نے اس طرح کی گیمز پر پابندی کے لیے حکومت سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے

پنجاب پولیس کا کہنا ہے کہ پابندی سے متعلق سفارشات دینے کا فیصلہ گزشتہ ہفتے لاہور کے علاقے کاہنہ میں ہونے والے واقعے کے تناظر میں کیا گیا ہے، افسوسناک واقعے میں نو عمر لڑکے نے گیم سے بُری طرح سے متاثر ہوکر اپنے خاندان کے چار افراد کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا

پنجاب پولیس کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’پب جی‘ نوجوانوں کی ذہنی صحت کے لیے بہت خطرناک گیم ہے کیونکہ اس گیم کو زیادہ کھیلنے والے اس میں دیے گئے اہداف اور ٹاسک کو مکمل کرتے کرتے بہت زیادہ جارح مزاج ہوجاتے ہیں

انسپکٹر جنرل پولیس کی طرف سے والدین سے درخواست کرتے ہوئے ترجمان محکمہ پولیس پنجاب کا کہنا تھا والدین اپنے بچوں کی نگرانی کریں اور ان کو کسی بھی منفی سرگرمی میں مشغول ہونے سے روکیں

واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے ترجمان پولیس کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور آئی جی پنجاب پولیس راو سردار علی احمد خان نے خاندان کو قتل کرنے کے واقعے کا نوٹس لیا ہے اور لاہور پولیس کو کیس کو حل کرنے کی ہدایت کی ہے

ان کا کہنا تھا واقعے کی ابتدائی تحقیقات میں دیگر شواہد کے علاوہ پولیس کو یہ بھی پتا چلا ہے کہ نوجوان لڑکا زین علی اپنے کمرے میں مکمل تنہائی میں رہتا تھا اور ’پب جی‘ گیم کی لت میں مبتلا تھا

ترجمان پنجاب پولیس کا کہنا تھا کہ جرم کرنے کے بعد وہ اپنی ماں کے جنازے میں شرکت کے لیے جڑانوالہ گیا لیکن اس کے بعد لاہور واپس آنے کے بجائے فیصل آباد کے قریب ایک گاؤں میں روپوش ہوگیا، زین علی کو پب جی کی لت ہوسٹل میں رہنے والے طلبہ سے لگی

ترجمان پنجاب پولیس کا کہنا ہے ”گیمز میں مسلسل ناکامی نے اس میں تناؤ بہت زیادہ بڑھا دیا تھا اور اس نے یہ سوچتے ہوئے اپنے گھر والوں پر فائرنگ کردی کہ جس طرح گیمز میں مارے جانے والے کردار زندہ ہوکر واپس آجاتے ہیں ایسے ہی اس کے اہل خانہ بھی واپس آجائیں گے“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close