اسلام آباد – پاکستان کے دورے پر آئی آسٹریلوی کرکٹ ٹیم نے آج اپنے دورے کا آغاز راولپنڈی میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ کے ساتھ کر دیا ہے
خیال رہے کہ آسٹریلیا کی ٹیم نے 1998 سے پاکستان کا دورہ نہیں کیا، وہ چوبیس سال بعد پاکستان آئی ہے، دونوں ٹیمیں راولپنڈی میں 4 مارچ سے 8 مارچ تک پہلا ٹیسٹ میچ کھلیں گی، جس کے بعد دوسرا ٹیسٹ 12 سے 16 مارچ کراچی اور تیسرا لاہور میں 21 مارچ سے 25 مارچ تک کھیلا جائے گا
میچ سے قبل کرکٹ آسٹریلیا کے چیف ایگزیکٹو نک ہوکلے، پی سی بی چیف ایگزیکٹو فیصل حسنین اور پلیئرز ایسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹو نے پریس کانفرنس کی
پلیئرز ایسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹو ٹوڈ گرین برگ کا پریس کانفرنس کے دوران کہنا تھا کہ ہمارے کرکٹرز پاکستان میں بہت خوش ہیں، پاکستان کرکٹ کے لیے بہترین جگہ ہے
پریس کانفرنس کے دوران کرکٹ آسٹریلیا کے چیف ایگزیکٹو نک ہوکلے نے کہا کہ آج بہت تاریخی دن ہے، پاکستان میں ہمارا بہت گرمجوشی سے استقبال کیا گیا
سری لنکا کی ٹیم پر لاہور میں حملے کے بعد یوں تو بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے 2015ع میں کھل چکے تھے اور 2019ع سے پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ بھی بحال ہو گئی تھی. لیکن آسٹریلیا کی ٹیم کا 1998 کے بعد پاکستان کے دورے سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان میں سیکیورٹی سے متعلق قائم کی گئی رائے اب بدل رہی ہے اور اس کی ایک وجہ آسٹریلیا کے دورے کی کوریج پر آئے غیر ملکی صحافیوں کی پاکستان سے متعلق مثبت رائے ہے
اس دورے پر متعدد غیر ملکی صحافی پاکستان میں موجود ہیں اور ٹیسٹ سیریز کے آغاز سے قبل انہوں نے پاکستان خصوصاً وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے
آسٹریلیا کی واحد خاتون کرکٹ صحافی ملینڈا فیرل بھی اس دورے کی کوریج کے لیے پاکستان میں موجود ہیں اور وہ پاکستان آنے کے بعد ملک کے بارے میں مزید جاننے کے لیے بے تاب ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے ہمیشہ کوشش کی کہ پاکستان کے بارے کوئی رائے قائم نہ کروں کیونکہ میں جانتی ہوں کہ جس طرح میڈیا میں ایک تصویر پیش کی جاتی ہے حقیقت اس سے مختلف ہوسکتی ہے‘
اسی دورے پر آئے ایک غیر ملکی صحافی اینڈریو میکلین نے پاکستان سے متعلق ایک بلاگ بھی تحریر کیا ہے۔ اپنی ویب سائیٹ میکلین آن کرکٹ میں وہ لکھتے ہیں کہ ’میں توقع کر رہا تھا کہ بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے گزشتہ دوروں کی طرح ائیر پورٹ کے باہر ایک بڑا ہجوم ہوگا، لیکن اسلام آباد ایئر پورٹ سے نکل کر ایسا بالکل نہیں تھا بلکہ مسلح پولیس اہلکاروں کی تعداد نسبتا کم تھی جس نے مجھے بڑا متاثر کیا‘
اپنا موبائل سم خریدنے کا تجربہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’سری لنکا میں مجھے سم کارڈ ایک کارنر شاپ سے ہی مل گئی تھی لیکن یہاں مجھے سم رجسٹرڈ کروانے کے لیے کمپنی کی فرنچائز جانا پڑا اور پاسپورٹ اور ویزا دکھا کر رجسٹرڈ کروائی لیکن کم از کم یہ انڈیا سے بہتر ہے جہاں ہر ریاست کے لیے الگ سم خریدنا پڑتی ہے جبکہ یہاں ایک سم پورے پاکستان کے لیے کافی ہے‘
اسی دورے کی کوریج کے لیے اسلام آباد میں موجود برطانوی صحافی ایزابل ویسٹ بیوری کو گزشتہ سال انگلینڈ کا دورہ منسوخ ہونے پر شدید دکھ اور افسوس ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر انگلینڈ پاکستان کا دورہ منسوخ نہ کرتا تو ان کا بھی ایسا ہی استقبال کیا جاتا اور پاکستانی اتنے ہی زیادہ پرجوش ہوتے
وہ کہتی ہیں ’میں امید کر رہی تھی کہ اس دورے میں بہترین کرکٹ دیکھنے کا موقع ملتا اور اگر یہ دورہ شیڈول کے مطابق ہوتا ہے انگلینڈ کا بھی ایسا ہی خوش آمدید کہا جاتا اور اچھی کرکٹ دیکھنے کا موقع ملتا لیکن بدقستمی سے ایسا نہیں ہوا‘
پاکستانیوں کی کرکٹ سے دلچسپی کے تمام غیر ملکی صحافی معترف تو ہیں ہی، ساتھ ہی وہ پاکستانی کھانوں کے بھی دلدادہ ہیں اور مٹن کڑاہی، تندوری روٹی اور چکن کڑاہی غیر ملکی صحافیوں کا پاکستان میں پسندیدہ پکوان بن چکے ہیں
غیر ملکی صحافی اینڈریو میکلین 2009ع میں پاکستان کا دورہ کرنے کا اردہ کیا تھا لیکن لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد انہوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ وہ لکھتے ہیں ’میں نے 2009 میں پاکستان کے ویزے کے لیے تمام کاغذات تیار کر لیے تھے لیکن سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد میری والدہ نے مجھ سے پاکستان نہ جانے کی درخواست کی اور میں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا‘
اپنے بلاگ میں وہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف سِکس کے بارے لکھتے ہیں کہ ’نئی جگہ پیدل چلنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس سے آپ کم وقت میں بہت کچھ دیکھ پاتے ہیں اور اسی سے مجھے دو اہم چیزیں حجام کی دکان اور کباب ملے ہیں۔ یہاں اے ٹی ایم مشینیں بھی بڑی تعداد میں ہین، جو فائدہ مند ہیں اور لگتا ہے کہ یہاں کیش اکانومی بھی بہت زیادہ ہے۔‘
آسٹریلوی اخبار کے لیے سیریز کی کوریج کے لیے ایک صحافی نے پاکستان کے بارے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بطور سیاح 1994ع میں پاکستان آچکے ہیں اور وہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات سے بے حد متاثر ہیں۔ ’مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے کہ میں بطور صحافی کرکٹ کے لیے پاکستان دوبارہ آیا ہوں لیکن میں اس سے پہلے پاکستان کے قدرتی حسن اور پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے باعث ایک بار پہلے بھی یہاں آچکا ہوں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ مجھے خوشی ہے کہ آسٹریلیا پاکستان کا دورہ کر رہی ہے، ’جب یہاں (پاکستان) آتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ پاکستان کرکٹ اور ان کی عوام کے لیے یہ کتنا اہم ہے، میں بیس سال سے کرکٹ کی کوریج کر رہا ہوں اور یہ ہر لحاظ سے میرے کیرئیر کی ایک انتہائی اہم سریز میں سے ایک ہے۔‘