اس ماں کو باغ کی طرف کھلتی کھڑکی کے سرہانے اکیلے ہی بیٹھنا تھا کیونکہ جس رستے پر وہ چل رہی تھی وہ بلآخر اس کھڑکی پر ہی آکر ختم ہوتا تھا۔ تو اگر آج وہ اس خالی باغ کی طرف کھلتی کھڑکی کے کنارے بیٹھی اندر اور باہر کی خموش تنہائیوں کو جیتی ہے تو اس میں عجب کیا ہے؟
وہ جب ماں بنی تو اپنے ہی بچوں میں پھر سے جینے لگی تھی۔ اسے اپنی زندگی کو وہاں سے صحیح کرنا تھا جہاں سے وہ اس کی نظر میں بگڑی تھی۔ سو وہ ان چھوٹی چھوٹی جانوں میں اپنا نیا جنم دیکھتی تمام دوسرے ماں باپ کی طرح یہی سوچنے لگی تھی کہ اس کے بچے اس کی طرح نہیں جیئیں گے۔ ہماری تیسری دنیا کے سب ماں باپ یہی سوچتے ہیں
تو پھر کیسے جئیں گے؟
ویسے جیسے بچپن کو وہ خود جینا چاہتی تھی!
اس نے اپنے بچوں کو وہ سب کچھ دیا جو اسے نہیں مل سکا تھا۔ وہ بھول گئی کہ اسے ماں بننا تھا وہ خود کو بچہ بنا بیٹھی۔ اسے ماں کی نظر سے دیکھنا تھا، وہ ہر چیز کو اپنے بچوں کی نظر سے دیکھنے لگی۔ اور پھر وہ ماں ہوکر بھی اپنی بچوں کی زندگی نہ بنا سکی
یہ ہمارے معاشرے میں آج کے ماں باپ کے دکھ ہیں۔ ہم ساری عمر خود اپنے ہی ٹراما سے نکل نہیں پاتے بلکہ اسے دوسری نسل میں اسی طرح مکمل کامیابی سے منتقل کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں انسانوں کی تعمیر کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ہمارے ہاں زخمی دلوں اور اجڑی روحوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ہمارے دلوں پر لگے گھاؤ تمام عمر بھر نہیں پاتے کیونکہ وقت کے سوا اس کے مرہم کا ہمیں اور کوئی طریقہ نہیں آتا
ہمارے ہاں تباہ حال بچپن اور حسرت بھری جوانی کو مندمل کرکے نئے انسانوں کی تعمیر کا کوئی وجود ہی نہیں۔ ہم نسل در نسل اپنے ٹراما کے ساتھ جیتے رہتے ہیں اور بگڑی ہوئی نسلیں پروان چڑھاتے رہتے ہیں
ہم نے کتنے والدین دیکھے ہیں، جنہوں نے خود اردو ڈھنگ سے نہ سیکھی مگر بچوں کو انگریزی سکھانے کی جدوجہد میں ہزاروں لاکھوں لٹا دیے۔ ایسے کتنے ہیں جنہیں انگریزی کی تعلیم نصیب نہیں ہوسکی تھی اور اس سبب دفاتر اور اداروں سے اس افسری زبان کی وجہ سے انہیں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر اس دکھ کو لیے جب انہوں نے بچوں کو انگریزی سکھائی تو وہ اپنے بچوں سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے
اب وہ اپنی زبان میں جو بات بچوں کو سمجھانا چاہتے ہیں، سمجھا ہی نہیں پاتے کہ بچے بات کو ڈھنگ سے جس زبان میں سمجھ پاتے ہیں وہ تو والدین کو آتی ہی نہیں۔ اب اگر بات ڈھنگ سے سمجھ ہی نہ آئے تو اس میں تاثیر کہاں سے اترے؟
’آج کل کے بچے ہماری نہیں سنتے‘، اس وقت تمام والدین کا یہی رونا ہے لیکن وہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ آپ کی زبان بچوں کے شعور پر اتر ہی نہیں پاتی۔ جن کے والدین کو اردو نہ آتی تھی وہ اردو دان ہوکر والدین کی زبان کی تاثیر سے نکل گئے۔ جن کو انگریزی نہ آتی تھی ان کے بچے آج صرف انگریزی محاورے سمجھ پاتے ہیں لیکن وہ زبان والدین بول نہیں پاتے۔ تو اب رابطہ کیسے ہو؟ دونوں نسلوں کے بیچ میں گرہ کیسے باندھی جائے کہ ایک کی آواز دوسرے کے کان کے پردوں پر کوئی نقش ہی نہیں بنا پاتی۔ ہماری تین نسلیں اسی کشمکش میں اپنی اقدار سے صدیوں کے فاصلے پر جاچکی ہیں
کتنے ہی والدین ہیں جو اپنا تمام تر بچپن صرف ایک گیند سے کھیل کر گزار دیتے تھے اور اب کھلونوں کے انبار سے بچوں کے کمرے بھر دیتے ہیں کیونکہ آج بھی ان کے اندر وہی بچہ آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے جو کھلونوں کی دکان کو حسرت سے تکتا رہا مگر ان تک پہنچ نہ سکا۔ ہم جیسے نا آسودہ حال لوگ جو اپنے ٹوٹے خوابوں پر بھی مرہم نہ رکھ سکے، ایک عمدہ نسل کی تعمیر کے خواب دیکھتے ہیں۔ ہم کتنے انجان ہیں!
کیا ہمیں کسی نے بتایا کہ والدین بننے سے پہلے ہماری حسرتوں کا علاج ضروری ہے۔ جو زخم ہمیں لگے تھے ان کا مرہم ہم پر ہی لگے گا ہماری اولاد پر نہیں۔ ہم اپنے حصے کی دوائیاں اپنے بچوں کو پلا کر ان کی زندگیوں کو مزید مشکلات میں دھکیل دیتے ہیں
کتنے لوگ ہیں جو جوانی میں کسی وجہ سے ڈاکٹر یا انجینیئر نہ بن سکے مگر اب وہ اپنے خوابوں کو اپنے بچوں کے ناتواں کاندھوں پر لادنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ بچہ اس کا بوجھ اٹھا سکے گا یا نہیں؟ یا وہ ایسا کرنا چاہتا بھی ہے یا نہیں؟ ہوسکتا ہے وہ تخریبی نہیں تعمیری ہو مگر آپ نے غلط منزل کے خواب دیکھ کر اپنی کمر ہی توڑ دی اور عمر گزار دینے کے بعد اب اپنے بچوں کی کمر کے درپے ہیں
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں نفسیاتی تعلیم یا ہمارے نفسیاتی مسائل کا حل کس قدر ضروری ہے؟ ہمارے تھوڑے سے مہنگے تعلیمی اداروں میں ایک اسٹوڈنٹ کونسلر کچھ نہیں کرسکتا۔ آپ کو کتابوں میں ہر سال اپنی نسلوں کو پڑھانا اور بتانا ہوگا کہ یہ زندگی کے خواب نہیں حسرتیں ہیں۔ یہ چاند سورج اور ستارے نہیں زندگی کا ٹراما ہیں جو صحت مند زندگی اور صحت مند نسلوں کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں
جو بچہ کھلونوں کے ڈھیر سے خوش نہ ہوسکا اسے ہم مزید کیا پیش کرسکیں گے؟ جو بچے سب سے مہنگے اور اعلیٰ اسکولوں سے بھی سکون، علم اور امید نہ لے سکے پھر ان کے آگے اب کونسی منزل رکھیں گے؟
عجیب سی نئی باتیں اور نئے خیال ہیں مگر اہم ہیں، کہ کامیابی خوشی اور نیکی رویوں اور عادتوں سے جنم لیتی ہے، زبانوں، کتابوں اور کھلونوں کے ڈھیر اور اعلیٰ تعلیمی اداروں سے نہیں
اگر بچہ ایک کھلونے سے خوش ہونا نہیں سیکھ سکا تو وہ ایک سو سے بھی خوش نہیں ہوسکے گا۔ اگر بچہ اردو سے کچھ نہ بن سکا تو انگریزی سے تو کبھی نہیں بن سکے گا۔ اسکول چھوٹا ہو یا بڑا اگر بچے نے اس سے کچھ لینا ہی نہیں سیکھا تو ہمیشہ بے کار رہے گا
ہم نے والدین بننا تھا، مگر ہم خود بچے بن بیٹھے اور ان کو وہ سب دینے لگے جن کی طرف ان کی انگلی گئی۔ نتیجتاً ہم ان کو چیزیں دینے میں بسر ہوگئے اور سبق نہ دے سکے
ہم جب لڑکے اور لڑکی کی شادی کرتے ہیں تو لاکھوں روپے ان کے ملبوسات، جہیز، تقریبات، گھر اور ہنی مون پر لٹاتے ہیں۔ ہم میں سے کوئی نہیں سوچتا کہ جس نئے سفر پر یہ 2 لوگ نکل رہے ہیں اس کے لیے وہ ذہنی اور نفسیاتی طور پر تیار بھی ہیں یا نہیں۔ ان کی زندگیوں کی محرومیوں کا بوجھ ان کے کاندھوں سے اتر چکا کہ نہیں، کیا وہ ماضی کے بوجھ سے نکل کر اگلی نسل کی تیاری کے قابل ہوچکے یا نہیں؟ بلکہ اکثر تو ہم ان کے نفسیاتی امراض کے حل کے لیے ہی شادیاں کردیتے ہیں کہ جیسے یہ کوئی گیڈر سنگی ہے جس میں ہر مرض کا علاج ہے
حقیقت یہ ہے کہ جب تک ماں باپ ذہنی بلوغت نہیں پاسکیں گے تب تک وہ اچھی نسلوں کی تعمیر سے قاصر رہیں گے۔ جب تک وہ اپنے بچوں میں جینے کی خواہش نہ چھوڑیں گے تب تک وہ اپنے بچوں کو بہتر انسان نہیں بنا سکیں گے۔ تو آج کے بچے ہمارے ہاتھوں سے اس لیے نکل گئے کہ ہم ان کو اپنے ہاتھوں میں لے ہی نہ سکے۔ ہم نے ٹرینر بننا تھا، مگر ہم نے انہی سے ہدایت لینی شروع کردی۔ پھر انجام کار آخر کھڑکی میں اکیلے بیٹھ کر تنہائیوں کو ناپنا پڑگیا تو حیرت کیسی؟
بشکریہ : روزنامہ ڈان