پشاور – صوبہ خیبر پختونخوا کی ایک میڈیکل یونیورسٹی میں ذہنی صحت کے حوالے سے رواں ہفتے منعقد کیے گئے ایک ورکشاپ میں شرکت کرنے والے قومی وبین الاقوامی ماہرین نفسیات نے نہ صرف صوبہ خیبر پختونخوا بلکہ پاکستان بھر میں ’سائکوسس‘ کو ایک بہت بڑا چیلنج قرار دیا ہے
پشاور میں واقع خیبر میڈیکل یونیورسٹی جہاں حال ہی میں برطانیہ کی ریسرچ یونیورسٹی کیل اور میڈیکل ریسرچ کونسل برطانیہ کے تعاون اور مالی امداد سے دماغی صحت پر ایک تحقیقی مطالعے کا آغاز ہوا ہے
ماہرین نے اس مطالعے کو ایک بروقت تحقیق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مسائل پر بہتر انداز میں قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے
خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں منعقدہ ورکشاپ میں ماہرین نفسیات نے خبردار کیا کہ پاکستان میں مختلف ذہنی امراض خصوصاً سائکوسس میں اضافہ ہو رہا ہے
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے تحقیق کی کمی اور عوام کی کم علمی مسائل میں اضافے کا سبب بن رہی ہے
سائکوسس کیا ہے؟
جب ایک شخص حقیقت کی دنیا سے رابطہ توڑ کر وہم و فریب میں اس حد تک مبتلا ہو جاتا ہے کہ اس کو وہ چیزیں سنائی اور دکھائی دیتی ہیں، جو کسی اور کو نظر نہیں آتیں، جبکہ ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ طب کی کتابوں میں اس کیفیت کو ’سائیکوسس‘ کہا جاتا ہے
آکسفورڈ یونیورسٹی سے دماغی صحت پر پی ایچ ڈی کرنے والی کلینیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر نائیلہ ریاض کہتی ہیں ”گذشتہ دس، پندرہ سال سے طب کی دنیا میں بحث ہو رہی ہے کہ 2020ع تک دنیا میں امراضِ قلب کے بعد دوسرا اہم طبی مسئلہ ’دماغی امراض‘ کا ہوگا“
ڈاکٹر نائیلہ ریاض نے کہا کہ ”دماغی صحت کے شعبے میں ہمیشہ ’ڈپریشن‘ کو سرفہرست سمجھا جاتا رہا ہے اور اسی وجہ سے تمام تر توجہ اسی پر مرکوز رہی۔ تاہم پچھلے کچھ سالوں سے ماہرین نفسیات سائیکوسس کی جانب راغب ہوگئے ہیں“
نائلہ ریاض نے بتایا کہ دماغی صحت کی دو اقسام ہیں ’نیوروسس‘ اور سائکوسس‘ ہیں
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ”نیوروسس ایک معتدل ذہنی خلفشار یا پریشانی کا نام ہے، جو کہ اسٹریس، ڈپریشن اور ذہنی اضطراب کی وجہ سے جنم لیتا ہے، جبکہ سائکوسس شخصیت میں ایک غیرمعمولی تبدیلی کا نام ہے، جس کی وجہ سے ذہن میں ایک ہلچل مچ جاتی ہے“
انہوں نے کہا کہ سائکوسس میں ایک شخص ’ہیلوسینیشن‘، ’ڈیلوژن‘، اور ’آئسولیشن‘ جیسی علامات کا شکار ہو جاتا ہے
جبکہ سائیکوسس میں مبتلا شخص میں غیر موجود کسی شخص سے باتیں کرنے، آوازیں سنائی دینے، بے خوابی، عدم استحکام اور گھبراہٹ، اشتعال انگیزی، طبیعت میں رد و بدل اور دھیان دینے میں دشواری، چڑچڑا پن، اینٹی سوشل ہو جانے، لوگوں سے متنفر اور بے زار رہنے جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں
سائکوسس کی وجوہات
طبی تحقیق کے مطابق صدمہ، کسی قریبی رشتہ دار کی موت، سر میں رسولی، کام کا بوجھ، منشیات کا استعمال وغیرہ سائکوسس کی وجہ بن سکتے ہیں
ڈاکٹر نائلہ ریاض کے مطابق بعض اوقات، سائکوسس تیز بخار میں بھی ہو جاتا ہے اور مریض بے تکی اور غیر حقیقی باتیں کرنے لگتا ہے
انہوں نے بتایا ”ٹراما یا صدمہ سائکوسس کی ایک بڑی وجہ بنتی ہے۔ خیبر پختونخوا، قبائلی اضلاع اور افغانستان کے ایسے مریض جو دہشتگردی اور بم دھماکوں کے صدمے سے گزرے ہیں، وہ سائکوسس کا نشانہ بنے“
خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں اس بیماری پر روشنی ڈالتے ہوئے ماہرین نفسیات نے کہا کہ پاکستان جیسے کم آمدنی والے ممالک میں نوجوانوں میں سائکوسس دو سال تک غیر تشخیص شدہ اور لاعلاج رہتا ہے
انہوں نے بتایا کہ اٹھارہ ماہ کے اندر اس بیماری کو باآسانی ٹھیک کیا جاسکتا ہے، جبکہ بعد ازاں یہ پیچیدہ شکل اختیار کر جاتی ہے
پشاور میں مقیم سائیکالوجسٹ پلوشہ خان کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وہ گھر بیٹھے آن لائن کلینک چلاتی ہیں اور ان کے پاس قریباً دس ہزار مریضوں میں ایک بڑی تعداد سائکوسس کے شکار افراد کی ہے
انہوں نے کہا ”پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا میں دماغی صحت کے مسائل اس لیے بھی زیادہ ہیں کہ یہ صوبہ نہ صرف دہشتگردی سے متاثر ہوا ہے بلکہ یہاں کے رسم و رواج بھی ان میں اضافے کا سبب ہیں“
وہ کہتی ہیں ”افسوس یہ ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی کم علمی کی وجہ سے ان ذہنی امراض کو جن بھوت کا نام دے کر آج بھی پیروں فقیروں کے پاس علاج کے لیے جاتی ہے، جس کی وجہ سے ایک باآسانی حل ہونے والا مسئلہ پیچیدہ ہو جاتا ہے اور علاج کا عمل پھر تمام عمر چلتا رہتا ہے“
پلوشہ خان نے کہا ”سائکوسس ایک قابل علاج مرض ہے اور اس میں کاؤنسلنگ کی بجائے ماہرین نفسیات دوائیں تجویز کرتے ہیں“