”روٹی نہیں ہے تو کیک کھا لیں“ جیسی منسوب کی گئی باتیں صحیح یا غلط؟

ویب ڈیسک

کراچی – اکثر اپنی بات دوسروں تک مؤثر طور پر پہنچانے اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے لوگ کسی بڑی اور مشہور شخصیت کے کسی قول کا حوالہ دیتے ہیں، لیکن اس بات کا بہت کم ہی خیال رکھا جاتا ہے کہ جس قول کا حوالہ دیا جا رہا ہے، وہ درست بھی ہے یا نہیں

ہم اس رپورٹ میں سنگت میگ کے قارئین کے لیے چند ایسے اقوال پیش کر رہے ہیں، جنہیں مختلف تاریخی شخصیات سے غلط طور پر منسوب کیا جاتا ہے. مورخین انہیں من گھڑت قرار دیتے ہیں.

موہن داس کرم چند گاندھی سے ایک قول منسوب ہے، جو اکثر و بیشتر ان کے حوالے سے استعمال کیا جاتا ہے، اور وہ ہے ’آپ وہ تبدیلی بن جائیں جو آپ دنیا میں دیکھنا چاہتے ہیں‘

برطانوی راج کے خلاف بھارت میں آزادی کی تحریک کے رہنما گاندھی کے اس قول میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر تبدیلی ذاتی ذمہ داریوں کے ادا کرنے سے شروع ہوتی ہیں

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس بات کا کوئی رکارڈ موجود نہیں ہے کہ انہیں کبھی ایسا کہتے ہوئے سنا گیا ہو یا کھبی انہوں نے ایسا لکھا ہو

اس سے قریب ترین بات جو انھوں نے کہی اور سنہ 1913 میں ایک اخبار ’انڈیا اوپینین‘ میں شائع ہوئی وہ یہ تھی ’ہم دنیا کا آئینہ ہیں۔ جو بھی رجحانات باہر کی دنیا میں پائے جاتے ہیں، وہ ہمارے جسم کی دنیا میں موجود ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو تبدیل کر سکیں تو دنیا کے رجحانات بدل سکتے ہیں‘

ایک اور قول مشہور ادیب والٹیئر سے منسوب ہے کہ ’آپ جو کہتے ہیں، میں اس کو رد کرتا ہوں لیکن میں مرتے دم تک یہ بات کہنے کے حق کا دفاع کروں گا‘

اس قول کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ فرانسیسی مصنف اور فلسفی والٹیئر کا ہے۔ اکثر آزادی رائے کے علمبردار حوالے کے طور پر اس قول کو استعمال بھی کرتے ہیں. اخبارات کے عوامی مراسلات کے کالم کے لیے تو یہ قول جیسے منشور کے طور پر استعمال کیا اور لکھا جاتا ہے

اصل میں اس قول میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر آپ لوگوں کی آزادی رائے پر کامل یقین رکھتے ہیں تو آپ اس کا دفاع کریں گے باوجود اس کے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں آپ سننا نہیں چاہتے اور اسے ناگوار محسوس کرتے ہیں

سنہ 1694 میں پیدا اور سنہ 1778 میں وفات پانے والے والٹیئر یقیناً آزادی اظہار پر یقین رکھتے تھے۔ ان کی اکثر تحریروں میں مسیحوں کے کیتھولک فرقے پر لوگوں کی آزادی اظہار کو محدود کرنے کی کوششوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن انہوں نے یقینی طور پر کبھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یہ قول درج نہیں کیا

اس قول کی جڑیں والٹیئر کی وفات کے ایک سو سال بعد سنہ 1906ع میں بیٹریس ہال کی تحریر کردہ سوانح عمری میں ملتی ہیں۔ انہوں نے آزادی اظہار پر والٹیئر کے افکار بیان کرتے ہوئے یہ لائن تحریر کی

والٹیئر آزادی اظہار کے علمبرداروں میں سے تھے، جس کی وجہ سے ان کا یہ قول غلط طور پر منسوب ہو گیا

اس کے علاوہ ایڈمنڈ برک سے یہ مشہور عالم قول منسوب ہے کہ ’برائی کی جیت کے لیے صرف یہ ضروری ہے کہ اچھے لوگ کچھ نہ کریں‘

ایڈمنڈ برک اٹھارویں صدی کے فلسفی، سیاستدان اور مصنف تھے، جو بیس سال سے زیادہ عرصے تک وگ پارٹی کے رکن پارلیمنٹ رہے۔ ان کے اکثر حوالہ جات میں سے یہ ایک ہے

یہ متاثر کن لگتا ہے، لیکن کچھ لوگوں کا استدلال ہے کہ یہ اپنے معنی کے اعتبار سے ذرا سا مشکوک لگتا ہے

جیسا کہ ’دی انٹلیکچوئل لائف آف ایڈمنڈ برک‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اُن کی سوانح عمری کے مصنف ڈیوڈ بروم وِچ نے روئٹرز کو بتایا کہ ’اس قول کے بارے میں جو چیز آپ کو سب سے واضح لگتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ کتنا مبہم یا بے معنی لگتا ہے

ڈیوڈ بروم وچ کا اس قول لے حوالے سے کہنا ہے کہ صرف اچھے آدمیوں کی خاموشی ضروری نہیں ہے، برائی کی فتح کے لیے برائی کو آگے بڑھانے والے افراد کا مضبوط اور پرعزم ہونا بھی اہم ہوتا ہے اور خاموش رہنے والے یا تو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں یا ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں

برک نے درحقیقت 1770ع میں جو کہا تھا وہ یہ تھا، ”جب برے آدمی اکٹھے ہوتے ہیں، تو اچھوں کو بھی متحد ہونا چاہیے۔ ورنہ وہ ایک ایک کر کے، ناکام جدوجہد میں بے کار قربان ہو جائیں گے“

ایسا لگتا ہے کہ اس اقتباس کو بعد میں فوراً ہی بگاڑ دیا گیا، یہاں تک کہ صدر جان ایف کینیڈی نے بھی سنہ 1961 میں ایک مشہور تقریر میں اس کا حوالہ دیا تھا

ایک اور مشہور قول جارج واشنگٹن سے منسوب کیا جاتا ہے کہ ’میں جھوٹ نہیں بول سکتا۔ میں نے چیری کا درخت کاٹ دیا ہے’

واضح رہے کہ امریکا کے پہلے صدر جارج واشنگٹن اپنے حامیوں میں اپنی ایمانداری کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے

یہ بات ایک کہانی سے واضح ہوتی ہے، جس میں چھ سالہ واشنگٹن نے اپنے والد کے قیمتی چیری کے درخت کو کاٹ دیا تھا، لیکن جب اس کی تخریب کاری کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے فوراً اپنے جرم کا اعتراف کر لیا

یہ ایک خوبصورت اور کثرت سے بیان کی جانے والی کہانی ہے، جو واشنگٹن کی خوبیوں کی علامت بن گئی۔ یہ پہلی بار واشنگٹن کے سوانح نگار میسن لاک ویمز کی کتاب میں سامنے آئی، جو 1799ع میں واشنگٹن کی موت کے ایک سال بعد شائع ہوئی تھی

لیکن اس کہانی کو 1806ع میں پانچویں ایڈیشن تک ویمز کی کتاب میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اس سے قبل اس کا کوئی اور ثبوت نہیں ملتا، کچھ کا کہنا ہے کہ یہ کہانی مکمل طور پر گھڑی گئی ہے

’روٹی نہیں تو کیک کھا لیں“ یہ غالباً اس فہرست کا سب سے مقبول ترین قول ہے، جو میری اینٹونیٹ سے منسوب کیا جاتا ہے

میری اینٹونیٹ 1789 کے فرانسیسی انقلاب کے دور میں فرانس کی ملکہ تھیں۔ جب انہیں بتایا گیا کہ اُن کی بھوک سے مرنے والی رعایا کے پاس کھانے کے لیے روٹی نہیں ہے تو کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ ’وہ کیک کیوں نہیں کھاتے؟‘

اس قول کا مقصد یا تو یہ ظاہر کرنا ہے کہ وہ غریب لوگوں کی حقیقی زندگیوں سے کس طرح بے تعلق تھیں یا انہیں عوام کی کوئی پرواہ نہیں تھی

ایسا لگتا ہے کہ یہ کہانی روشن خیال فلسفی ژاں جیک روسو کی تحریروں میں سنہ 1767 کے آس پاس منظر عام پر آئی ہے، لیکن وہ صرف اس کا انتساب ’ایک عظیم شہزادی‘ سے کرتے ہیں

چونکہ اینٹونیٹ اس وقت ایک بچی تھیں، اس لیے اس کا امکان نہیں ہے کہ وہ شہزادی کے بارے میں بات کر رہی تھیں۔ اس کے علاوہ مختلف سنگ دل اشرافیہ کے بارے میں ایسی ہی کہانیاں برسوں سے گردش کر رہی تھیں

یہ قول پہلی مرتبہ میری اینٹونیٹ سے منسوب مصنف ژاں بیپٹسٹ الفونس کار کے ایک پمفلٹ میں کیا گیا، جو اُن کی موت کے پچاس سال بعد شائع ہوا اور اس وقت بھی یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ان سے یہ غلط طور پر منسوب کیا گیا ہے اور یہ ایک افواہ ہے

اگرچہ یہ قول فرانس کی ملکہ کے ساتھ غلط طور پر منسوب کیا جاتا ہے، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ قول اشرافیہ اور حکمران طبقے کی ذہنیت کی نشاندہی بلکل درست طور پر کرتا ہے. یقین نہ آئے تو تیسری دنیا کے غریب ملکوں کے حکمرانوں کے مختلف وقتوں میں دیے گئے بیانات ہی دیکھ لیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close