اسلام آباد_ قائداعظم یونیورسٹی میں طالب علموں کو ہراساں کرنے پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے بڑا حکم دے دیا
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لاپتہ طالب علم حفیظ بلوچ کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزاروں کی جانب سے ایڈووکیٹ ایمان زینب مزاری پیش ہوئیں
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بلوچ طلبہ اتنے دن احتجاج کرتے رہے لیکن وفاقی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑا ، کیوں بلوچستان کے طلبہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی پروفائلنگ (کوائف) اکٹھے کیے جارہے ہیں، کتنے عرصے سے وہ پریس کلب پر بیٹھے ہیں کسی پر کوئی اثر نہیں پڑا، ریاست کی ہمدردی ہونی چاہے خاص طور پر جس علاقے کے لوگ محسوس کریں ان کا تو زیادہ خیال رکھنا چاہیے
بلوچ طلبہ کے نمائندے قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علم محمد عبد اللہ نے عدالت کے سامنے پیش ہوکر کہا کہ حفیظ بلوچ کے لاپتہ ہونے سے پہلے ہی ہمیں ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے، 26 دن سے ہمارے پاس وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کے علاوہ کوئی اور نہیں آیا ، ہم اپنی جان کو بچائیں یا پڑھیں
عدالت نے وزیر داخلہ شیخ رشید کو کل بلوچ طلبہ سے ملاقات کر کے ان کی شکایات سننے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وزیر داخلہ کی کل ان طلبہ سے ملاقات کرائیں اور جمعہ تک رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ وزیر داخلہ کی دستیابی دیکھنے دیں، پھر ملاقات کروا دینگے۔ تو چیف جسٹس نے سختی سے کہا کہ وزیر داخلہ کل ہی طلبہ سے ملیں گے ورنہ یہ عدالت وزیر داخلہ کو طلب کریگی، یہ عدالت وزیر داخلہ کو طلب نہیں کرنا چاہتی، لیکن اگر کسی نے بلوچ طلبہ کو ہراساں کیا تو وزیر داخلہ براہ راست ذمہ دار ہونگے
عدالت نے حفیظ بلوچ کی بازیابی کیس پر جواب طلب کرتے ہوئے سماعت جمعہ تک ملتوی کردی