سیمنٹ کے تھیلے سے ملا خط (جاپانی ادب سے منتخب افسانہ)

ہیاما یوشیکی (ترجمہ: محمد عباس)

ماٹ سوڈو یوزو مشین میں ڈالنے کے لیے سیمنٹ کے تھیلے خالی کر رہا تھا۔ اس کے بال اور اوپری ہونٹ گہری سرمئی تہہ میں غرق تھے البتہ اس نے اپنے بقیہ جسم سے سیمنٹ جھاڑ لیا تھا۔ وہ شدت سے چاہ رہا تھا کہ ناک میں انگلی گھسیڑ کر سختیایا ہوا سیمنٹ باہر کھرچ ڈالے، جو اس کے نتھنوں کے بالوں کو تھپے ہوئے کنکریٹ کی طرح اکڑا چکا تھا لیکن سیمنٹ مکسر ہر منٹ میں دس مربع فٹ کنکریٹ مکس کر باہر پھینک رہی تھی اور وہ اُس کی رفتار کے ساتھ چلنے پر مجبور تھا۔

شدید تر خواہش کے باوجود گیارہ گھنٹے کے اوقات کار میں ایک دفعہ بھی اسے اپنی ناک صاف کرنے کا موقع نہ ملا۔ اسے دو وقفے ملتے تھے۔ایک ظہرانے کا اور دوسرا تین بجے؛ ظہرانہ کے مختصر وقفے میں وہ بھوکا تھا اور اسے کھانا نگلنے پر توجہ مرتکز کرنی تھی۔ اسے امید تھی کہ دوپہر کے وقفے میں ناک صاف کر لے گا مگر وقت آنے پر اس کی بجائے سیمنٹ مکسر کو صاف کرنا پڑا۔ بعد از دوپہر تو یوں لگتا تھا کہ اس کی ناک پلاسٹر آف پیرس کی بنی ہوئی ہے۔

گھسٹتے ہوئے دن ختم ہوا۔ اس کے بازو تھکن سے مفلوج ہو چکے تھے اور اسے تھیلے اٹھانے کے لیے اپنی تمام تر طاقت صرف کرنی پڑتی تھی۔ اس کے تھکے ہوئے ہاتھوں نے ایک تھیلا خالی کیا تو اسے لکڑی کا ایک چھوٹا سا ڈبہ سیمنٹ میں پڑا نظر آیا۔

’یہ کیا ہے؟‘ وہ ذراحیران ہوا لیکن اس نے تجسس کو اپنے کام کی رفتار پر حاوی نہ ہونے دیا۔ اس نے عجلت میں بیلچے سے سیمنٹ کو نکال کر پیمانے میں ڈالا اور اسے مکسنگ کشتی میں خالی کر کے دوبارہ بیلچے سے سیمنٹ نکالنے لگا۔

’ایک منٹ۔‘ وہ خود سے بڑبڑایا، ’آخر سیمنٹ کے تھیلے میں کوئی ڈبہ ہوگا ہی کیوں؟‘

اس نے ڈبہ اٹھایا اور اپنے اوور آل کی سامنے کی جیب میں ڈال لیا۔

’اتنا وزنی تو نہیں ہے۔ بھوتنی کا۔۔ اس میں زیادہ رقم نہیں ہو سکتی۔ تو پھر اور کیا ہے؟‘
اتنے ذرا سے توقف نے اسے کام میں پیچھے کر دیا تھا اور اب اسے سیمنٹ مکسر کو رَلنے کے لیے تیزی سے بیلچہ چلانا تھا۔ ایک وحشی مشین کی طرح اس نے اگلا تھیلا خالی کیا اور مصالحے کو نئے سانچے کے پیمانے پر ڈال دیا۔

اب مکسر آہستہ پڑنا شروع ہوا اور ایکا ایک رک گیا۔ یہ ماٹ سوڈو یوزو کے لیے دِن ٹھپ دینے کا وقت تھا۔ اس نے مکسر کے ساتھ لگا ربڑ کا پائپ اٹھایا اور اپنا منہ ہاتھ دھونے کے لیے ابتدائی کوشش کر لی۔ تب اس نے لنچ باکس گلے میں لٹکایا اور اپنے گھر کی طرف واپس ہو لیا۔ اس کا دھیان اپنے شکم میں کچھ کھانے کو، اور سب سے اہم چاول کی شراب کا ایک تگڑا مگ ڈالنے میں لگا تھا۔

وہ پاور پلانٹ کے قریب سے گزرا۔ تعمیراتی کام تقریباً مکمل ہو چکا تھا۔ جلدی ہی بجلی کی تنصیب شروع ہو جائے گی۔ کچھ فاصلے پر ’مٹ کیرا‘ شام کی تاریکی میں اپنا برف سا خالص سفید کوٹ پہنے استادہ تھے۔ اس کا پسینہ آلود جسم یک لخت سردی سے جکڑا گیا اور کپکپی طاری ہو گئی۔ پھر وہ دریائے کیسر کے قریب سے گزرا، جس کے پانی میں ہلکی غراہٹ کے ساتھ دودھیا جھاگ شامل تھی۔

’سب پر لعنت ہو۔‘ ماٹسوڈو یوزو نے سوچا، ’یہ برداشت سے باہر ہے۔۔ بالکل برداشت سے باہر۔۔ بڑھیا پھر حاملہ ہے۔‘

اسے ان چھ بچوں کا خیال آیا، جو پہلے ہی ان کے گھرمیں کلبلاتے تھے۔۔ اس نئے بچے کا، جو سردیوں کے آتے ہی پیدا ہونے والا تھا اور اپنی بیوی کا، جو ایک کے بعد ایک بچے کو پیدا کرتی جا رہی تھی۔ وہ دل سے عاجز آ چکا تھا۔

’اب دیکھو۔‘ وہ بڑبڑایا، ’وہ مجھے ایک ین اور نوے سین ایک دن کے ادا کرتے ہیں اور ان میں سے ہمیں پچاس سین فی پیمانہ کے حساب سے چاولوں کے دو پیمانے خریدنے ہوتے ہیں اور اس کے بعد ہمیں مزید نوے سین رہنے اور کپڑوں کے دینے پڑتے ہیں۔ سب پر لعنت ہو۔۔ کیسے امید کی جا سکتی ہے کہ ایک مگ شراب کے لیے پیسے بچیں گے۔‘

یوں ہی اسے جیب میں پڑے چھوٹے ڈبے کا خیال آ گیا۔ اس نے وہ نکالا اور اسے اپنے پاجامے سے رگڑا تاکہ سیمنٹ صاف ہو جائے۔ ڈبے پر کچھ نہیں لکھا تھا۔ یہ بحفاظت طریقے سے سر بمہر تھا۔

’ہونہہ۔ آخر کیوں کوئی ایسے ڈبے کو اس طرح سربمہر کرنا چاہے گا۔ جو بھی ہے بہت پُر اَسرار لگتا ہے۔‘

اس نے ڈبے کو پتھر پر مارا لیکن ڈھکنا پھر بھی نہ اترا۔ سخت جھنجھلا کر اس نے اسے نیچے پھینکا اور اس پر غصے سے کودنے لگا۔ ڈبہ ٹوٹ گیا اور زمین پر ایک ٹاکی میں لپٹا ہوا کاغذ کا ٹکڑا گر گیا۔ اس نے اٹھایا اور پڑھنا شروع کیا:
’میں ایک فیکٹری مزدور لڑکی ہو جو ’نومرا ‘سیمنٹ کمپنی میں کام کرتی ہوں۔ میں سیمنٹ کے تھیلے سیتی ہوں۔ میرا محبوب بھی اسی کمپنی میں کام کیا کرتا تھا۔ اس کے ذمے پتھر کو اٹھا کر کرَشر میں پھینکنا تھا۔ 7 اکتوبر کی صبح جب وہ ایک بڑی چٹان پھینکنے والا تھا کہ کیچڑ میں پھسل گیا اور کرَشر میں سیدھا چٹان کے نیچے جا گرا۔
دوسرے لوگوں نے اسے باہر نکالنے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ وہ چٹان کے نیچے دب گیا، بالکل جیسے اسے ڈبو دیا گیا ہو۔ پھر چٹان اور اس کا جسم کٹ گئے اور ایک بڑا گلابی پتھر بنے ہوئے ایجیکٹر سے اکٹھے باہر نکلے۔ وہ کنوییئر بیلٹ پر گرے اور رگڑنے والی مشین پر پہنچ گئے۔ پتھروں کے ہمراہ اسے بھی چھوٹے، مزید چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا تو کسی جادو کے اثر سے میں اس کی چیخیں سن رہی تھی۔ پھر اسے بھٹی میں ڈال کے پکایا گیا اور وہ سیمنٹ کی شکل میں ڈھل گیا۔ اس کی ہڈیاں، اس کا گوشت، اس کا دماغ سب پاؤڈر میں بدل گیا تھا۔ میرے محبوب کا سب کچھ سیمنٹ بن گیا۔۔ جو بچا، وہ صرف اس کے اوور آل سے بچا یہ کپڑے کا ٹکڑا تھا۔ آج میں وہ تھیلا سینے میں لگی تھی، جن میں وہ اسے ڈالیں گے۔
میں یہ خط اس کے سیمنٹ بننے سے اگلے دن لکھ رہی ہوں اور جب میں لکھ لوں گی تو میں اسے سیمنٹ کے اس تھیلے میں ڈال دوں گی۔
کیا تم بھی ایک مزدور ہو؟ اگر ہو تو ترس کھا کر مجھے جواب ضرور دینا۔
اس تھیلے کا سیمنٹ کس مقصد کے لیے استعمال ہوا؟ میں یہ جاننے کی شدت سے خواہش مند ہوں۔
اس سے کتنا مصالحہ تیار ہوا۔۔ اور کیا یہ ایک ہی جگہ استعمال ہوا یا مختلف جگہوں پر۔۔ تم مستری ہو یا محض پلستریے؟
میں اسے کسی تھیٹر کا کوریڈور یا کسی بڑے مینشن کی دیوار بنے نہیں دیکھ سکتی۔۔ لیکن آخر یہ روکنے کو میں کر ہی کیا سکتی ہوں؟ اگر تم کوئی مزدور ہو تو مہربانی کر کے یہ سیمنٹ ایسی کسی جگہ مت استعمال کرنا۔۔
دوسری طرف، خیر یہ مسئلہ بھی نہیں، اسے جہاں چاہو، استعمال کرو۔ وہ جہاں بھی دفن ہوگا، اسے بہتر بنائے گا۔ وہ بہت مضبوط شخص تھا اور وہ جہاں بھی پہنچا، بھلا ہی کرے گا۔۔
تمہیں بتاؤں، اس کی فطرت بہت نرم تھی لیکن وہ دلیر اور توانا شخص بھی تھا۔ وہ ابھی جوان تھا۔ محض پچیس کا ہونے والا تھا۔ مجھے یہ جاننے کا موقع ہی نہ ملا کہ وہ مجھے کس حد تک پیار کرتا ہے۔۔ اور یہاں میں اس کے لیے کفن یا سیمنٹ کا تھیلا سی رہی ہوں۔ جنازہ گاہ میں جانے کی بجائے اس کی آخری رسومات بھڑکتی بھٹی پر ہوئیں۔۔ لیکن میں اس کو الوداع کہنے کے لیے اس کی قبر کا نشاں کیسے تلاش کروں؟ تمہیں پتا ہے، مجھے ذرا سا اندازہ تک نہیں کہ وہ کہاں دفن ہوگا۔ مشرق یا مغرب۔ دور یا نزدیک۔۔۔؟ جاننے کا کوئی طریقہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں آپ کے جواب کی خواہاں ہوں۔ اگر تم مزدور ہو تو مجھے جواب دو گے۔۔۔ دو گے نا؟ اور بدلے میں مَیں اس کے اوور آل کے کپڑے کا ٹکڑا تمہیں دوں گی۔۔۔ جی ہاں! وہ ٹکڑا، جس میں یہ خط لپٹا ہوا ہے۔ اس چٹان کی دھول، اس کے بدن کا پسینہ۔۔۔ سب اس کپڑے کے اندر چلا گیا ہے۔ جس لباس سے یہ ٹکڑا الگ ہوا، اسے پہنے ہوئے، وہ مجھے کس گرم جوشی سے گلے لگاتا تھا۔
میں تم سے بِنتی کرتی ہوں۔ میرے لیے اتنا کر دینا۔۔۔کرو گے نا؟ میں جانتی ہوں یہ کافی جھنجھٹ ہے لیکن مہربانی کر کے مجھے بتا دینا کہ یہ سیمنٹ کب استعمال ہوا اور کس مقام پر، کس طرح کی جگہ پر۔۔۔ اور تمہارا اپنا نام بھی۔۔۔ اور تم بھی اپنا خیال رکھا کرنا۔ الوداع۔‘
٭٭٭
ماٹسوڈو نے بچوں کے ٹولے کو اپنے ارد گرد اودھم مچاتے پایا۔ اس نے خط کے آخر پر دیے گئے نام اور پتے کو دیکھا اور چائے کے مگ میں انڈیلی چاول کی شراب ایک ہی گھونٹ میں حلق سے اتار لی۔
’’میں بہت زیادہ پینی ہے۔ ‘‘ وہ چلایا، ’’میں ہر چیز کو توڑ دوں گا، جو میرے ہاتھ لگنے والی ہے۔‘‘

’’میں کبھی تمہیں پی کر اتنا ہلڑ مچانے نہیں دوں گی۔ کبھی بچوں کا سوچا ہے تم نے؟‘‘

اس نے اپنی بیوی کا پھولا ہوا پیٹ دیکھا اور اپنے ساتویں بچے کے متعلق سوچنے لگا۔

English Title: Letter in a Cement-Barrel
Written by: Yoshiki Hayama

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close