اسلام آباد – ان دنوں سپریم كورٹ آف پاكستان كا پانچ رکنی بینچ قومی اسمبلی میں سابق وزیراعظم عمران خان كے خلاف تحریک عدم اعتماد كو مسترد كیے جانے کی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے متعلق از خود نوٹس كی سماعت كر رہا ہے، جس كا فیصلہ آج كل میں متوقع ہے
ملک كی سب سے بڑی عدالت كے پانچ ججز مملكت خداداد میں جاری ’آئینی بحران‘ سے متعلق جو فیصلہ كرتے ہیں وہ یقینا اہم ہوگا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اعلیٰ عدالت كے سامنے پیش ہونے والے فریقوں كے پاس آخری فیصلے كو ’چیلنج‘ كرنے كا راستہ موجود ہے
سپریم كورٹ بار ایسوسی ایشن كے سابق صدر چوہدری عارف كے مطابق ”آئین پاكستان سپریم كورٹ كے فیصلوں پر فریقوں كو اعلیٰ عدلیہ سے نظر ثانی كی درخواست كرنے كا حق دیتا ہے“
تاہم ان كا كہنا تھا كہ نظر ثانی كی درخواست (ریویو پٹیشن) كا دائرہ كار (اسكوپ) بہت محدود ہوتا ہے اور ایسی درخواستیں اكثر خارج كردی جاتی ہیں
ماتحت عدلیہ (سیشن یا سول عدالتوں) كے فیصلے كو ہائی كورٹ میں چیلنج كیا جا سكتا ہے جبكہ ہائی كورٹ كے فیصلے كے خلاف سپریم كورٹ میں اپیل دائر كی جا سكتی ہے، لیکن ملک كی سب سے بڑی عدالت ہونے كے باعث سپریم كورٹ كے فیصلوں كو چیلنج كرنے كا كوئی دوسرا فورم موجود نہیں ہے
عدالت عظمی كے وكیل عمران شفیق کہتے ہیں ”سپریم كورٹ كے كسی فیصلے كے خلاف سپریم كورٹ میں ہی نظرثانی كی درخواست دائر كی جا سكتی ہے اور زیر بحث مقدمے میں بھی فریقوں كے پاس یہی ایک راستہ موجود ہوگا“
یاد رہے کہ 3 اپریل كو قومی اسمبلی كے ڈپٹی اسپیكر قاسم سوری نے اس وقت كے وزیراعظم عمران خان كے خلاف عدم اعتماد كی قرارداد مبینہ غیرملكی سازش كا حصہ قرار دے کر مسترد كر دی تھی
عدم اعتماد كی تحریک خارج ہونے كے بعد صدر مملكت ڈاكٹر عارف علوی نے اسی روز وزیراعظم عمران خان كی تجویز پر پارلیمان كے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی كو تحلیل كر دیا تھا
جس کے بعد چیف جسٹس آف پاكستان جسٹس عمر عطا بندیال نے اس صورتحال كا نوٹس لیتے ہوئے اسی روز (اتوار 3 اپریل كو) چھٹی كے باوجود تین ركنی بینچ تشكیل دیا، جسے بعد ازاں پانچ ججوں پر مشتمل لارجر بینچ میں تبدیل كر دیا گیا تھا
سپریم كورٹ كے ازخود نوٹس كی سماعت میں حزب اختلاف سے تعلق ركھنے والی جماعتوں بشمول ن لیگ، پیپلز پارٹی، اور جمیعت علمائے اسلام ف ڈپٹی اسپیكر قاسم سوری كے 3 اپریل كے اقدامات كے مخالف ہیں
دوسری طرف صدر پاكستان، وفاقی حكومت، عمران خان اور قومی اسمبلی كے ڈپٹی اسپیكر قاسم سوری ان اقدمات كی حمایت میں سپریم كورٹ كے سامنے پیش ہو رہے ہیں
سپریم كورٹ كے لارجر بینچ كا فیصلہ دونوں میں سے کسی ایک فریق كے لیے ریلیف كا باعث ہوگا، جبكہ دوسری پارٹی كو اس پر اعتراض ہو سكتا ہے اور ایسی صورتحال میں معترض فریق ججمنٹ یا فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت سے نظرثانی كی استدعا كر سكتا ہے
سپریم كورٹ كے وكیل عمران شفیق كا كہنا ہے كہ نظرثانی كی درخواست ان ہی ججوں پر مشتمل اسی بینچ كے سامنے آتی ہے، جس نے مقدمے كی سماعت كركے فیصلہ دیا ہوتا ہے
’موجودہ نوٹس كے فیصلے كے خلاف نظر ثانی كی درخواست اگر آتی ہے تو اسے بھی ان ہی پانچ ججوں پر مشتمل بینچ سنے گا۔‘
انہوں نے مزید وضاحت كرتے ہوئے كہا ”سپریم كورٹ كے كسی بھی كیس كی نظرثانی میں پورا مقدمہ دوبارہ سے نہیں كھولا جاتا بلكہ كسی تكنیكی غلطی كی صورت میں صرف اس غلطی پر غور كیا جاتا ہے“
”نظر ثانی درخواست كا آپشن سپریم كورٹ كے فیصلے میں كسی بہت بڑی اور بہت واضح تكنیكی غلطی كی موجودگی كی صورت میں دیا گیا ہے“
عارف چوہدری نے اس بات سے اتفاق كرتے ہوئے كہا كہ نظرثانی كی درخواست سپریم كورٹ کے فیصلے میں بہت بڑی قانونی غلطی كی صورت میں ہی كی جا سكتی ہے
انہوں نے كہا ”سپریم كورٹ كے كسی فیصلے پر نظرثانی كے غرض سے درخواست كسی اپیل كی طرح تیس دن كے عرصے میں دائر كی جا سكتی ہے۔“
عمران شفیق كے خیال میں موجودہ بینچ كے فیصلے كے خلاف نظرثانی كی درخواست پر فیصلے میں تبدیلی كا امكان بہت كم نظر آتا ہے
اس نقطے كی وضاحت كرتے ہوئے انہوں نے كہا كہ كسی بینچ میں جتنے جج كم ہوں گے، نظرثانی كی درخواست كی صورت میں ان كی آرا میں تبدیلی كا امكان بھی اتنا ہی كم ہوگا
انہوں نے مزید كہا ”بعض حلقوں نے اس نوٹس كی سماعت كے لیے سپریم كورٹ كے تمام جج صاحبان یا كم از كم دسججوں پر مشتمل بینچ بنانے كی تجویز اسی نقطے كو سامنے ركھ كر دی تھی۔“
اس سلسلے میں انہوں نے سپریم كورٹ كے جسٹس قاضی فائز عیسٰی كے خلاف صدارتی ریفرنس پر نظرثانی كی درخواست كا حوالہ دیتے ہوئے كہا ”جسٹس قاضی فائز عیسٰی كے خلاف صدارتی ریفرنس كی سماعت سپریم كورٹ كے دس ركنی بینچ نے كی اور اسی بینچ نے نظرثانی كی درخواست پر اپنے ہی فیصلے میں تبدیلی كر دی تھی۔“
عمران شفیق کے مطابق ”جب بینچ میں جج صاحبان كی تعداد زیادہ ہوگی تو ان میں كچھ كا ذہن نظرثانی كی درخواست پر دلائل سن كر تبدیل ہو سكتا ہے، اس كا امكان موجود ہوتا ہے“
سپریم كورٹ كے وكیل عارف چوہدری كا كہنا تھا كہ نظرثانی كی درخواست كی صورت میں ممكن نہیں كہ اعلیٰ عدالت اپنے ہی فیصلے كو كالعدم قرار دے
تو کیا فریقین کی جانب سے اپنے موقف کے خلاف فیصلہ آنے پر نظر ثانی كی درخواست دینے کا امکان موجود ہے؟ اس سوال پر اكثر فریقین نے اس كو قبل از وقت قرار دیتے ہوئے كہا كہ اس كا فیصلہ مناسب وقت پر آئینی و قانونی ماہرین كی مشاورت كے بعد كیا جائے گا
تاہم سیاسی تـجزیہ نگاروں کے خیال میں فریقین یقیناً ابھی سے نظرثانی کے امکانات پر غور ضرور کر رہے ہوں گے اور ممکن ہے ہمیں ایک مرتبہ پھر عدالت عظمیٰ میں ایک اور سماعت جلد دیکھنی پڑے.