کراچی یونیورسٹی میں منگل کے روز ہونے والے خودکش حملے میں جاں بحق ہونے والے محمد خالد نواز 2016 میں کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ سے منسلک ہوئے تھے۔ جہاں پر انہوں نے زیادہ تر خدمات چینی عملے کے ساتھ ادا کی تھیں
خالد نواز کے چھوٹے بھائی محمد نیک نواز اپنے بھائی کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ”عید کے بعد میری بھتیجی کی نکاح کی تقریب طے تھی۔ میرے بھائی محمد خالد نواز نے اپنی بیٹی کو تسلی دی ہوئی تھی کہ نہ تو پریشان ہونا اور نہ ہی خفا ہونا۔ نکاح کی تقریب اور بعد کی زندگی کے لیے تمہاری جو بھی خواہشات ہوں گیں۔ وہ میں پوری کروں گا“
واضح رہے کہ محمد خالد نواز اس وین کے ڈرائیور تھے، جس پر کراچی یونیورسٹی کی حدود میں حملہ کیا گیا تھا۔ اس واقعے میں کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ میں خدمات انجام دینے والے تین چینی اساتذہ بھی ہلاک ہوئے تھے، جبکہ ایک چینی استاد اور پاکستانی گارڈ شدید زخمی ہیں
محمد خالد نواز نے سوگواروں میں پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے اور بیوہ کو چھوڑا ہے ۔ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر دو سال، جبکہ سب سے بڑی بیٹی کی عمر اٹھارہ سال ہے
محمد خالد نواز کا آبائی تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ سے ہے۔ یہ چار بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ان کے والد ایف سی میں خدمات انجام دیتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ خاندان سمیت کراچی منتقل ہوگئے۔ جہاں پر خالد نواز سمیت ان کے دیگر تمام بھائی ڈرائیوری کے پیشے سے منسلک ہوگئے تھے
خالد نواز سال 2016ع میں کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹیٹیوٹ سے منسلک ہوئے تھے۔ جہاں پر انھوں نے زیادہ تر خدمات چینی عملے کے ساتھ ادا کی تھیں
ان کے چھوٹے بھائی نیک نواز بتاتے ہیں ”بیٹی کی نکاح کی تقریب کے لیے وہ خوشی اور دکھ کی ملی جلی کیفیت کا شکار تھے“
نیک نواز نے بتایا ”ان کا سارا رمضان اس تقریب کی تیاریوں میں صَرف ہوا تھا۔ گھر میں چونا کروانے کے علاوہ انہوں نے گھر کی نئی سیٹنگ بھی کی تھی۔ بیٹی کے نکاح کی تقریب کے لیے وہ بہت زیادہ حساس ہو چکے تھے“
محمد نیک سے خالد کی آخری ملاقات واقعے سے دو روز قبل ہوئی تھی، وہ بتاتے ہیں ”واقعے سے دو روز قبل افطاری کے بعد ہم سب بہن بھائی اپنی امی کے گھر پر اکھٹے ہوئے تھے۔ ہم لوگ اکثر اپنی والدہ کے پاس اکھٹے ہوتے تھے۔ وہاں پر ہم سب کی گپ شپ لگتی تھی“
انہوں نے بتایا ”خالد نواز کی بیٹی کا رشتہ ہماری بہن کے بیٹے سے طے ہوا تھا۔ یہ ہمارے خاندان میں پہلی شادی ہونے جارہی تھی۔ والدہ کے پاس بھی اس نکاح ہی کی باتیں ہوتی رہی تھیں۔ خالد بھائی بیٹی کے نکاح پر بہت زیادہ پریشان تھے۔ اس موقع پر امی نے انہیں کہا تھا کہ فکر کیوں کرتے ہو۔ تمہاری بہن کا گھر ہے اور میں زندہ ہوں اس کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی“
وہ بتاتے ہیں کہ اس موقع پر امی نے خالد سے یہ بھی کہا تھا کہ شادیاں تو کرنی ہی ہیں۔ اس میں ایسی کیا نئی بات ہے کہ تم اتنے پریشان ہو
نیک نواز کا کہنا تھا کہ ہم نے شادی کی تیاریوں کا پوچھا تو خالد نے بتایا کہ بس عید کے فوراً بعد نکاح کی تقریب کے لیے خریداری کروں گا۔ اس سے پہلے بچوں کی عید کی خریداری کرنی ہے۔ روزوں کے دوران زیادہ بازاروں اور مارکیٹوں کا چکر لگانا ممکن نہیں ہے
محمد نیک نواز کہتے ہیں کہ ان کے بھائی خالد کا معمول تھا کہ جب کام سے چھٹی ہوتی تو اپنے گھر فون کرتے۔ بچوں اور بھابھی سے بات کرتے اور ان سے پوچھتے کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔ اسی طرح بچیوں سے پوچھتے کہ افطاری کے لیے کیا چاہیے ہے۔ بچے انہیں جس چیز کی خواہش کرتے وہ یہ اشیا گھر لے جاتے تھے
محمد نیک نے بتایا کہ اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی ہم یونیورسٹی اور ہسپتال پہنچے مگر اس وقت تک ہمیں یہ علم نہیں تھا کہ ہمیں ہسپتال سے ان کی میت کس وقت ملے گی لہٰذا ہم نے ان کہ اہل خانہ کو کچھ نہ بتانے کا فیصلہ کیا
‘افطار سے کچھ دیر پہلے ان کے گھر پہنچے تو بھتیجی نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھتے ہی کہا کہ ابو کدھر ہیں، انھوں نے فون نہیں کیا، میں نے ان سے سموسہ چاٹ منگوانی تھی۔’
محمد نیک نواز کہتے ہیں ”میں نے اس سے کہا کہ وہ آج گھر نہیں آئیں گے۔ وہ کسی دوسری جگہ گئے ہیں، جہاں موبائل بھی کام نہیں کرتا ہے۔ ہم نے بچوں اور اپنی والدہ سے پہلے روز واقعہ کو چھپایا تھا“
نیک نواز نے بتایا ”خالد نے بچوں سے کہہ رکھا تھا کہ عید کی شاپنگ اتوار کے روز کریں گے۔ ساتھ میں انہوں نے بھابھی سے یہ بھی کہا تھا کہ بھتیجوں، بھانجوں کے لیے بھی عید کی خریداری کرنی ہے“
خالد کے بھائی محمد نیک کا کہنا تھا کہ ‘وہ نہ صرف اپنے خاندان والوں کے لیے انتہائی شفیق اور مہربان تھے بلکہ اہلیاں علاقہ کے بھی ہر دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے۔ ہر کوئی ان کی موت پر غمزدہ ہے۔’
خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے وین ڈرائیور محمد خالد نواز کے ماموں محمد فیاض بھی ڈرائیونگ ہی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘خالد کے گھر کے حالات کراچی یونیورسٹی اور چینی عملے کے ساتھ کام کرنے کے بعد کچھ اچھے ہوگئے تھے۔ اس سے پہلے تو وہ سخت محنت کرتے تھے مگر ہاتھ تنگ ہی رہتا تھا۔’
محمد فیاض کہتے ہیں کہ ‘انھوں نے چینی شہریوں کے ساتھ بڑی سخت ڈیوٹی دی تھی۔ وہ وقت کے انتہائی پابند ہوتے تھے۔ جس وقت ان کو بلایا جاتا وہ وقت سے پہلے پہنچ جاتے تھے۔ اپنی ڈیوٹی اور فرائض بہت محنت سے ادا کرتے تھے۔ انھیں یہ بھی پتا تھا کہ یہ حساس معاملہ ہے۔ اس لیے ہر وقت چوکنا بھی رہتے تھے۔’
محمد فیاض کہتے ہیں کہ چینی شہریوں کو لانا لے جانا تو ان کے فرائض میں شامل ہی تھا۔ مگر جب انھیں کسی اور جگہ آنا جانا ہوتا تو وہ خالد ہی کو بلاتے تھے۔ وہ چینی عملے میں بہت مقبول تھے۔’
محمد نیک نواز کہتے ہیں کہ ان کے بھائی خالد کے بچے ابھی چھوٹے ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے بڑے خواب دیکھ رکھے تھے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ان کے یہ خواب اسی طرح پورے ہوں گے، جیسا وہ چاہتے تھے
وہ کہتے ہیں ”خاندان کا خیال ہے کے خالد نواز کی بیٹی کا نکاح عید کے بعد اسی طرح ہونا چاہیے جس طرح وہ طے کرکے گئے تھے۔ نکاح والا دن ہماری بھتیجی، بھابھی، باقی بچوں پر کیسا گزرے گا یہ کوئی ان ہی کے دل سے جا کر پوچھے“
محمد نیک نواز کہتے ہیں ”یہ سب زندگی کے معاملات ہیں، اچھے لگے یا برے٠٠ لیکن آگے تو بڑھنا ہے۔“