ویسٹ انڈین جزائر کے ساحلوں سے ٹکرانے والا سمندر گرم نہ سہی لیکن اِن ساحلوں پر کھیلنے والے نوجوان کرکٹرز کا خون یقیناً گرم ہوتا ہے، جس کی بھرپور جھلک ان کے کھیلنے کے جارحانہ انداز سے نظر آتی ہے
برائن لارا کی چار سو رنز کی اننگز ہو یا سر گیری سوبرز کے ایک ہی اوور میں چھ چھکے، ویوین رچرڈز کی ورلڈ کپ فائنل کی دھواں دار بیٹنگ ہو یا پھر کرس گیل کے مخالف ٹیم کے چھکے چھڑانے والے چھکے، یہ سب ویسٹ انڈین ٹریڈ مارک ہے جسے ایک دنیا دیکھنا پسند کرتی رہی ہے
ستر اور اسی کے عشرے میں جب ویوین رچرڈز کا ڈنکا بجتا تھا، ایسے میں انہی کے ایک ساتھی کرکٹر گورڈن گرینج بھی حریف بولرز پر بجلی بن کر گرتے تھے اور کسی بھی بولر کے لیے ان سے اپنا دامن بچانا ناممکن تھا
گورڈن گرینج اپنی کتاب ’دی مین ان دی مڈل‘ میں لکھتے ہیں ’میرے لیے دنیا میں سب سے آسان چیز چھکے مارنا رہا ہے۔ رنز بنانے کا یہی سب سے آسان راستہ ہے‘
گورڈن گرینج کی زندگی کے حالات کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کرکٹ کی دنیا پر راج کرنے والا یہ عظیم کھلاڑی بچپن سے ہی بڑی مشکلات اور تکالیف سے گزر کر یہاں تک پہنچا
گورڈن گرینج یکم مئی 1951ع کو بارباڈوس کے گاؤں ‘بلیک بیس’ میں پیدا ہوئے تھے لیکن وہ بارہ سال کی عمر تک کتھبرٹ گورڈن لیون کے نام سے پروان چڑھ رہے تھے۔ اُن کی والدہ نے باقاعدہ شادی نہیں کی تھی
بعد ازاں اُن کی والدہ ملازمت کے سلسلے میں انگلینڈ گئیں جہاں انہوں نے ایک بیکری میں کام کرنے کے دوران بارباڈوس سے تعلق رکھنے والے ایک شخص گرینج سے شادی کر لی اور یوں کتھبرٹ گورڈن لیون کو گرینج کا نام مل گیا
گورڈن گرینج جب آٹھ سال کے تھے تو ان کی والدہ کے انگلینڈ چلے جانے کے بعد اُن کی دیکھ بھال اُن کی نانی نے کی، بعدازاں ان کی والدہ نے انہیں انگلینڈ بلا لیا۔ اُس وقت اُن کی عمر بارہ برس تھی
گورڈن گرینج کے لیے انگلینڈ کا سرد موسم پریشان کُن تھا لیکن اس سے زیادہ تکلیف کا سامنا انہیں الفریڈ سیکنڈری اسکول میں کرنا پڑا تھا، جہاں اُن پر نسلی تعصب پر مبنی فقرے کسے جاتے تھے
کرکٹ کھیلتے ہوئے لڑکے ان سے جھگڑتے تھے۔ گرینج نے کبھی بدلہ لینا چاہا تو اس مارپٹائی میں خود اپنی ہی ناک اور ہونٹ سے بہتے خون کے ساتھ گھر واپسی ہوتی تھی۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا، جب انہوں نے سکول کو خیرآباد کہہ دیا اور پوری توجہ کھیل پر مرکوز کر دی
لیکن گورڈن گرینج کے لیے مالی مشکلات کی وجہ سے کرکٹ جاری رکھنا آسان نہ تھا، اس لیے ان کا یہ شوق سردخانے کی نذر ہو گیا۔ انہیں بارہ پاؤنڈ فی ہفتہ کی ملازمت پر مجبور ہونا پڑا، جس میں انہیں کھاد کے بیج کی بھاری بھرکم بوریاں اپنے کندھے پر اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانی پڑتی تھیں
اس محنت مزدوری سے جو وقت مل جاتا تو وہ چرچ میں گزارتے تھے۔ درحقیقت جب انہوں نے اسکول چھوڑا تھا تو انہوں نے مذہب کی تبلیغ کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا شروع کر دیا تھا
گورڈن گرینج نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بطور کرکٹر انہیں دریافت کرنے کا سہرا ہمپشائر کے کوچ آرتھر ہالٹ اور کمنٹیٹر جان آرلٹ کو جاتا ہے۔ جب ہمپشائر کاؤنٹی نے انہیں ٹرائلز کے لیے بلایا تھا تو ریڈنگ سے ساؤتھمپٹن پہنچنے کا کرایہ بھی ان کے پاس نہ تھا اور یہ چار پاؤنڈ جان آرلٹ نے ادا کیے تھے
اپریل 1968ع میں گورڈن گرینج کو ہمپشائر کے گراؤنڈ اسٹاف کا کنٹریکٹ مل گیا۔ اُن کا کام صرف سیکنڈ الیون کی طرف سے کھیلنا ہی نہیں تھا بلکہ ساؤتھمپٹن گراؤنڈ کی سیٹوں پر رنگ کرنا بھی ان کی ذمہ داری میں شامل تھا
کرکٹ کمنٹیٹر جان آرلٹ سے ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ آپ اپنی ورلڈ الیون میں کن کن کرکٹرز کو شامل کریں گے؟ جان آرلٹ کا جواب تھا ’بیری رچرڈز اور گورڈن گرینج‘
سوال کیا گیا باقی نام؟ جان آرلٹ کا جواب تھا ’پہلے ان دو کو تو آؤٹ کر لو‘
گورڈن گرینج اور بیری رچرڈز نے ہمپشائر کاؤنٹی کی طرف سے دس سال ایک ساتھ کھیلتے ہوئے شاندار بیٹنگ کے انمٹ نقوش چھوڑے اور کئی ریکارڈز اپنے نام کیے
اتفاق سے کاؤنٹی کرکٹ کے بعد کیری پیکر سیریز میں بھی گورڈن گرینج اور بیری رچرڈز ورلڈ الیون میں شامل رہے
گورڈن گرینج اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ”جب ہماری رفاقت قائم ہوئی، اس وقت بیری رچرڈز منجھے ہوئے بیٹسمین کے طور پر اپنی شناخت کروا چکے تھے جبکہ میں اُنیس سال کا نوجوان بیٹسمین تھا۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ میں نے انہیں کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا کہ وہ سفید فام جنوبی افریقی بیٹسمین ہیں، جن کے ملک میں سیاہ فاموں کو حقارت سے دیکھا جاتا ہے“
بیری رچرڈز کے بعد گورڈن گرینج اور ڈیسمنڈ ہینز کی جوڑی بھی بہت مشہور ہوئی۔ ان دونوں ویسٹ انڈین اوپننگ بیٹسمینوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی شراکت میں مجموعی طور پر 6482 رنز بنائے، جو عالمی ریکارڈ ہے
گرینج کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ بھی مشہور ہے. ہوا یوں کہ سنہ 1974ع میں پاکستانی کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے دورے میں ڈیرک رابنس الیون کے خلاف ایسٹ بورن میں میچ کھیل رہی تھی۔ میچ سے ایک رات پہلے گورڈن گرینج بیری رچرڈز کے ساتھ ڈنر پر گئے، جہاں انہوں نے معمول سے زیادہ شراب پی لی۔ جب وہ صبح اٹھے تو ابھی شراب کے نشے کے اثرات باقی تھے
گراؤنڈ میں پہنچے تو سردرد کی وجہ سے بیٹنگ کرنا مشکل ہو رہی تھی، اس لیے کپتان سے درخواست کی کہ انہیں اوپنر کی بجائے تیسرے نمبر پر بھیجا جائے لیکن بیری رچرڈز کے جلد آؤٹ ہو جانے کی وجہ سے گرینج کو میدان میں جانا ہی پڑ گیا
گورڈن گرینج بتاتے ہیں ”میں یہی سوچ رہا تھا کہ جو میری حالت تھی اس میں میری وکٹ بھی جلد گر جائے گی۔ میں نے ہر گیند کو مارنا شروع کر دیا۔ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ کون فاسٹ بولر اور کون اسپنر تھا اور نہ ہی مجھے اپنا کوئی ایک خاص شاٹ بھی یاد ہے لیکن جب میں ناٹ آؤٹ واپس آیا تو مجھے پتہ چلا کہ میں اپنے کریئر کا بہترین اسکور 273 رنز بنا چکا ہوں“
’میں نے اس اننگز میں 13 چھکے اور 31 چوکے مارے تھے۔ دراصل یہی وہ اننگز تھی جس نے ویسٹ انڈین ٹیم میں آنے کا میرا کیس مضبوط بنا دیا تھا۔‘
اگرچہ گرینج انگلینڈ میں رہنے کی وجہ سے انگلینڈ کی نمائندگی کے اہل ہو چکے تھے، لیکن وہ ویسٹ انڈیز کی طرف سے کھیلنا چاہتے تھے
گورڈن گرینج پہلی بار ویسٹ انڈین ٹیم میں شامل ہوئے تو بھارت کا دورہ اُن کے لیے دلچسپ تجربہ تھا
وہ کہتے ہیں ”ٹیم کے ان کھلاڑیوں کے لیے یہ دھچکہ تھا، جو پہلی بار بھارت کا دورہ کر رہے تھے۔ وہاں کئی لوگ ہمیں اس طرح دیکھ رہے تھے جیسے ہم کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں۔ ممبئی میں ہوٹل سے باہر نکلنا محال تھا کیونکہ وہاں بھکاریوں کی بڑی تعداد کھلاڑیوں کی منتظر رہتی تھی، جو انہیں دیکھتے ہی پیسے مانگنے لگ جاتے۔ میں نے ممبئی شہر میں بہت غربت دیکھی تھی“
اپریل 1983ع میں گورڈن گرینج بھارت کے خلاف انٹیگا ٹیسٹ میں بیٹنگ کر رہے تھے اور پہلے دن کے اختتام پر اُن کا اسکور 154 رنز ہو چکا تھا
ان کے لیے اطمینان کی بات یہ تھی کہ وہ چھ سال کے طویل انتظار کے بعد پہلی سنچری اسکور کرنے میں کامیاب ہوئے تھے، لیکن انہیں اپنی دو سالہ بیٹی ریٹا کی بیماری کی اطلاع ملی جو گردے میں انفیکشن کی وجہ سے ہسپتال میں تھی
گورڈن گرینج میچ چھوڑ کر فوراً بارباڈوس روانہ ہو گئے۔ دو روز بعد ان کی بیٹی وفات پا گئی
آئی سی سی نے گرینج کی اننگز کو ریٹائرڈ ناٹ آؤٹ قرار دیا، جو ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے
گورڈن گرینج ویسٹ انڈیز کے ایک اور مایہ ناز بلے باز ویوین رچرڈز کے ہم عصر کرکٹر تھے۔ دونوں کا ٹیسٹ کریئر ایک ہی ٹیسٹ میچ میں شروع ہوا تھا۔ ویوین رچرڈز کے بارے میں عام رائے یہ ہے کہ وہ جدید کرکٹ کے دور کے سب سے بڑے بیٹسمین ہیں
ویوین رچرڈز نے 121 ٹیسٹ میچوں میں 24 سنچریوں کی مدد سے 8540 رنز بنائے
ون ڈے انٹرنیشنل میں ان کی سنچریوں کی تعداد 11 جبکہ فرسٹ کلاس کرکٹ میں یہ تعداد 114 ہے
گورڈن گرینج نے 108 ٹیسٹ کھیلے اور 19 سنچریوں کی مدد سے 7558 رنز اسکور کیے۔ ون ڈے انٹرنیشنل میں انہوں نے 11 سنچریاں اسکور کیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں وہ 92 سنچریاں بنانے میں کامیاب رہے
اتفاق سے دونوں کرکٹرز کو سر کے خطاب سے نوازا گیا ہے
ویسٹ انڈیز کے سابق فاسٹ بولر مائیکل ہولڈنگ کہتے ہیں ”گورڈن گرینج کے مقام سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ اگر سر آئزک ویوین رچرڈز نہ ہوتے تو دنیا سر گورڈن گرینج کا ہی ذکر کر رہی ہوتی“