ایک وقت تھا کہ کسی بات پر یقین نہ کرنے پر کہا جاتا تھا کہ ’اگر اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے تب تو یقین کرو گے؟‘ لیکن آج ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے اس دورِ پُر فریب میں اپنی آنکھ سے دیکھے ہوئے پر بھی یقین کرنا اور یہ کہنا مشکل ہے کہ آخر حقیقت کیا ہے؟
سابق وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کے بعد کہ آنے والے دنوں میں کسی ڈاکٹرڈ ویڈیو کی ذریعے ان کی کردار کشی کی جائے گی، پاکستان میں آج کل ڈیپ فیک ٹیکنالوجی زیر بحث ہے اور لوگ اس کے بارے میں متجسس ہیں
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کیا ہے؟
عام فہم الفاظ میں میں اگر کہا جائے تو دراصل ڈیپ فیک ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے، جس کے ذریعے کسی ایک شخص کے چہرے پر کسی دوسرے شخص کا چہرا اور آواز لگا دی جاتی ہے، جسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کی ویڈیو دیکھ رہا ہے، جو دراصل اس کی ہے ہی نہیں
تو اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ فوٹوشاپ یا اس طرح کے دیگر ایڈیٹنگ سافٹ ویئر بھی تو یہی کام کرتے ہیں تو کیا وہ بھی ڈیپ فیک ہیں یا نہیں۔ تو جواب ہے نہیں۔ فوٹو شاپ جیسے سافٹ ویئرز کی مدد سے ہم اکثر خود ایک تصویر کو ایڈٹ کرتے ہیں جبکہ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے سافٹ ویئر فراہم کیے گئے ڈیٹا کی مدد سے ایسا کرنا سیکھتا ہے، جو کہ تصاویر اور ویڈیوز کی شکل میں ہوتا ہے
مثال کے طور پر اگر مائیکل جیکسن کی ڈیپ فیک وڈیو بنانی ہو تو مائیکل جیکسن کی متعدد تصاویر اور وڈیوز اکٹھی کرنی ہونگی. جس کی مدد سے ڈیپ فیک بنانے والا سافٹ ویئر ان کے چہرے کی حرکت اور تاثرات کا معائنہ کرے گا اور جب مائیکل جیکسن کی شکل کسی کے چہرے پر لگائی جائے گی تو ڈیپ فیک ٹیکنالوجی نہ صرف اس چہرے کو مائیکل جیکسن کے چہرے سے بدل دے گی بلکہ اس چہرے کی حرکت اور تاثرات کو بھی مائیکل جیکسن کے چہرے اور تاثرات جیسا بنا دے گی
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کیا صرف منفی؟
اس ٹیکنالوجی کے مذکورہ بالا وضاحت سے ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ شاید اس ٹیکنالوجی کا مقصد جعلی وڈیو بنا کر کسی کردار کشی کرنا ہی ہے لیکن ایسا نہیں ہے
سائبر سکیورٹی کے ماہر رافع بلوچ کے مطابق اس ٹیکنالوجی کا استعمال ہالی وڈ کی فلموں میں بھی کیا گیا ہے۔ مثلاً مشہور فلم فاسٹ اینڈ فیوریس سیون کی فلمنگ کے اختتام سے قبل ہی اس کے مرکزی کردار نبھانے والے پال واکر کی ایک روڈ حادثے میں ہلاکت ہوگئی تو فلم ڈائریکٹر نے ایک سین ان کے بھائی سے کروایا اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے مدد سے ان کے چہرے پر پال واکر کا چہرا لگا دیا جس سے دیکھنے والوں کا لگا کہ اس سین میں بھی پال ہی ہیں جبکہ وہ ان کے بھائی تھے
اسی طرح ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا سیاست میں بھی استعمال کیا گیا جب بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کے ایک رہنما منوج تیواری نے 2020 کے الیکشن میں مختلف زبانوں میں وڈیو جاری کیں، جس میں ووٹ بی جے پی کو ڈالنے کا کہا گیا۔ اب بظاہر اس وڈیو میں کچھ غلط نہیں تھا سوائے یہ کہ انگریزی میں پیغام دینے والا شخص منوج تیواری نہیں بلکہ کوئی اور تھا، جن کے چہرے پر منوج کا چہرا لگایا گیا تھا اور ان کے آواز کو منوج جیسا بنایا گیا تھا
تاہم امریکی سیاست میں اس کا منفی استعمال کیا گیا، جب سابق صدر باراک اوباما کی وڈیو جاری کی گئی، جس میں انہیں قوم کے خطاب کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے غیر مہذب الفاظ استعمال کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ لیکن دراصل یہ ایک ڈیپ فیک وڈیو تھی اور باراک اوباما نے یہ الفاظ کبھی ادا ہی نہیں کیے تھے
یہی وجہ ہے کہ ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جوں جوں یہ ٹیکنالوجی عام ہوگی اس کا منفی استعمال اور اس کے ذریعے غلط معلومات کا پھیلاؤ بھی عام ہوگا، جو کہ مستقبل میں معاشرتی زندگی، جمہوریت اور امن و امان کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے
سائبر سکیورٹی ایکسپرٹ رافع بلوچ کے مطابق سلبریٹیز اور سیاسی شخصیات کی ڈیپ وڈیوز ایک عام شخص کی ویڈیو بنانے سے زیادہ آسان ہوتی ہے
’ڈیپ فیک ویڈیو بنانے کے لیے اس شخص کی زیادہ سے زیادہ وڈیوز اور تصاویر درکار ہوتی ہیں۔ اس لیے مشہور شخصیات کی ڈیپ فیک وڈیو بنانا نسبتا آسان ہوتا ہے‘
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا ایک نقصان اس کو استعمال کرتے ہوئے فحش وڈیوز کی تیاری بھی ہے۔ انٹرنیٹ پر ہالی وڈ اور بالی وڈ کی اداکارؤں اور اداکاروں کی ایسی متعدد جعلی ویڈیوز ہیں، جو دراصل ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا شاخسانہ ہیں
کیا ڈیپ فیک ویڈیو کی شناخت ممکن ہے؟
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے عام لوگوں کو ایک اصلی اور ڈیپ فیک وڈیو دکھائی گئی اور ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ بتا سکتے ہیں کہ اس میں کون سی وڈیو اصلی ہے؟ حیران کن طور پر بہت سے لوگ ڈیپ فیل وڈیو پہچاننے میں کامیاب ہو گئے
لیکن رافع بلوچ کے مطابق ایک کم تجربہ کار شخص اگر ڈیپ فیک وڈیو بنائے گا تو اس کی شناخت کرنا آسان ہے لیکن وڈیو جتنی مہارت سے بنائی گئی ہوگی، اس کی شناخت اتنی ہی مشکل ہوگی اور اس کے علاوہ چونکہ یہ وڈیوز مشین لرنگ (machine learning) سے بنائی جاتی ہے اس لیے ممکن ہے کہ مشین اس کی شناخت کرنے والے طریقے کو چکمہ دینے میں کامیاب ہو جائے‘
تاہم امید افزا خبر یہ ہے کہ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں وزارت داخلہ کے زیر نگرانی ہونے والی تحقیق میں ڈیپ فیک وڈیوز کو شناخت کرنے والے سافٹ وئیر کی تیاری جاری ہے
لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ کیونکہ ڈیپ فیک وڈیوز کی شناخت کرنا کہ آیا یہ اصلی ہے یا نہیں یہ پیچیدہ اور وقت طلب عمل ہے، لہٰذا ممکن ہے کہ جب تک اس بات کہ تعین ہو کہ وائرل وڈیو ڈیپ فیک ہے، تب تک نقصان ہو چکا ہوگا
ذرا تصور کریں کہ کوئی بھارتی وزیر اعظم کی ڈیپ فیک وڈیو بنا دے، جس میں وہ کہہ رہے ہوں کہ ان کی فوج پاکستان پر حملہ کرنے والی ہے تو کیا پاکستان اس وڈیو کی اصلیت جاننے تک کا انتظار کرے گا یا اپنے ملک کی حفاظت کے لیے فوراً جوابی کارروائی؟