قتل ہونے سے پہلے ابراہم لنکن نے خواب دیکھا کہ وائٹ ہاؤس کے ایک کمرے میں چادر سے ڈھکی کوئی لاش پڑی ہے اور لوگوں کے رونے کی دبی دبی آوازیں آ رہی ہیں
اپنے ہسٹری چینل والے ہسٹری ڈاٹ کام کے مطابق وہ دن 4 اپریل 1865ع تھا
ابراہم لنکن خواب میں ہی لاش کے قریب آئے اور وہاں کھڑے گارڈ سے پوچھا کہ یہ لاش کس کی ہے؟ اس نے کہا یہ صدر ہیں اور انہیں کسی قاتل نے مار دیا ہے۔ اس کے بعد ان کی آنکھ کھل گئی
یہ خواب لنکن نے اپنے دوست لیمن کو 11 اپریل کو سنایا اور کہا کہ میں بہت پریشان ہوں، تین دن بعد ابراہم لنکن کو تھیٹر میں گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ خواب دیکھنے کے ٹھیک دس دن بعد 14 اپریل 1965ع کو امریکی صدر قتل ہو چکے تھے
برطانیہ کا ایک علاقہ ہے ابرفین، 21 اکتوبر 1966ع کی تاریخ تھی، جب وہاں ایک حادثہ ہوا۔ اوپر پہاڑوں میں گھری کوئلے کی کان سے نکلنے والا فاضل مواد، جو خود ایک پہاڑ بن چکا تھا، بارش کے نتیجے میں نیچے آبادی پر جا گرا۔ 116 بچوں سمیت 146 لوگ زندہ دفن ہو گئے۔ یہ سانحہ ویلز، برطانیہ کے تاریخی المیوں میں سے ایک تھا
ایوننگ اسٹینڈرڈ برطانیہ کا اخبار ہے۔ چار جنوری 1967ع کو انہوں نے ایک سلسلہ شروع کیا، جس میں پورے برطانیہ سے لوگ اپنے خوابوں کی بنیاد پر پیش گوئیاں کرتے تھے، وارننگز دیتے تھے اور انہیں نہ صرف چھاپا جاتا بلکہ ان کا ڈیٹا بھی رکھا جاتا۔ یہ کام جان بارکر نامی ایک ماہر نفسیات کا تھا جنہوں نے اخبار کے ایڈیٹر کو اس چیز پر آمادہ کیا۔ اس سیگمنٹ کا نام ”پری مونیشنز بیورو“ رکھا گیا
بارکر عرصہ دراز سے لوگوں کی پیرانارمل پیش گوئیوں کا ریکارڈ جمع کرتے تھے۔ ابرفین سانحے کے بعد اسی دن بارکر وہاں گئے تو باقی بچ جانے والے مقامی لوگوں سے انہوں نے ایسی کسی پیش گوئی کا پوچھا۔ ایک ماں نے بتایا کہ سانحے سے پچھلی شام ان کا بیٹا دیوار پہ کوئلے سے لکھ رہا تھا، ”دی اینڈ!“
کیتھلین لورنا میڈلٹن اسی قصبے میں رہنے والی ایک اور خاتون تھیں، جنہیں اس حادثے سے پہلے بہت زیادہ گھبراہٹ تھی، رات سے ہی ان کا دم گھٹ رہا تھا۔ بچپن سے کیتھلین ایسی پیش گوئیوں کے لیے مشہور تھیں۔ بارکر کے اخباری سلسلے میں جہاں کئی دوسرے لوگ آئے وہیں کیتھلین نے بھی یہ سلسلہ جوائن کیا اور باقاعدہ پیش گوئیاں بھیجتی رہیں۔ کیتھلین لورنا میڈلٹن سے جان بارکر کی پہلی ملاقات ابرفین سانحے کے بعد اسی دن ہوئی تھی
اگلا سال شروع ہوا تو 11 مارچ کو پہلی بار کیتھلین نے سابق مقتول امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے بھائی سینیٹر رابرٹ کینیڈی کے بارے میں خدشات ظاہر کرنے شروع کر دیے۔ دو تین مہینے سلسلہ چلتا رہا۔ وہ ہر بار کہتیں کہ لفظ ’قتل‘ میرے سامنے آتا ہے۔ 4 جون 1968ع کے دن کم از کم تین فون کیتھلین نے ایوننگ اسٹینڈرڈ بیورو کو ملائے اور بہت خوفزدہ آواز میں پیش گوئی کی کہ رابرٹ کینیڈی کی جان کو شدید خطرہ ہے۔ اسی رات بارہ بجے کے بعد رابرٹ کینیڈی قاتلانہ حملے میں ہلاک ہو گئے
”پری مونیشنز بیورو“ بننے کے اٹھارہ ماہ بعد جان بارکر کی گیم انہی پر الٹ گئی۔ ادارے کے دو سب سے اہم پیش گوئیاں کرنے والے بندوں نے جان بارکر کی موت کے بارے میں صاف اشارے دینا شروع کر دیے، ان میں سے ایک کیتھلین تھیں
18 اگست 1968ع کو بارکر برین ہیمبرج کا شکار ہوئے اور چوالیس سال کی عمر میں چل بسے۔ جس رات وہ فوت ہوئے اسی رات کیتھلین کو دوبارہ ویسے ہی دم گھٹنے کا دورہ پڑا تھا
ایسے خواب اور ایسی پیش گوئیاں انگریزی میں ‘پری کاگنیشن’ کہلاتی ہیں
نیویارک ٹائمز کے جس آرٹیکل میں یہ سب میں نے پڑھا، اسی میں بارکر کا ایک اور جملہ تھا، جو خود سارا کیس سلجھا دیتا ہے، ”کیا ہم پیش گوئی کے بعد کوئی سانحہ روک سکتے ہیں؟ کیا ہمیں کچھ مزید تفصیل پتہ لگ سکتی ہے؟ اگر ہم حادثے کو ہو جانے سے روکنے کی اہلیت رکھتے تو پھر اتنی شدت سے یہ پیش گوئی ہم تک پہنچتی ہی کیوں؟“
یعنی اگر وہ حادثہ قدرت کو روکنا منظور ہوتا تو پھر اتنے کلیئر اور بھرپور طریقے سے اس کی پیش گوئی ہی نہ کی گئی ہوتی
سائنس ‘پری کاگنیشن’ کو سرے سے نہیں مانتی۔ وہ ‘کاز اور ایفکٹس’ پر چلتی ہے۔ پہلے وجہ بنے گی، پھر واقعہ ہوگا۔ مثلاً آپ نے کسی کو گالی دی، پھر لڑائی ہوئی، گالی وجہ، لڑائی واقعہ، ساتھ کھڑے دوست بھی پھڈے میں شامل ہو گئے۔ اب لڑائی وجہ اور دوستوں کا بھی کود پڑنا واقعہ… تو اس طرح سائنس کے مطابق وجہ کے وقوع سے پہلے واقعہ ہو نہیں سکتا۔ اردو میں اسے علت و معلول کہتے ہیں
سائنس کے مطابق ماضی میں ہوا کوئی واقعہ مستقبل کے کسی واقعے کی وجہ تو ہو سکتا ہے، لیکن وجہ رونما ہونے سے پہلے مستقبل کا واقعہ کیا ہوگا، یہ نہیں بتایا جا سکتا۔ اگر ایسا ہو جائے تو اس کا مطلب ہے کہ ساری سائنس دھڑن تختہ…. ٹائم جو تیر کی طرح سیدھا جاتا ہے، پری کاگنیشن یا پیش گوئی کرنے والے اس تک پہلے کیسے پہنچ گئے؟ یعنی وقت مستقبل میں گیا نہیں اور وہ پہلے دیکھ چکے؟
سائنس واضح طور پر نہیں جان سکی کہ خوابوں کا مقصد ہے کیا، البتہ بہت سے مفروضوں کے مطابق خواب نیند میں دماغ کے مختلف حصوں کے درمیان ہونے والی بےترتیب کمیونیکیشن کا نتیجہ ہوتے ہیں
انسان عام طور پر پانچ سے سات خواب ہر رات دیکھتا ہے، جو بالکل رینڈم واقعات دکھاتے ہیں۔ اتفاق سے کسی واقعے کا پھٹا اصل زندگی پر فٹ ہو گیا تو ہم واہ واہ شروع کر دیتے ہیں کہ ”استاد، یہ تو معجزہ ہو گیا!“ لیکن جو سینکڑوں خواب کسی نتیجے تک نہیں پہنچتے، انہیں ہم ذہن سے جھٹک دیتے ہیں
سائنس صرف ایک پیش گوئی مانتی ہے۔ ڈیٹا کی بنیاد پر کی گئی پیش گوئی۔ بہت سے لوگوں کا بہت سارا ڈیٹا، موسمی حالات اور تبدیلیوں کا ڈیٹا، دنیا بھر کے لوگوں کے آنے جانے اور ان کی پسند ناپسند کا ڈیٹا، ماضی کے واقعات اور ان سے پہلے ہونے والی وجوہات کا ڈیٹا، قدرتی آفات آنے سے پہلے اور بعد کا ڈیٹا
سائنس کے فیصلے ڈیٹا سے ہوتے ہیں۔ جیسے میرا یہ کالم اینڈ تک جن لوگوں نے دیکھا، ان کا ڈیٹا…. مطلب کیا؟ مطلب وہ سب لوگ میٹا فزکس، پیرا نارمل چیزوں اور پری کاگنیشن میں دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ بات اب فیسبک یا انسٹاگرام کو پتہ لگ چکی ہے تو آئندہ انہیں مزید ایسی چیزیں دکھائی جائیں گی
مستقبل ڈیٹا سائنس کا ہے، بلکہ موجودہ دور بھی اسی کا ہے۔ آپ جس بھی فیلڈ میں ہیں، ڈیٹے پر توجہ دیں… پچھلے زمانے میں اسے اسٹیٹسٹکس کہتے تھے اور یہ ایویں سا مضمون لگتا تھا، اب سب کچھ اسی کے اندر سماتا جا رہا ہے
تھوڑے کہے کو بہت سمجھیں اور دل کرے تو سائنس کی مان لیں ورنہ خواب دیکھیں اور ان کی تعبیریں ڈھونڈتے رہیں.
بشکریہ : انڈپينڈنٹ اردو