دن بدن نوجوان نسل میں خودکشی کا رجحان بڑھتا چلا جارہا ہے۔ ہر تیسرا فرد پژمردگی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔ ہمارے ہاں نفسیاتی مسائل کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ ہم وہ لوگ ہیں جو سر درد اور پیٹ درد ہو تو اپنا علاج خود کرتے ہیں۔ ڈاکٹر کے پاس تب جاتے ہیں جب بیماری شدت اختیار کرتی ہے، ورنہ ہر درد کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں۔ پھر ہم نفسیاتی امراض کے متعلق کیسے سنجیدہ ہوسکتے ہیں۔
جب ہمارا کوئی قریبی دوست خودکشی کرلیتا ہے تو دوست کہتے ہیں کاش یہ ہم سے اپنی پریشانی شیئر کرلیتا، مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکل آتا۔ جیتے جی کوئی پوچھتا نہیں، مرنے کے بعد سب ہمدرد بن جاتے ہیں۔
زیادہ تر افراد دوست احباب سے اپنے مسائل چھپاتے ہیں اور اندر ہی اندر گُھلتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ بھیڑ میں بھی تنہا ہوتے ہیں۔ وہ اپنی بات کسی سے کہنا سننا چاہتے ہیں لیکن ان کی سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہ اپنی پریشانی و دکھ میں گھر کر مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ جب مایوسی حد سے زیادہ بڑھنے لگتی ہے تو وہ زندگی سے منہ موڑ لیتا ہے۔ اسے جینے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ اس کے برعکس اگر ایسے افراد جن کے اچھے دوست ہوں، وہ بہت جلد اس کیفیت سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔ خودکشی کرنے والے نوجوان زیادہ تر مہنگائی اور بےروزگاری سے تنگ ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ طالب علم جن سے والدین اور اساتذہ کی ضرورت سے زیادہ توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔ طالب علموں میں خودکشی کا رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے، جس میں قصور والدین اور اساتذہ کا ہوتا ہے جو بچے کے نازک کندھوں پر اس کی ہمت و سکت سے زیادہ بوجھ ڈالتے ہیں۔
ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے۔ ہماری قریبی دوست کی چھوٹی بہن کرن (جو نویں جماعت کی طالبہ تھی) نے شدید ذہنی دباؤ میں خودکشی کرلی۔ ہر آنکھ اس معصوم بچی کی موت پر اشک بار تھی۔ آخر اتنی سی بچی نے کس کے غم میں خودکشی کرلی۔ کرن کی خودکشی کا باعث اس کی کلاس ٹیچر بنی، جو کلاس کی سب سے ذہین و قابل بچی کو باقی سب بچوں سے زیادہ اہمیت دیتی تھی اور اس سے پیپرز میں پورے پورے نمبرز چاہتی تھی۔ کرن لائق فائق ہونے کے باوجود امتحان سے پہلے ہی (ناکامی کے خوف کے باعث) ہمت ہار گئی اور اپنی زندگی ختم کرلی۔
اخبارات اور ٹی وی چینلز پر آئے روز ایسی خبریں سننے پڑھنے کو ملتی ہیں۔ پھر بھی والدین اور اساتذہ کو فرق نہیں پڑتا۔ بچے چاہے جان سے چلے جائیں۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ خاندان بھر میں ان کے بچے کا شاندار رزلٹ ہو، اور وہ خوب واہ واہ سمیٹیں۔ اساتذہ کو اپنے اسکول کے رزلٹ کی فکر ہوتی ہے۔ وہ مقابلے کی دوڑ میں بچوں کی ذہنی صلاحیت سلب کردیتے ہیں۔
ایک وقت تھا۔ دسویں اور بارہویں کا رزلٹ آتا تو بچے گھر آکر ماں کو صرف اتنا کہتے ’’ماں میں پاس ہوگیا‘‘۔ تو ماں صدقے واری ہوجاتی۔ نہ کسی کو گریڈز کی پرواہ ہوتی نہ نمبروں کی۔ بس پاس ہونا کافی سمجھا جاتا۔ بچہ بھی ہواؤں میں اڑتا پھرتا کہ شکر ہے میں پاس ہوگیا۔ اب گریڈز کو لے کر والدین اور اساتذہ بچوں کو اتنی ٹینشن دیتے ہیں کہ وہ ڈپریشن میں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں۔ بچے سے امید لگانا الگ بات ہے لیکن معصوم جان کو اپنا مطلوبہ ہدف پورا کرنے کےلیے پریشرائز کرنا سراسر غلط عمل ہے۔ ذہین بچے ضروری نہیں مضبوط اعصاب کے مالک بھی ہوں۔ والدین ہوں یا اساتذہ دونوں کو چاہیے کہ بچے پر اچھے گریڈز کی خاطر اتنا دباؤ مت ڈالیں کہ بچہ ذہنی اذیت سے دوچار ہوکر خودکشی کرلے۔ بچوں کی ذہانت و قابلیت کو ان کی کمزوری نہ بنائیے۔
کچھ بچے رزلٹ والے دن کم نمبر آنے پر گھر جلدی نہیں آتے۔ وہ اپنے والدین کی ناراضی اور مار کے ڈر سے چھپتے پھرتے ہیں۔ پھر وہ اسکول اور ٹیچرز جن کے ساتھ بہت حسین یادیں وابستہ ہوتی ہیں، بچہ رزلٹ آنے کے بعد بہت چاہنے کے بعد بھی شرمندگی کے مارے نہیں جاتا۔ عموماً ٹاپ کرنے والے بچے ہی پرانے اسکول اساتذہ کو ملنے جاتے ہیں۔ بچوں کو امتحان سے پہلے ہی ایوریج یا کم گریڈ لانے کی وجہ سے بلاوجہ کی ٹینشن میں مبتلا نہیں کیجئے۔
ایک تحقیق کے مطابق جو بچے کلاس میں ٹاپ کرتے ہیں، وہ زندگی میں ان بچوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں جو پڑھائی میں ایوریج ہوتے ہیں۔ وہ معاشرتی زندگی کو اچھے انداز میں سمجھتے ہیں اور کامیاب زندگی گزارتے ہیں۔ والدین اور اساتذہ کو لگتا ہے کہ وہ جو بچوں کےلیے چاہتے ہیں، وہی بہتر ہے۔ بچے کیا چاہتے ہیں، انہیں فرق نہیں پڑتا۔
ایک بچہ اپنا مضمون منتخب نہیں کرسکتا۔ بہت سے ذہین بچے آرٹس کے مضامین میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن کچھ اسکول ایسے ہیں جو ٹیلنٹڈ بچوں کی چھانٹی آٹھویں جماعت ختم ہونے سے پہلے ہی کرکے الگ سیکشن بنا دیتے ہیں تاکہ ان بچوں پر خصوصی توجہ دی جائے۔ والدین کو بھی بچہ ڈاکٹر، انجینئر چاہیے ہوتا ہے۔ وہ بھی سائنس کے مضامین پڑھنے پر مجبور کرتے ہیں۔
والدین اور اساتذہ کو اپنے رویوں کو بدلنا ہوگا۔ بچے کیا چاہتے ہیں؟ زندگی میں کیا کرنا اور بننا چاہتے ہیں؟ انہیں اپنی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق آگے بڑھنے کے مواقع دینے چاہئیں۔ اور بچوں کی تعلیمی کمزوری کو قبول کرکے انہیں حوصلہ اور ہر مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل بنائیں۔ جب تک آپ اپنے بچے کی کمزوریاں قبول نہیں کریں گے تو بچہ ایک کامیاب اور پراعتماد انسان کیسے بن پائے گا؟ اگر رویے تبدیل نہ ہوئے تو بچے یوں ہی ڈپریشن کا شکار ہوکر موت کو گلے سے لگاتے رہیں گے۔
بشکریہ: ایکسپریس نیوز