گدی نشینوں اور مخدوموں کا سو سال پرانا خط

خالد مسعود خان

دعا نامہ بطور ایڈریس
بحضور جناب نواب ہز آنر سر مائیکل فرانس اوڈوائر جی- سی۔ آئی۔ ای۔ کے۔ سی۔ ایس۔آئی لیفٹینٹ گورنر بہادر پنجاب!
حضور والا! ہم خادم الفقراء سجادہ نشینان و علماء مع متعلقین شرفا حاضر الوقت مغربی حصہ پنجاب نہایت ادب اور انکسار سے یہ ایڈریس لے کر خدمتِ عالی میں حاضر ہوئے ہیں اور ہمیں یقین کامل ہے کہ حضور انور جن کی ذاتِ عالی صفات میں قدرت نے دل جوئی، ذرہ نوازی اور انصاف پسندی کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے، ہم خاکسارانِ با وفا کے اظہارِ دل کو توجہ سے سماعت فرما کر ہمارے کلاہِ فخر کو چار چاند لگا دیں گے۔
سب سے پہلے ہم ایک دفعہ پھر حضور والا کو مبارکباد کہتے ہیں کہ جس عالمگیر اور خوفناک جنگ کا آغاز حضور کے عہدِ حکومت میں ہوا، اس نے حضور ہی کے زمانے میں بخیر و خوبی انجام پایا اور یہ بابرکت و باحشمت سلطنت، جس پر پہلے بھی سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا، اب آگے سے زیادہ مستحکم اور آگے سے زیادہ روشن ہے اور اعلیٰ عظمت کے ساتھ جنگ سے فارغ ہوئی، جیسا کہ شہنشاہِ معظم نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا ہے ۔ واقعی برطانوی تلوار اس وقت نیام میں داخل ہوئی، جب دنیا کی آزادی، امن و امان اور چھوٹی چھوٹی قوموں کی بہبودی مکمل طور پر حاصل ہو کر بالآخر سچائی کا بول بالا ہو گیا.

حضور کا زمانہ ایک نہایت نازک زمانہ تھا اور پنجاب کی خوش قسمتی تھی کہ اس کی عنانِ حکومت اس زمانے میں حضور جیسے صاحبِ استقلال، بیدار مغز و عالی دماغ حاکم کے مضبوط ہاتھوں میں رہی ، جس سے نہ صرف اندرونی امن ہی قائم رہا ، بلکہ حضور کی دانش مندانہ رہنمائی میں پنجاب نے اپنے ایثار، وفاداری اور جانثاری کا وہ ثبوت دیا، جس سے ’’شمشیرِ سلطنت‘‘ کا قابلِ فخر و عزت لقب پایا۔ صرف جنابِ والا کو ہی ہماری بہبودی مطلوب نہ تھی ، بلکہ صلیبِ احمر (Red Cross) و تعلیمِ نسواں کے کام میں حضور کی ہمدم و ہم راز جناب لیڈی اوڈوائر صاحبہ نے، جن کو ہم مروت کی زندہ تصویر سمجھتے ہیں، ہمارا ہاتھ بٹایا اور ہندوستانی مستورات پر احسان کر کے ثوابِ دارین حاصل کیا۔ ہماری ادب سے التجا ہے کہ وہ ہمارا دلی شکریہ قبول فرماویں۔

جب ہم تارِ برقی کے کرشموں پر، علی گڑھ اور اسلامیہ کالج لاہور و پیشاور جیسے اسلامی کالجوں اور دیگر قومی درس گاہوں پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر جب ہم بے نظیر برطانوی انصاف کو دیکھتے ہیں ، جس کی حکومت میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پی رہے ہیں، تو ہمیں ہر طرف احسان ہی احسان دکھائی دیتے ہیں،

بہشت آنجا کہ آزارے نباشد
کسے رابا کسے کارے نباشد

باوجود فوجی قانون کے، جو خود فتنہ پردازوں کی شرارت کا نتیجہ تھا، مسلمانوں کے مذہبی احساس کا ہر طرح سے لحاظ رکھا گیا۔ شبِ برات کے موقع پر ان کو خاص رعایتیں دکھائیں۔ رمضان المبارک کے واسطے حالانکہ اہل اسلام کی درخواست یہ تھی کہ فوجی قانون ساڑھے گیارہ بجے شب سے دو بجے تک محدود کیا جاوے، لیکن حکام سرکار نے یہ وقت بارہ بجے سے دو بجے کر دیا۔ مسجدِ شاہی جو فی الاصل قلعہ کے متعلق تھی اور جو ابتدائی عمل داری سرکار ہی میں واگزار ہوئی تھی۔ اہالیان لاہور نے اس مقدس جگہ کو نا جائز سیاسی امور کے واسطے استعمال کیا، جس پر متولیان مسجد نے، جو خود مفسدہ پروازوں کو روک نہیں سکتے تھے، سرکار سے امداد چاہی، یہی وجہ تھی کہ سرکار نے اس کا ایسا ناجائز استعمال بند کر دیا۔ ہم تہہ دل سے مشکور ہیں کہ حضور والا نے پھر اس کو واگزار فرما دیا ہے۔

ہم سچ عرض کرتے ہیں کہ جو برکات ہمیں اس سلطنت کی بدولت حاصل ہوئیں، اگر ہمیں عمرِ خضر بھی نصیب ہو، تو بھی ہم ان احسانات کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے۔ ہندوستان کے لیے سلطنتِ برطانیہ ابرِ رحمت کی طرح نازل ہوئی اور ہم حضور سے درخواست کرتے ہیں کہ جب حضور وطن کو تشریف لے جاویں، تو اس نامور تاجدارِ ہندوستان کو یقین دلائیں کہ چاہے کیسا ہی انقلاب کیوں نہ ہو، ہماری وفاداری میں سرِ مُو فرق نہ آیا ہے اور نہ آ سکتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہم اور ہمارے پیروان اور مریدان فوجی وغیرہ جن پر سرکارِ برطانیہ کے بے شمار احسانات ہیں، ہمیشہ سرکار کے حلقہ بگوش اور جاں نثار رہیں گے.

ہمیں نہایت رنج و افسوس ہے کہ ناتجربہ کار و نوجوان امیر امان اللہ خان والیٔ کابل نے کسی غلط مشورہ سے عہد ناموں اور اپنے باپ دادا کے طرزِ عمل کی خلاف ورزی کر کے خداوند تعالیٰ کے صریح حکم ”و اوفوا بالعھد ان العھد کان مسؤلا“ (یعنی وعدے کا ایفا کرو، ضرور وعدے کے متعلق پوچھا جائے گا) کی نافرمانی کی۔ ہم جنابِ والا کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم امیرِ افغانستان کے اس طرز عمل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم اہالیان پنجاب احمد شاہ کے حملوں اور نادر شاہی قتل و غارتگری کو نہیں بھول سکتے۔ ہم اس غلط اعلان کی، جس میں اس نے سراسر خلاف واقع لکھا ہے کہ اس سلطنت کی مذہبی آزادی میں خدانخواستہ کسی قسم کی رکاوٹ واقع ہوئی، زور سے تردید کرتے ہیں۔ امیر امان اللہ خان کا خاندان سرکار انگلشیہ ہی کی بدولت بنا اور اس کی احسان فراموشی کفرانِ نعمت سے کم نہیں۔

ہم کو ان کوتاہ اندیش دشمنانِ ملک پر بھی سخت افسوس ہے جن کی سازش سے تمام ملک میں بد امنی پھیل گئی اور جنہوں نے اپنی حرکاتِ ناشائستہ سے پنجاب کے نیک نام پر دھبا لگایا۔ مقابلہ آخر مقابلہ ہی ہے اور کبھی خاموش نہیں رہ سکتا اور یہ حضور والا ہی کا زبردست ہاتھ تھا، جس نے اس بے چینی و بد امنی کا اپنی حسنِ تدبیر سے فی الفور قلع قمع کر دیا۔ ان بد بختوں سے از راہ بد بختی فاش غلطیاں سرزد ہوئیں، لیکن حضور ابرِ رحمت ہیں اور ابرِ رحمت زرخیز اور شور زمین دونوں پر یکساں برستا ہے۔ ہم حضور کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم ان گمراہ لوگوں کی مجنونانہ و جاہلانہ حرکات کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، کیونکہ ہمارے قرآن میں یہی تلقین کی گئی ہے۔ ”لا تفسدوا فی الارض“ (یعنی دنیا میں فساد اور بدامنی مت پیدا کرو) اور ”ان اللہ لا یحب المفسدین“ ( یعنی بے شک خدا فساد کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا)۔

حضورِ انور، اگرچہ آپ کی مفارقت کا ہمیں کمال رنج ہے۔

سر غم سے کِھچے کیوں نہ سرِ دار ہمارا،
لو ہم سے چُھٹا جاتا ہے سردار ہمارا..

لیکن ساتھ ہی ہماری خوش نصیبی ہے کہ حضور کے جانشین سر ایڈورڈ میکلیگن بالقابہم ہیں۔ جن کے نامِ نامی سے پنجاب کا بچہ بچہ واقف ہے اور جن کا حسنِ اخلاق رعایا نوازی میں شہرۂ آفاق ہے اور جو ہمارے لئے حضور کے پورے نعم البدل ہیں۔ ان کا ہم دلی خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کی خدمت والا میں یقین دلاتے ہیں کہ ہم بمثل سابق اپنی جوشِ عقیدت و وفاداری کا ثبوت دیتے رہیں گے۔
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد

مخدوم حسن بخش قریشی،
مخدوم غلام قاسم سجادہ نشین خانقاہ،
نواب حسن،
مخدوم سید حسن علی،
سید ریاض الدین شاہ،
پیر غلام عباس شاہ دیوان،
سید محمد پاکپتن،
خان بہادر مخدوم حسن بخش آف ملتان،
مخدوم صدر الدین شاہ آف ملتان،
میاں نور احمد سجادہ نشین،
پیر محمد رشید،
شیخ شہاب الدین،
خان بہادر شیخ احمد،
سید محمد حسین شاہ شیر گڑھ ضلع منٹگمری،
مخدوم شیخ محمد راجو آف ملتان،
دیوان محمد غوث،
محمد مہر علی شاہ جلالپور،
پیر محمد خضر حیات شاہ،
صاحبزادہ محمد سعد اللہ آف سیال شریف،
سید غلام محی الدین خلف الرشید سید مہر علی شاہ آف گولڑہ شریف،
سید قطب علی شاہ آف ملتان،
پیر چراغ علی آف ملتان،
پیر ناصر الدین شاہ آف شاہ پور،
پیر غلام احمد شاہ آف شاہ پور،
مخدوم غلام قاسم سجادہ نشین،
سید نوازش حسین شاہ آف شیر گڑھ ضلع منٹگمری،
مولوی غلام محمد خادم گولڑہ شریف،
سید فدا حسین ضلع کیمبل پور،
محمد اکبر شاہ آف شیر شاہ ملتان،
غلام قاسم شاہ آف شیر شاہ ملتان،
مولوی سید زین العابدین شاہ آف ملتان،
پیر چراغ شاہ کوٹ سدھانہ جھنگ،
محبوب عالم مخدوم گولڑہ شریف،
منشی حیات محمد گولڑہ شریف،
برہان الدین خادم گولڑہ شریف

اب اس خط پر دستخط کرنے والے محترم اور معزز گدی نشینوں اور مخدوموں کے بارے میں کچھ تفصیل ہو جائے۔

اس خط پر دستخط کرنے والوں میں ایک نام دیوان محمد غوث کا ہے۔ یہ جلال پور پیروالہ میں پیر سلطان احمد قتال کی درگاہ کے گدی نشین تھے۔

انہی دستخطوں میں ایک نام دیوان پیر غلام عباس دیوان کا بھی ہے۔ یہ دیوان محمد غوث آف جلال پور پیروالہ کے بھائی تھے اور ان کے لاولد فوت ہونے کے باعث گدی نشین ہوئے۔ دیوان غلام عباس کے فرزند دیوان عاشق بخاری جلال پور پیروالہ سے متعدد بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ان کے فرزند دیوان عباس بخاری آج کل ضلع ناظم ملتان ہیں۔

انہی ناموں میں ایک نام خان بہادر مخدوم حسن بخش آف ملتان کا ہے۔ مخدوم حسن بخش کے صاحبزادے کا نام مرید حسین تھا۔ آگے ان کے برخوردار مخدوم سجاد قریشی تھے جو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور گورنر پنجاب رہے۔ ان کے بڑے صاحبزادے کا نام مخدوم شاہ محمود قریشی ہے۔ آپ آج کل ہمارے وزیر خارجہ ہیں۔

مخدوم صدرالدین حضرت موسیٰ پاک شہید کے گدی نشین تھے۔ ان کے بھائی راجن شاہ ممبر لیجسلیٹو اسمبلی تھے۔ تب یہ ایک حلقہ تین اضلاع پر مشتمل تھا۔ راجن شاہ کے دو بیٹے تھے ایک بیٹے کا نام غلام مصطفیٰ شاہ تھا جو گدی نشین ہوئے، دوسرے بیٹے کا نام محمد رضا شاہ تھا، جو مخدوم حامد رضا کے والد تھے۔ مخدوم صدرالدین کے سات بیٹے تھے۔ ولایت حسین شاہ، شوکت حسین شاہ، علمدار حسین شاہ، رحمت حسین شاہ، فیض مصطفیٰ مختار حسین شاہ اور ایک بیٹے کا نام میں بھول گیا ہوں (بھول چوک معاف)۔ ہمارے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی علمدار حسین گیلانی کے فرزند ارجمند ہیں۔

ایک نام اکبر شاہ آف شیر شاہ ملتان کا ہے۔ ان کے فرزند کا نام بھی علمدار حسین تھا۔ ان کے ایک بیٹے کا نام احسن شاہ تھا جو ممبر صوبائی اسمبلی و مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب رہے۔ یہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے برادر نسبتی تھے۔

اسی فہرست میں ایک نام پیر چراغ شاہ کا ہے۔ پیر چراغ شاہ سفید پوش کے عہدے پر فائز تھے۔ یہ عہدہ دراصل انگریزوں کا عطا کردہ با عزت انعامی لقب تھا۔ چراغ شاہ کے بیٹے کا نام سید در محمد شاہ تھا۔ در محمد شاہ کے بیٹے کا نام سید امام شاہ تھا۔ یہ امام شاہ ہمارے سابقہ اسپیکر قومی اسمبلی اور حالیہ وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ سید فخر امام کے والد گرامی تھے، یعنی پیر چراغ شاہ فخر صاحب کے پڑدادا تھے۔

یہ بات طے ہے کہ ہم پر وہی لوگ اب بھی حاکم ہیں جو انگریزوں کے زمانے میں باعزت بنے پھرتے تھے۔ یہ چار پانچ نسلوں سے حاکم ابنِ حاکم ابنِ حاکم اور ہم لوگ محکوم ابنِ محکوم ابنِ محکوم اور ابنِ محکوم ہیں۔ بس یہی کل کہانی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close