مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت معیشت کے حوالے سے کسی بھی طرح کے غیر مقبول فیصلوں کی ذمہ داری اپنے سر لینے کو تیار نظر نہیں آ رہی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور ضمانت چاہتی ہے، تاکہ اسے آئندہ سال اگست تک اپنے دور اقتدار کی بقیہ مدت پوری کرنے میں مدد ملے
مقامی ڈان اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ حکومتی اتحاد اپنی صفوں کے اندر سے قبل از وقت انتخابات کے امکان کے بارے میں وضاحت یا غیر مقبول فیصلے لینے کے لیے دباؤ کے باوجود ان معاملات میں اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے طاقتور حلقوں کی جانب دیکھ رہا ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومت کی غیر فیصلہ کن حکمت عملی پہلے سے ہی زبوں حالی کا شکار معیشت کے ساتھ گورننس پر بھی اثر ڈال رہی ہے
موجودہ حکمران، اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ ڈیل کرنے، اگلے ماہ وفاقی بجٹ پیش کرنے اور انتخابات کی تاریخ (غالباً اکتوبر-نومبر) کا فوری اعلان کرنے کی ممکنہ پیشکش سے گریزاں نظر آتے ہیں
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ حکومت کی بیک ڈور بات چیت کا علم رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ اس وقت ایک اہم نکتہ ہے، اتحادی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ اگر انتخابات قبل از وقت ہوئے تو معاشی محاذ پر مختصر مدت کے لیے مشکل فیصلے کرنا انہیں مہنگا پڑے گا
منحرف اراکین اسمبلی اور ہائی پروفائل مقدمات کی کارروائی میں مداخلت کے بارے میں حالیہ عدالتی فیصلوں کو (جس کا پی ٹی آئی نے خیرمقدم کیا ہے) بعض سیاسی مبصرین نے موجودہ حکمرانوں کے لیے اس پیغام سے تعبیر کیا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو پندرہ ماہ تک طول نہیں دے سکتے
وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے حکمران اتحاد کو درپیش مسائل پر کھل کر بات کی، انہون نے کہا کہ اب تک تمام اتحادی جماعتوں نے پندرہ ماہ کی مدت کی تکمیل پر اتفاق کیا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر آئی ایم ایف راضی ہو جائے تو معیشت کو بحال کیا جا سکتا ہے لیکن پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ ہمیں قبول نہیں، اگر حکومت کو ہر جانب سے تعاون حاصل ہو تو ہم ملک کو بحرانوں سے نکال سکتے ہیں لیکن اگر ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں تو ہم اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لے کر عوام کے پاس جا سکتے ہیں
دوسری جانب شہباز اسپیڈ کے نام سے جانے جانے والے وزیر اعظم شہباز شریف اب تک خاص طور پر اہم فیصلہ سازی میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں کامیاب نہیں ہو سکے، ان کے نام کی اسپیڈ صرف ڈالر کی قیمت بڑھنے میں ہی نظر آئی ہے جو دو سو کی حد عبور کر چکا ہے
لگتا ہے کہ ان کا کردار ان کے بڑے بھائی نواز شریف، اسٹیبلشمنٹ اور اتحادیوں (بالخصوص پی پی پی اور جے یو آئی ف) کے درمیان ایک مفاہمت کار تک محدود ہو گیا ہے
چارج سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف پہلے دو ہفتوں کے دوران جس جوش کے ساتھ نظر آئے تھے اب وہ بھاپ بنتا نظر آرہا ہے، ان کی حکومت خود کو آج جس مشکل پوزیشن میں دیکھ رہی ہے، اس پر بات چیت کرنا مشکل ہو رہا ہے، حتیٰ کہ مریم نواز کی جانب سے حکومت چھوڑنے کی بات بھی کی گئی
حالات نے حکمران اتحاد کے معمار، پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو ایک بار پھر نئی حکمت عملی کے ساتھ تمام اتحادی جماعتوں کے سربراہان تک پہنچنے پر مجبور کر دیا ہے، گزشتہ روز انہوں نے شہباز شریف سے ملاقات کی اور چیلنجز پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا
یہ ملاقات اس وقت بھی اہمیت اختیار کر گئی جب آصف زرداری، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی گرفتاری کے پس منظر میں اسلام آباد سے لاہور پہنچے اور منی لانڈرنگ کیس میں خصوصی عدالت میں وزیر اعظم شہباز شریف کے منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اے کی جانب سے مقدمے کی فوری پیروی نہ کرنے کا معاملہ بھی سامنے آیا
ماڈل ٹاؤن میں نوے منٹ سے زیادہ کی ملاقات کے بعد مسلم لیگ (ن) کی جانب سے جاری کردہ ایک مختصر بیان میں کہا گیا کہ ’ملاقات میں ملک کی موجودہ صورتحال بالخصوص معیشت پر تبادلہ خیال کیا گیا، اتحادی جماعتوں نے وزیراعظم کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور ‘عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کیے گئے اقدامات’ پر موجودہ حکومت کی تعریف کی‘
تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے، جس کے بعد معزول وزیر اعظم عمران خان کے بڑے پیمانے پر ریلیوں اور دارالحکومت کی جانب متوقع لانگ مارچ کے دباؤ نے حکومتی اتحادیوں کے اہم کھلاڑیوں کو اس حکمت عملی پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جو انہوں نے گزشتہ ماہ کے اوائل میں پی ٹی آئی حکومت کو گرانے سے پہلے تشکیل دی تھی
حکومتی اتحاد کا خیال ہے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ دیگر معاملات طے پا جائیں تو وہ پی ٹی آئی کے مارچ کو سنبھال سکتے ہیں، وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ’اجازت‘ ملنے کی صورت میں عمران خان کو گرفتار کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے، ان کے خیال میں سابق وزیراعظم ایک دن بھی جیل میں گزارلیں تو سیاست کو بھول جائیں گے
آصف زرداری نے حال ہی میں مولانا فضل الرحمٰن اور مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے بھی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مشورے کے لیے رابطہ کیا، مسلم لیگ (ق) کے سابق وفاقی وزیر مونس الٰہی نے حال ہی میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کی پارٹی کے دو ارکان قومی اسمبلی سالک حسین اور طارق بشیر چیمہ (جو اب شہباز کابینہ کے رکن ہیں) حکومت چھوڑ دیں گے، جس سے قومی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کی مطلوبہ 172 ارکان کی تعداد کم ہوجائے گی، اس پس منظر میں آصف زرداری نے چوہدری شجاعت سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے ارکان اسمبلی ان کا ساتھ نہ چھوڑیں
سابق وفاقی وزیر شیخ رشید نے گزشتہ روز دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے حالیہ سیاسی پیش رفت کی وجہ سے قبل از وقت انتخابات کے حوالے سے لچک دکھائی ہے، الیکشن پر مسلم لیگ (ن) میں دو گروپ ہیں، حکومت کو بالآخر عمران خان کے قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کو ماننا پڑے گا کیونکہ وہ کسی صورت جھکنے کے لیے تیار نہیں ہیں
مسلم لیگ (ن) کے نواز کیمپ نے پہلے ہی عمران خان کے مطالبے کی توثیق کر دی ہے اور کہا ہے کہ شہباز شریف کی قیادت میں حکومتی اتحاد کے لیے پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کی تباہ کن پالیسیوں کی وجہ سے عوام پر مزید مہنگائی کا بوجھ ڈالنا دانشمندی نہیں ہوگی
پی پی پی کے ایک ذرائع نے بتایا کہ امکان ہے کہ مخلوط حکومت آئندہ ہفتے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ آخری ‘بیک ڈور رابطے’ کے بعد حکومت میں رہنے یا نئے انتخابات کرانے کے بارے میں فیصلہ کرے گی، اگر معاملات ٹھیک نہ ہوئے تو ہم فوری طور پر انتخابی اور احتسابی اصلاحات کریں گے اور انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں گے
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کی حالت اس وقت ایسے شخص کی سی ہے، جو کسی طرح شیر پر سوار تو ہو گیا ہے لیکن اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس پر سواری کرنی کیسے ہے، ایسے میں اسے شیر سے اترنے کی پریشانی بھی لاحق ہے، لیکن اس میں بھی خطرہ نظر آتا ہے.