ایک طرف کورونا وبا سے متعلق پابندیوں میں نرمی ہونے اور دنیا کے کئی ملکوں میں اس کے خاتمے کے بعد رواں سال پاکستان کو بڑی تعداد میں آم کے ایکسپورٹ آرڈر موصول ہوئے ہیں تو دوسری طرف ایکسپورٹرز کا کہنا ہے کہ کرایوں میں بے تحاشا اضافہ اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آم کی کم پیداوار آرڈر پورے کرنے میں آڑے آ رہی ہے
پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز، امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے مطابق رواں سال ہیٹ ویو اور پانی کی کمی کی وجہ سے پاکستان کے آموں کی مجموعی پیداوار میں چاس فیصد تک کمی ہوگی
ایکسپورٹرز کے مطابق تیار شدہ آم بھی بیرون ملک بھجوانے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ فضائی کرایوں میں اضافے کی وجہ سے اس کی برآمد بہت مہنگی پڑ رہی ہے
ان کا کہنا ہے کہ ذائقے اور معیار کے اعتبار سے اپنی ایک الگ پہچان رکھنے والے پاکستانی آموں کی مانگ امریکا، یورپ سمیت خلیجی ملکوں میں بڑھ رہی ہے اور دنیا بھر سے نئے آرڈرز کی موصولی کے بعد اگرچہ 25 مئی سے برآمد کا عمل شروع ہو چکا ہے، تاہم رواں برس ٹرانسپورٹ کرائے بہت زیادہ بڑھنے کی وجہ سے تمام آرڈرز کی ترسیل میں مشکلات آ رہی ہیں
اس صورت حال بارے سندھ کے ایک بڑے آم ایکسپورٹر آغا ہمایوں کا کہنا ہے ”ہمارے پاس آرڈرز بہت زیادہ آ رہے ہیں لیکن اس بار ایک مسئلہ ائیر فریٹ (فضائی کرایوں) کا ہے۔ ہمیں کرایہ ڈالر میں ادا کرنا پڑ رہا ہے جو مہنگا پڑ رہا ہے۔ ایک سو روپے کلو آم ہے اور کرایہ چار سو روپے لگتا ہے۔ اس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں پاکستانی آم مہنگا ہو رہا ہے“
پاکستان ایگریکلچر اینڈ ہارٹیکلچر فورم کے صدر شیخ امیتاز حسین کے مطابق پاکستان میں آم کی پیداوار اٹھارہ سے بیس لاکھ ٹن ہے۔ گزشتہ سیزن میں ملک سے سوا لاکھ ٹن آم ایکسپورٹ ہوا تھا
شیخ امتیاز حسین کہتے ہیں ”پاکستان آم کی برآمدات سے 90 ملین ڈالرز کما رہا ہے۔ اس آمدن کا بڑا حصہ ائیرلائنز کرائے کی مد میں لے جاتی ہیں.
دو سو روپے کلو میں پڑنے والا آم کرایہ ملانے کے بعد نو سو روپے کلو ہو جاتا ہے۔ اس لیے پاکستان کو آم کی برآمد کا وہ فائدہ نہیں ہو رہا ہے، جو ہونا چاہیے“
اس ضمن میں ایک اور مشکل کا ذکر کرتے ہوئے شیخ امتیاز حسین کا کہنا تھا ”پاکستان کے پاس بحری و فضائی کارگو سروس کی بہتر سہولیات موجود نہیں ہیں۔ اس وقت آم پی آئی اے کی مسافر پروازوں کے ذریعے برآمد کیا جاتا ہے۔ اس لیے بڑی مقدار میں نہیں بھیجا جا سکتا“
شیخ امتیاز نےتجویز پیش کی کہ پاکستان کو برآمدات بڑھانے کے لیے اپنے کارگو جہاز لینے ضروری ہیں
انہوں نے کہا ”پاکستان سے خلیجی ممالک کا سمندری راستہ قریب ہے اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اومان سمیت کئی خلیجی ممالک میں پاکستانی آم بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ اگر یہاں سے سمندری راستے سے بھی آم ایکسپورٹ کیے جائیں تو برآمد کو بڑھایا جاسکتا ہے“
شیخ امتياز کے مطابق ”برآمد کے اخراجات کم کروانے کے لیے ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو خصوصی اقدامات کرنا چاہئیں۔ کرائے میں رعایت ملے تو ملک کے لیے اچھا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے“
شیخ امتیاز نے کہا کہ آم کی برآمد مزید بہتر بنانے کے لیے بیرون ملک نمائشوں کا انعقاد انتہائی ضروری ہے اور اس سلسلے میں حکومت کو برآمد کنندگان کی مدد کرنی چاہیے۔ اگر حکومت تعاون کرے تو رواں برس خلیجی ممالک سمیت یورپ اور امریکہ میں مینگو فیسٹیول منعقد کیے جائیں گے۔ اس سے برآمد کے مزید آرڈر ملیں گے
انہوں نے بتایا ”پاکستان سے 25 مئی سے سندھڑی آم کی ایکسپورٹ شروع ہوگئی ہے۔ اس کے بعد چونسہ کی برآمد شروع ہوگی۔ یہ دو بڑی اقسام ہیں جن کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر اقسام کے آم بھی برآمد کیے جاتے ہیں“
انہوں نے بتایا کہ برآمد کے لیے پورے ملک سے آم جمع کیے جاتے ہیں اور مئی سے نومبر تک آموں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے
پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے علاقے میرپور خاص سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ رحیم یار خان سے جنوبی پنجاب تک پہنچتا ہے اور ملتان پر جا کر اختتام پذیر ہوتا ہے جہاں سفید چونسہ آم کی آخری قسم ہوتی ہے، جو اپکسپورٹ کی جاتی ہے
واضح رہے کہ پہلے اگست میں آموں کا سیزن ختم ہوجاتا تھا، اب یہ نومبر تک سیزن چلتا ہے
بارٹر ٹریڈ کے بارے میں بات کرتے ہوئے شیخ امتیاز نے کہا ”افغانستان اور ایران کی بارٹر ٹریڈ کی منڈیوں میں بھی اب آم کی تجارت بڑھ رہی ہے۔ یعنی سامان کے بدلے آم خریدے جا رہے ہیں۔ پاک افغان بارڈر پر بھی ایک بڑی منڈی لگنا شروع ہوگئی ہے کیونکہ افغانستان سے خریداری روپے میں کرلی جاتی ہے، اس لیے اس منڈی میں بھی بہتری دیکھی جارہی ہے۔ چین بھی ایک بڑی منڈی بننے جارہی ہے۔ یہاں سے بھی ہم دیگر پھلوں کے بدلے آم فروخت کرسکتے ہیں“
دوسری جانب وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے بھی خبردار کیا ہے کہ ملک میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آم کی پیداوار میں 50 فیصد کمی ہونے کا امکان ہے
وفاقی وزیر شیری رحمٰن نے میڈیا کو آگاہ کیا کہ دنیا میں آم کی پیداوار والے ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے مگر رواں برس پانی کی شدید قلت اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے آم کی پیداوار میں 50 فیصد کمی آنے کا امکان ہے، رواں برس سندھ کے بیشر علاقوں میں زرعی پانی کی 60 فیصد قلت ہے
وزیر موسمیاتی تبدیلی نے مزید کہا کہ ہر سال پاکستان میں آم کی پیداوار 18 لاکھ ٹن ہوتی ہے جو کہ رواں سال آدھی رہ جائے گی، سندھ اور پنجاب میں ایک ہی سال میں آم کی پیداوار میں 50 فیصد کمی ہونا ہم سب کے لیے تشویشناک بات ہے
انہوں نے اس بات سے بھی خبردار کیا کہ گزشتہ کئی روز سے پانی کی قلت اور گرم درجہ حرارت کا سبب بننے والی گرمی کی لہریں آنے والے برسوں میں باقاعدہ معمول بن جائیں گیں.