سندھ حکومت عوام پر روزانہ کوڑا کرکٹ اٹھانے کے لئے کچرا فیس عائد کرنے پر غور کر رہی ہے
اس پیشرفت کی تصدیق سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ (ایس ایس ڈبلیو ایم بی) کے منیجنگ ڈائریکٹر زبیر احمد چنہ نے کی ہے
منیجنگ ڈائریکٹر ایس ایس ڈبلیو ایم بی کا کہنا ہے کہ بورڈ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے تاکہ کوڑا اٹھانے کے چارجز ان کے ماہانہ بلوں میں شامل کئے جائیں
البتہ ایس ایس جی سی ایل نے اپنے یوٹیلیٹی بلوں میں کچرا اٹھانے کے چارجز شامل کرنے سے انکار کر دیا ہے
زبیر چنہ کا کہنا ہے کہ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نے کچرا اٹھانے کی فیس کی وصولی کے لئے اپنا ریونیو سیل بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لئے ورلڈ بینک سے موبائل سافٹ ویئر ایپلیکیشن کے لئے منظوری بھی حاصل کرلی گئی ہے
زبیر چنہ نے موبائل ایپلیکیشن سے متعلق بریفنگ میں بتایا کہ طریقۂ کار تھوڑا مشکل ہے، لیکن بورڈ نے ریونیو اکٹھا کرنے کی ایپلیکیشن کے بنانے پر کام شروع کر دیا ہے۔ اس کے ذریعے عوام سے کچرا فیس کی وصولی کی جائے گی
ریونیو اکٹھا کرنے کے پورے نظام کو چلانے کے لئے ورلڈ بینک کی منظوری کے ساتھ ایک سافٹ ویئر تیار کیا جانا ہے، اس سافٹ ویئر کی تخمینی لاگت تقریباً 40 سے 50 ملین (چار سے 5 کروڑ) روپے ہے
ایس ایس ڈبلیو ایم بی کے منیجنگ ڈائریکٹر زبیر چنہ نے گاربیج فیس کلیکشن سسٹم سے متعلق بتایا کہ سب سے پہلے موبائل ایپلیکیشن تیار کی جائے گی اور اسے ریونیو اکٹھا کرنے والے مرکزی سیل سے منسلک کیا جائے گا
کسی خاص علاقے میں بورڈ نے ایک ایسے شخص کو نامزد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو مذکورہ علاقے میں معروف ہو اور اس کے آس پاس کم از کم دس سال سے رہ رہا ہو۔ وہ شخص، جس کا اس مخصوص علاقے میں نچلی سطح پر رابطہ ہے، وہ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا نمائندہ ہوگا، جو رہائشی یونٹوں سے کوڑا کرکٹ کی فیس لینے کا مجاز ہوگا
ایس ایس ڈبلیو ایم بی اس شخص کو ایک آئی ڈی جاری کرے گا اور اسے موبائل سافٹ ویئر میں اپ لوڈ کرے گا، جیسے ہی ایس ایس ڈبلیو ایم بی کا نمائندہ کسی بھی گھر سے کوڑا کرکٹ کی فیس جمع کرے گا تو سسٹم اس کی نشاندہی کرے گا
کچرا فیس جمع کرنے کی ذمہ داری لینے والا شخص بورڈ کے پاس دس لاکھ روپے کی بینک گارنٹی جمع کرائے گا۔ بورڈ اس فرد کو بینکوں سے دس لاکھ روپے تک کا مائیکرو فنانسنگ قرض لینے میں مدد کرے گا
سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ نے پہلے ہی مذکورہ سفارش کی منظوری دے دی ہے اور بینک اس سلسلے میں قرضے جاری کرنے پر متفق ہیں
ابتدائی طور پر بورڈ نے رہائشی یونٹس کے لئے کچرے کی فیس کا ڈھانچہ تجویز کیا ہے۔ اسے تین اقسام کم آمدنی والے علاقے، درمیانی آمدنی والے علاقے اور زیادہ آمدنی والے علاقے میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں کچرا اٹھانے کی فیس ایک سو روپے سے تین سو روپے تک رکھی گئی ہے
کم آمدنی والے علاقوں کے لئے کچرا اٹھانے کی فیس ایک سو روپے ماہانہ، درمیانی آمدنی والے علاقوں کیلئے ماہانہ دو سو روپے اور زیادہ آمدنی والے علاقوں کے لئے یہ فیس ماہانہ تین سو روپے ہوگی
ایس ایس ڈبلیو ایم بی کی کچرا اٹھانے کی فیس 6 کنٹونمنٹ بورڈز پر لاگو نہیں ہوگی، کیونکہ ان کے پاس کچرا اٹھانے کا اپنا نظام اور ملازمین ہیں
صنعتی اکائیوں کے لئے فیس کے ڈھانچے کے مطابق صنعتی صارفین کو بھی تین کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ چھوٹے صنعتی یونٹوں کے لئے دو ہزار سے چار ہزار روپے ہے، درمیانی صنعتی اکائیوں کے لئے چار ہزار سے چھ ہزار اور بڑی صنعتی اکائیوں سے چھ ہزار سے دس ہزار روپے وصول کئے جائیں گے
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کے ایم سی پہلے ہی اپنے بلوں میں میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اور ٹیکسز کی وصولی کے لئے کے الیکٹرک سے رابطے میں ہے،تاہم ابھی تک اس معاملے پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا، کیونکہ اسے سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے
درخواست گزار نجیب الدین نے درخواست میں استدعا کی ہے کہ عدالت سندھ حکومت کی جانب سے کے-الیکٹرک کے بلوں کے ذریعے کے ایم سی، ایم یو سی ٹی ٹیکس کی وصولی کے فیصلے کو کالعدم قرار دے
ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک بلاجواز عمل ہے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دوران عوام کی جیبوں پر اضافی بوجھ ہے۔