کشتی کا نام سامنے آئے اتو ہمارے ذہن میں لہریں، سمندر اور مچھلی کے شکار کی تصویر آجاتی ہے لیکن گودار کے دو بھائیوں نے ایک کشتی کو کیفے بنا ڈالا
انہوں نے اس کیفےبکو پدی زِر کیفے کا نام دیا ہے
گوادر میں سمندر کے کنارے بنایا گیا کشتی میں بنا یہ منفرد کیفے ’پدی زر‘ کسی مشہور ریستوران سے کم نہیں
یہاں گاہکوں کو وہ پر فضا مقام اور سہولیات میسر ہیں جو شاید کسی اچھے ریسٹورنٹ میں بھی نہ ہوں
بلوچستان کا ساحلی شہر گوادر سی پیک اور کئی حوالوں سے ملکی و بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، لیکن اس کی قدرتی خوبصورتی اور یہاں کے لوگوں کے مزاج اور کاروباری تخلیق کے بارے میں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں
گودار کی اقتصادی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس کا حسین ساحل ہمیشہ سے ایک خوبصورت تفریحی مقام رہا ہے، یہاں بلوچستان سمیت ملک بھر کے لوگ سیر و تفریح کے لیے آنا پسند کرتے ہیں
اسی خوبصورت ساحل پر پدی زر کشتی کیفے میں شام کے وقت نوجوان اپنی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے آتے ہیں
فہد اسحاق نے بتایا کہ ’یہ کشتی بالکل ناکارہ تھی۔ ہم نے اسے ایک کیفے بنایا اور یہ شروعات ہے۔ ہم جلد ایک لائبریری بنائیں گے جہاں لوگ چائے کے ساتھ ساتھ مطالعہ بھی کیا کریں گے‘
کیفے میں موجود ایک شہری شہداد بلوچ کا کہنا تھا ’شام کے وقت خصوصاً مغرب کے وقت یہاں شہریوں کی محفل سجتی ہے۔ اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ پدی زر میں واقع ہے اور اس کا نام بھی کیفے پدی زِر ہے‘
مکران کےلوگ ہمیشہ منفرد کارنامے سرانجام دینے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں
واضح رہے کہ کشتی کیفے سے پہلے گودار میں کنٹینر لائبریری کا قیام بھی عمل میں لایا گیا، جہاں اب بھی سمندر کے کنارے واقع ڈپٹی کمشنر آفس موجود ہے اور طلبا و طالبات مطالعہ کرنے کے لیے آتے ہیں
اس سے قبل تربت کے علاقے مند میں اونٹ لائبریری تھی، جہاں کے ایک شہری اونٹ پہ کتابیں لاد کر گاؤں گاؤں جاتے تھے اور ان کے گرد بچے بیٹھ کر مطالعہ کیا کرتے تھے
اسی طرح گوادر کا یہ پدی زر کشتی کیفے بھی یہاں کے لوگوں کے تخلیقی ذہن کی غمازی کرتا ہے
اگر اس میں لائبریری بھی بن گئی تو یہ ساحل سمندر پر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے مطالعہ کرنے کا رومانوی مرکز بن جائے گا۔