کمدار دبے پاؤں چلتا ہوا آیا اور جھک کر سائیں کے کان میں سرگوشی کی ”سائیں۔۔ تھانیدار آیا ہے“
سائیں کے منہ کا ذائقہ کڑوا ہو گیا
”اس وقت؟“
تھانیدار ہاتھ باندھے اوطاق میں داخل ہوا اور سائیں کے گھٹنوں کو عقیدت سے چھو کر ہاتھ باندھے باندھے کھڑا ہو گیا
سائیں نے ابرو کے اشارے سے معاملہ پوچھا
”سائیں بات تو چھوٹی سی ہے پر آپ کے علم میں رہے کہ آپ کے کمی کمین سر پر چڑھ رہے ہیں۔۔۔ آپ کا کمی باسو باگڑی آج تھانے نالش لے کر آیا تھا کہ چھوٹے سائیں نے بازار میں اس کی بیٹی کی اوڑھنی پکڑی تھی“
”اور تُو مجھے یہاں یہ خبر دینے آیا ہے حرام خور؟“ سائیں حقے کو پاؤں سے ٹھوکر مارتے ہوئے دھاڑا
”نا سنائیں نا! میری بھلا یہ اوقات۔۔۔ اسے تو میں نے نیلا جامنی کر کے لاک آپ میں بند کر دیا۔۔ آپ کے کان میں بھی بات ڈالنی ضروری تھی سائیں۔۔“
”کمدار!!“ سائیں گرجا
”حاضر سائیں“ وہ ہاتھ جوڑے جھکا جھکا آگے آیا
”سب سے وفادار جناور کون ہے؟“
”کتا ہے سائیں!!“
”بس اس کمی کو وفاداری سکھا، اس کو اوطاق کا کتا بنا۔۔۔“
”جو حکم سائیں.“
کمدار ہاتھ جوڑے الٹے پیروں تھانیدار کے ساتھ اوطاق سے باہر نکل گیا۔۔
پندرہ دن۔۔۔ پورے پندرہ دن انہوں نے باسو باگڑی کو اوطاق کا کتا بنا کر رکھا
باسو کے گلے میں پٹہ ڈال کر زنجیر ڈال دی اور صبح شام گاؤں میں اسے چاروں ہاتھ پاؤں کے بل گھماتے
باسو کو کتے کے برتن میں کھانا ملتا اور اس کھانے کو کتے ہی کی طرح لبڑتے ہوئے کھانا پڑتا. جب تک باسو کو پکی طرح سے ”میں کتا ہوں“ کا سبق یاد نہیں ہو گیا، ہنٹر اور جوتے سے اس کی تواضع جاری رہی
پندرہویں دن باسو کو خود یقین آ گیا کہ وہ کتا ہے
آدھی رات کے کچھ ادھر کمدار نے باسو کو سائیں کے آگے حاضر کیا، سائیں کمرے میں اکیلا شراب کے نشے میں دھت تھا۔ باسو سائیں کے پیروں پر لوٹ لوٹ گیا
سائیں نے باسو کی پیٹھ تھپتھپائی اور کہا ”چل میرے کتے۔۔ اب دو پیروں پر چل کر اپنی جھونپڑی جا اور اپنی سیتا رانی کو لے کر آ۔۔
چل چل جلدی کر۔۔ میرا نشہ خراب نہ کر“
باسو جھکے جھکے اپنے پاؤں پر اسپرنگ کی طرح اچھلا اور سائیں کے نرخرے میں اپنے دانت گاڑ دیے
آخر کتا جو ٹھہرا!!