ہم سات بھائی بہنوں میں الن بھائی دوسرے نمبر پر تھے ان سے بڑے مرحوم آفاق احمد تھے جو صحافت کے پیشے سے وابستہ رہے۔ انہوں نے اپنا کیرئیر روزنامہ حریت سے شروع کیا۔ پھر مارننگ نیوز اور جنگ گروپ میں بھی خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ وہ بے شمار جرائد اور میگزین کے لیے بھی لکھتے تھے۔ آفاق بھائی ریڈیو پاکستان کراچی سے بھی منسلک رہے وہ ریڈیو پر ہونے والے مختلف پروگرامز کے علاوہ اپنے وقت کے مشہور پروگرام ”اسٹوڈیو نمبر نو“ سے نشر ہونے والے ڈراموں میں صدا کاری بھی کرتے رہے۔ لیکن صحافت ان کی پہلی ترجیح تھی بڑے بھائی صاحب تا دم مرگ بزنس ریکارڈر سے منسلک رہے
دوسرے نمبر پر الن بھائی تھے ان کا نام اقبال احمد تھا لیکن گھر اور دوستوں میں الن ہی کے نام سے جاتے تھے بعد میں انہوں نے اپنے نام میں ”فیصل“ کا اضافہ کر لیا
وہ اپنی بنائی تصاویر پر اقبال فیصل ہی لکھتے اور مصوری کی دنیا میں اسی نام سے پہچانے گئے۔ ہم بھائی بہن انہیں چھوٹے بھائی کہا کرتے تھے
چھوٹے بھائی صاحب ایک پروفیشنل آرٹسٹ تھے ان کی اپنی دنیا تھی۔ انہی کی وجہ سے نوعمری ہی میں صادقین۔ پکاسو۔ مائیکل انجیلو عبد الرحمن چغتائی اور دوسرے آرٹسٹ کے ناموں سے ہمارے کان آشنا ہوئے۔ بھائی صاحب کے پاس مختلف فنکاروں کی سوانح اور تصاویر کا ذخیرہ تھا۔ ان کی اپنی بنائی ہوئی پینٹنگ اور آئل کلر گھر میں جابجا بکھرے نظر آتے ان رنگوں کی بو اب تک ناک میں محسوس ہوتی ہے۔ بھائی صاحب کافی عرصہ عظیم آرٹسٹ صادقین کے ساتھ ان کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے رہے
آج بھی کراچی میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں صادقین صاحب کی بہت سی نادر پینٹنگز اور میورلز آویزاں ہیں جن کی تخلیق میں میرے مرحوم بھائی کی کاوش بھی شامل ہے۔ بھائی کو صادقین صاحب سے ایک عقیدت تھی ان کے ساتھ کام کرنے کو وہ ایک اعزاز سمجھتے۔ الن بھائی کے تجریدی آرٹ اور خطاطی میں بھی صادقین مرحوم کا رنگ جھلکتا ہے۔ ان کی قرآنی آیات پر مشتمل کیلی گرافی اور تجریدی آرٹ میں بنائی گئی نیم عریاں تصاویر بھی اسی چھوٹے سے گھر کا حصہ تھیں جن کو وہ ابا سے چھپا کر بناتے اور رکھتے اور جب کبھی ابا کی نظر ان تصاویر پر پڑ جاتی تو وہ نہایت ناگواری سے استغفراللہ کہ کر وہاں سے چلے جاتے
گھر چھوٹا پڑنے لگا تو وہ الگ گھر میں منتقل ہو گئے جو انہیں اسٹیٹ بینک کی طرف سے ملا تھا اس کے باہری کمرے میں انہوں نے اپنا اسٹوڈیو بنا لیا وہاں ان کے ہم خیال دوست اور دوسرے آرٹسٹ کا بھی آنا جانا رہتا۔ اقبال مہدی۔ جمی انجینئیر۔ گوپال داس اور ایک کرسچن آرٹسٹ جیمس بھی آیا کرتے سب مل کر تصاویر بناتے آتے اور بھابھی کے ہاتھ کا کھانا کھاتے تھے۔ ایک شام دلچسپ واقعہ ہوا عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت تھا بھائی صاحب اپنے مصور دوستوں کے ہمراہ اسی اسٹوڈیو میں کسی پینٹنگ پر کام کر رہے تھے
چاروں طرف رنگ اور برش پھیلے ہوئے تھے کہ اچانک کال بل بجی انہوں نے دروازہ کھولا تو سامنے تبلیغی جماعت کی ٹیم تھی۔ قبل اس کے کی وہ اپنی تبلیغی بیان شروع کرتے بھائی صاحب ان کو اندر لے آئے اور اپنے دوستوں کا تعارف کرایا کہ یہ گوپال داس ہیں۔ ہندو ہیں۔ جمی انجینئر پارسی ہیں۔ پھر جیمس کا تعارف کرایا ان کے بعد اقبال مہدی کے ”خیالات“ پر روشنی ڈالی اور کہا ان پر تبلیغ کر لیں اور راہ راست پر لے آئیں اور میری فکر نہ کریں میں اپنا جواب خود دے لوں گا
تبلیغیوں نے شاید اسی کمرے کے کسی گوشے میں مغربی مشروب کی بھی بو سونگھ لی تھی جس کے بغیر بقول فنکار ”فن باہر ہی نہیں آتا“ ۔ بیچارے تبلیغی لاحول پڑھتے اور اپنے ایمان کو بچا کر کمرے سے باہر نکل گئے اور پھر کبھی ان کے گھر کا رخ نہیں کیا۔ نامور آرٹسٹ لیلی زبیری، انور شعور صاحب، اقبال فریدی اور کئی شخصیات ان کے حلقہ احباب میں شامل تھے
الن بھائی ہر قسم کی کتابیں پڑھتے لیکن وہ ابن صفی کے بہت رسیا تھے۔ ان کی کوئی کتاب ایسی نہ تھی جو انہوں نے نا پڑھی ہو۔ ان کی اپنی دنیا تھی اور وہ جدیدیت کے قائل تھے لیکن تاریخ اسلام پر ان کی گہری نظر تھی۔ انہوں نے اسلامی ہسٹری میں ایم۔ اے کیا تھا
الن بھائی کو اپنی جائے پیدائش دیکھنے کا بہت شوق تھا وہ نوے کی دہائی میں لکھنؤ گئے تو ان کی سب سے بڑی خواہش وہ مکان دیکھنا تھا جہاں ان کا بچپن گزرا۔ لکھنو میں وہ ڈاکٹر یونس نگرامی صاحب کے گھر رہے جو ان کے ہم عمر بھی تھے۔ انہوں نے یونس بھائی سے اپنی دیرینہ خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ بس تم مجھے اس محلہ تک پہنچا دو اور پھر کچھ نہ بتانا میں اپنا گھر خود تلاش کر لوں گا۔ چنانچہ بھائی صاحب کو اس محلہ میں لے جایا گیا اس کے بعد وہ خود ٹھیک اپنے سابقہ گھر تک پہنچ گئے
لاکھ منع کرنے کے باوجود انہوں نے اس گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ ایک خاتون باہر آئیں تو بھائی صاحب نے آنے کا مقصد بتایا۔ خاتون اندر چلی گئیں اور صاحب خانہ کے ساتھ تشریف لائیں اور اندر چلنے پر اصرار کیا۔ بھائی صاحب نے کہا میں ایسے اندر نہیں جاؤں گا پہلے اس گھر کا نقشہ مجھ سے سن لیں تاکہ آپ کو یقین آ جائے کہ یہاں میں رہ چکا ہوں۔ بھائی صاحب نے پورے گھر کا نقشہ بتایا تو اہل خانہ بہت خوش ہونے اور اندر لے جا کر گھر کی سیر کرائی اور خاطر مدارات بھی کی۔ اتفاق سے اس گھر کے نئے مکین بھی پاکستان کے کسی علاقہ سے ہجرت کر کے بھارت آئے تھے وہ اپنی یادداشتیں دہرانے لگے۔ دونوں کی کہانی تقریباً ایک ہی تھیں۔ اور دکھ بھی ساجھے
مرحوم الن بھائی سیمابی طبیعت کے مالک تھے وہ بہت محبت کرنے والے تھے اور جب طیش میں آ جاتے تو سنبھالنا مشکل ہوجاتا لیکن ان کا غصہ تھوڑی ہی دیر بعد جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا اور معافی تلافی شروع کر دیتے
زمانہ طالبعلمی میں اپنے اسکول اور کالج کے جانے پہچانے افراد میں شمار ہوتے کھیل اور سیاست میں بھرپور حصہ لیتے۔ اسکول کالج اور محلے کی کرکٹ ٹیم ان کے بغیر مکمل نہ ہوتی وہ بہت اچھے فاسٹ بولر اور مڈل آرڈر بیٹسمین تھے۔ روبی شیلڈ اور انٹر یونیورسٹی کرکٹ ٹورنامنٹ میں کئی بار نمایاں کارکردگی پر انعامات بھی جیتے
نامور فلم ایکٹر ندیم (نذیر بیگ) اسلامیہ کالج میں ان کے ہم جماعت تھے دونوں کرکٹ بھی ساتھ ہی کھیلتے۔ ناظم آباد میں لبرٹی گراؤنڈ پر ہر اتوار کو میچ ہوتے تھے جس کے لیے ہفتے کی شام کو پچ تیار کی جاتی مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ پانی ڈالتے جاتے اور ندیم بیگ پچ کی لپائی کرتے۔ پچ اور گراؤنڈ کی نوک پلک درست کر کے وہیں ”محفل“ سجتی سب مل کر گاتے خاص طور سے نذیر بیگ (فلمسٹار ندیم) اپنی سریلی آواز میں مکیش کے گائے گیت بالکل انہی کے انداز سے گاتے۔ انہی کا ایک گانا ”چھوٹی سی یہ زندگانی ہے چار دن کی کہانی تیری“ پانی چھڑکنے کی بالٹی بجا کر خوب گاتے تھے
ندیم ان دنوں بھی نہایت خوش پوش اور نرم گفتار تھے۔ ان دنوں ندیم کالج اور محلوں کے فنکشن میں شوقیہ گانے گاتے تھے پھر وہ ڈھاکہ چلے گئے اور پہلی مرتبہ بطور ہیرو فلم چکوری کے لیے کاسٹ کر لیے گئے۔ فلم کراچی کے کئی سنیما گھروں میں لگی ابتدائی چند دنوں میں اس فلم اور نئی کاسٹ کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی لیکن چند ہی دنوں بعد چکوری نے باکس آفس کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ چکوری کی ریلیز پر ندیم کراچی ہی میں تھے اور جبیس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے سامنے ہی پیراڈائز سنیما تھا جہاں فلم لگی تھی انہوں نے بھائی صاحب کو فون کر کے بلایا اور وہ دونوں خاموشی سے فلم دیکھنے چلے گئے اور سر جھکا کر مایوس واپس لوٹے ہال خالی تھا۔ چند روز فلم ہٹ ہو گئی اور نذیر بیگ ندیم کے نام سے پہچانے گئے اور صف اول کے ہیرو بن گئے۔ فلم چکوری کے بعد انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا
مجھے خوب یاد ہے شاید اتوار کا دن تھا کراچی میں مارننگ شو ہوا کرتا تھا۔ الن بھائی مجھے کوئی ہندوستانی فلم دکھانے ریگل سنیما لے گئے یہ میری کسی سنیما میں پہلی فلم تھی۔ فلم شروع ہونے سے پہلے ہال میں گھپ اندھیرا ہو گیا اور میں گھبرا گیا۔ فلم تو خاک سمجھ نہیں آئی بس بھائی کو تنگ کرتا رہا کہ گھر چلیں اور وہ میری ضد پر فلم ادھوری چھوڑ کر باہر نکل آئے اور گھر کی راہ لی
اسکول کے زمانے میں الن بھائی کی کتابوں اور کاپیوں میں جابجا کارٹون اور تصاویر بنی ہوتیں جس سے والد مرحوم اور ان کے ٹیچرز سخت نالاں تھے اسکول سے شکایات آتیں اور ابا کو بلایا جاتا جہاں ان کی خوب سرزنش ہوتی۔ ابا پریشان رہتے کہ یہ لڑکا کیا بنے گا لیکن وہ کبھی فیل بھی نہ ہوتے کرکٹ۔ شرارتیں اور پینٹنگ یہی ان کے شوق تھے۔ کالج کے دنوں میں اسٹوڈنٹ پالیٹکس میں بھی خوب حصہ لیتے۔ وہ ترقی پسند جماعت این ایس ایف کے کارکن تھے کئی مرتبہ دوران احتجاج حوالات کی بھی سیر کی۔ ابا کی خواہش تھی وہ انگریزی اور حساب پر توجہ دیں لیکن بھائی صاحب پر تو مصوری چھائی ہوئی تھی حساب اور الجبرا کے فارمولے انہیں کیا خاک سمجھ میں آتے
گریجویشن کے بعد ان کو اسٹیٹ بینک میں بطور آرٹسٹ رکھ لیا گیا تو بڑے فخر سے کہتے جس شوق کی وجہ سے میں ہمیشہ ملامتیں سہتا اور باتیں سنتا رہا آج اسی فن کی روزی کھا رہا ہوں۔ اسٹیٹ بینک ہی میں ان کی ملاقات عظیم مصور صادقین مرحوم سے ہوئی اور ان کے دست راست ہونے کا شرف بھی ملا۔ اسی دوران اسٹیٹ بینک میں صادقین مرحوم کے شاہکار مورل اور پینٹنگز آویزاں ہوئے جن میں اقبال فیصل مرحوم کی کاوشیں بھی شامل تھیں۔ بھائی صاحب کی تصاویر کی کئی نمائش ہوئیں۔ ان پر وقت کے بڑے آرٹسٹ نے مضامین بھی لکھے اور ان کے فن کو سراہا
آرٹسٹ تو وہ تھے ہی اور ان کی جمالیاتی حس (Aesthetic Sense) بھی بہت اعلی تھی ہر چیز کو بڑی آرٹسٹک نظر سے دیکھتے۔ وہ حساس بھی بہت تھے کسی کو تکلیف میں دیکھتے تو پریشان ہو جاتے کوئی فقیر مل جاتا تو بغیر گنے چپکے سے رقم اسے دے دیتے۔ بھائی صاحب شوقین مزاج شخص تھے ان دنوں کراچی میں نائٹ کلب۔ تھیٹر۔ سنیما اور دوسری تفریحات عام تھیں اور وہ ان محفلوں کی جان تھے
سنہ پینسٹھ میں ان کی شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد وہ بھابھی صاحبہ کے لیے طرح طرح کے میک اپ کا سامان لاتے میکس فیکٹر اور الزبتھ آرڈن کی میک آپ کٹ میں نے پہلی مرتبہ بھابھی ہی کے پاس دیکھے۔ وہ بھابھی کے لیے رنگ برنگی ساڑھیاں بھی لاتے۔ اپنے ساتھ سنیما اور کلب بھی لے جاتے۔ ابا پردے کے سختی سے قائل تھے۔ بھائی صاحب نے یہ حل نکالا کہ وہ بھابھی کو گھر سے برقع پہنا کر لے جاتے اور باہر ہماری ڈیوٹی ہوتی کہ ان سے برقع لے کر کہیں چھپا دیتے اور واپسی پر ان کے حوالے کر دیتے اور ایک روپیہ انعام پاتے۔ انہوں نے بھابھی کے کئی خوبصورت پورٹریٹ بھی بنائے
بھائی صاحب اپنی ڈریسنگ کا بہت خیال رکھتے تھے خاص طور پر جوتوں کا۔ کیا مجال ہے کہ کبھی جوتے گرد آلود ہوں جیب میں ایک علیحدہ کپڑا رکھتے جہاں موقع ملتا جوتے چمکا لیتے۔ اسی طرح اچھے پرفیوم استعمال کرتے۔ ایونگ ان پیرس لگاتے تو سارا گھر مہک اٹھتا۔ بھابھی سے ہم سب کی خوب بنتی تھی کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا جب کبھی بھائی اور بھابھی میں کوئی ناچاقی ہوجاتی تو ہم سب کی ہمدردیاں بھابھی کے ساتھ ہوتیں۔ اللہ انہیں صحت اور زندگی عطا فرمائے
میں نے نیا گھر بنوایا تو ان سے درخواست کی کہ گھر کی آرائش کے لیے کچھ تصاویر بنا دیں اور وہ ٹالتے رہے۔ ایک دن صبح ان کا فون آیا کہ گھر سے ان کو لے لوں۔ مجھے لے کر وہ اسٹیشنری کی مشہور دکان کے بی سرکار لے گئے رنگ۔ برش۔ کینوس اور ایزل وغیرہ خریدے اور میرے آفس آ گئے۔ ہفتے کا دن تھا آفس میں چھٹی تھی سارا سامان ایک کمرے میں رکھوا کر مجھ سے کہا اب تم جاؤ اور جب میں فون کروں تو آنا۔ میں چوکیدار کو ان کا خیال رکھنے کی ہدایت دے کر گھر واپس آ گیا
رات تقریباً دس بجے مجھے فون کر کے آفس بلایا جب میں پہنچ تو وہ رنگوں میں لت پت اپنی بنائی تصاویر کے درمیان فرش پر بیٹھے تھے۔ اور پانچ تصاویر جن میں دو قرآنی خطاطی بھی شامل تھیں تیار تھیں۔ میری خوشی عروج پر تھی۔ بھائی صاحب کو ان کے گھر چھوڑا اور دوسرے ہی دن تصاویر سے اپنے نئے گھر کو آراستہ کیا جو آج بھی میرے مکان کی زینت ہیں
الن بھائی کو سانس کی تکلیف تھی کبھی دورہ پڑتا تو سخت اذیت ہوتی فوراً اپنی جیب سے انہیلر نکال کر استعمال کرتے تب کہیں انہیں سکون ملتا
میں ان دنوں اسلام آباد میں تھا ایک صبح یہ اندوہناک خبر ملی کہ بھائی صاحب گزر گئے۔ میں پہلی پرواز سے کراچی پہنچا اور ان کی تدفین میں شرکت کی۔ رسومات سے فارغ ہو کر بوجھل دل کے ساتھ واپس اسلام آباد آ گیا۔